5 جون کو دنیا بھر میں ماحولیات کا عالمی دن منایا گیا۔ اس سے پہلے اپریل کے مہینے میں زمین کا عالمی دن منایا گیا، اسی طرح مارچ کے مہینے میں پانی کا عالمی دن منایا گیا تھا۔ اگر تھوڑا سا غور کریں تو یہ تمام دن باہم جڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ بات کو مزید آگے بڑھائیں تو جنگلات کا عالمی دن، آبادی کا عالمی دن اور سب سے بڑھ کر جولائی کے آخر میں ''Overshooting Day‘‘ بھی منایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پہاڑوں اور سمندروں کے بھی عالمی دن منائے جاتے ہیں۔ بات یہاں پر بھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ کچھ مزید ایسے عالمی دن منائے جانتے ہیں جن کا براہِ راست نہ سہی لیکن بالواسطہ تعلق زمین پر پائے جانے والے قدرتی وسائل اور ذخائرکے تیزی سے ختم ہونے یا صورتحال کو لاحق شدید خطرات سے ہے۔ اس حوالے سے عمومی طور پر دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں؛ قدرتی ماحول اور ایکو سسٹم‘ یہ دونوں ہی اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
اب ہم چلتے ہیں ماحولیات سے متعلق منائے جانے والی عالمی ایام کی طرف‘ ان کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ زمین اور ماحولیات کے عالمی دن منائے جانے کا سلسلہ گزشتہ صدی میں 1970ء کی دہائی کے اوائل میں شروع ہوا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس دور میں ایسا کیا ہوا تھا کہ یہ دن منانے کی نوبت آئی۔ اس کے لیے ہمیں دنیا کی آبادی اور اس کی بڑھنے کی شرح پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق 1804ء میں پہلی مرتبہ دنیا کی آبادی ایک ارب ہوئی تھی۔ اس کے 123 سال بعد دو ارب کا سنگِ میل عبور ہوا اور 1927ء میں دنیا کی کل آبادی دو ارب ہو گئی لیکن اس کے بعد دنیا کی کُل آبادی محض 33 سال بعد 1960ء میں تین ارب اور پھر 14 سال بعد 1974ء میں چار ارب ہو گئی۔ 1927ء میں دو ارب اور 1974ء میں چار ارب۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے تیز ڈبل تھا۔ پہلی بار آبادی 123 سال میں ڈبل ہوئی اور دوسری بار 47 سال میں۔ (واضح رہے کہ 2023ء میں یہ آبادی ایک دفعہ پھر 49 سال میں ڈبل ہو کر آٹھ ارب ہو چکی ہے) اس حوالے سے 1970ء کی دہائی ہی وہ دورانیہ ہے جس میں زمین کی اپنی پیداوار سے دنیا کی آبادی کو برداشت کرنے کی حد ختم ہو گئی تھی۔ اسی بڑھتے حجم کے پیشِ نظر دنیا میں پہلی دفعہ مصنوعی گھی، مصنوعی کھادیں اور برائلر مرغی کی پیداوار شروع کی گئی تھی، بلکہ یوں کہنا پڑے گا کہ یہ سب کرنا پڑا تھا۔ چونکہ ماہرین کے مطابق زمین کی انسانوں کو پالنے کی قدرتی صلاحیت (Earth's human carrying capacity) ختم ہو گئی تھی اس لیے مصنوعی گھی، برائلر مرغی اور مصنوعی کھادوں کو ایجاد کرنا اور فروغ دینا پڑا۔ اب آپ جتنے بھی طریقوں سے جانچ کر لیں‘ جو لذت اور غذائیت قدرتی طریقے سے پیدا کی جانے والی غذا کی ہے وہ مصنوعی طریقوں سے پیداکردہ اشیا میں نہیں ہو سکتی۔ مصنوعی کھادوں کی مثال ہی لے لیں‘ یہ پیداوار تو بہت زیادہ دیتی ہیں لیکن ان کی لذت اور غذائیت قدر تی طریقے سے پیدا ہونے والی غذا کو چھو کر بھی نہیں گزرتی۔ علاوہ ازیں یہ مصنوعی کھادیں زمین میں جذب ہو کر آرسینک پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں جو زیرِ زمین پانی کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے، یعنی ان کے فوائد کیساتھ بیشمار مضمرات بھی ہیں۔
ام المسائل‘ بڑھتی آبادی
اب بات بنیادی مدعے کی طرف موڑیں تو پتا چلتا ہے کہ جیسے جیسے آبادی بڑھتی گئی، ویسے ویسے رہائشی بلڈنگز میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آج کل آپ سوشل میڈیا پر چلنے والی بحث کو دیکھ لیں جس میں زرعی زمینوں کو تیزی سے ہائوسنگ سوسائٹیوں میں بدلنے کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو اب یہ عمل ناگزیر ہو چکا ہے، وجہ اگرچہ سادہ لیکن بہت خطرناک ہے، وہ یہ کہ پاکستان کی آبادی میں 1.8 فیصد سالانہ (لگ بھگ 45 لاکھ) کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس آبادی کے لیے سالانہ سات سے آٹھ لاکھ نئے گھروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوسطاً ایک گھر کا رقبہ پانچ مرلے بھی لگائیں تو خود حساب لگا لیں کہ کتنے ہزار یا کتنے لاکھ ایکڑ زمین ہر سال زراعت سے رہائشی تعمیرات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ کاشت کاری والے علاقوں میں جو پودے یا فصلیں کاشت ہوتی ہیں، وہ سرسبز ہوتی ہیں۔ یہ غذا پیدا کرنے کے ساتھ سورج کی تپش کو بھی 'جذب‘ کر لیتی ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ درخت، پودے اور فصلیں سورج کی تپش کی مدد سے اپنی غذا پیدا کرتے ہیں اور اس کو زمین میں جذب ہونے سے بھی روکتے ہیں۔ یہ مشاہدہ سب نے کیا ہو گا کہ جس جگہ پر درخت لگا ہوتا ہے‘ اس کی چھائوں میں تیز دھوپ میں بھی راحت اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ ایک درخت پر جتنی بھی تپش یا حرارت گرتی ہے‘ اس کا تیسرا حصہ درخت خود 'جذب‘ کر لیتا ہے۔ اس عمل کو کچھ لوگ دھوپ جذب ہونا کہتے ہیں‘ جو سراسر غلط ہے۔ تپش کو زمین، عمارتیں اور سڑکیں وغیرہ جذب کرتی ہیں جبکہ نباتات اس تپش کا ایک تہائی حصہ ''کھا‘‘ جاتے ہیں۔ جس جگہ پر دھوپ جذب ہوتی ہے وہاں شام ڈھلنے کے بعد بھی تپش محسوس ہوتی ہے جو وہاں سے خارج ہو رہی ہوتی ہے مگر درخت یا دیگر نباتات ایسا نہیں کرتے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پچاس ایکڑ زمین جہاں کھیتی باڑی ہو رہی ہو‘ اور اس کے مقابلے میں پچاس ایکڑ زمین‘ جس پر ایک سوسائٹی بنی ہو‘ ان دونوں علاقوں کے درجہ حرارت اور ہوا میں آکسیجن کے تناسب میں کتنا فرق ہو گا۔ پاکستان جیسے ملکوں کو اس فرق نے ہی گرمی کی شدت میں اضافے اور موسمِ گرما کے بڑھتے دورانیے جیسے مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ گھر تو ہر ملک کو ہی بنانے پڑتے ہیں۔ یقینا بنانے پڑتے ہیں، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان کی تعداد کتنی ہے اور یہ گھر کس ماڈل یا سکیم کے تحت بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ماحولیات کا اصول یہ ہے کہ گھروں کے درمیان گلیاں کھلی ہونی چاہئیں تاکہ ان میں درخت لگائے جا سکیں۔ اسی طرح ہر گھر کے اندر ایک درخت ضرور لگانا چاہیے۔ لیکن یہاں دقت یہ ہے کہ اوسط رقبہ جس پر گھر بنتے ہیں‘ صرف پانچ مرلے ہوتا ہے۔ اتنے رقبے کے گھر میں درخت لگانا ممکن نہیں۔ اسی طرح ماحولیاتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکثر سوسائٹیوں میں پارکس یا کھلے میدانوں کے لیے بھی جگہ نہیں چھوڑی جاتی۔ جو پارکس بنائے جاتے ہیں‘ ان میں اتنے درخت نہیں لگائے جاتے‘ جتنے لگ سکتے ہیں۔ ان سب وجوہات کی بنا پر شہروں کا درجہ حرارت اپنے قریبی دیہی علاقوں کے مقابلے میں تین سے چار ڈگری زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد شہروں میں اونچی عمارتوں کی شکل میں پلازے اور فلیٹس بنائے جاتے ہیں‘ یہ اونچی عمارتیں اپنے بیرونی حصوں یا دیواروں کی وجہ سے سورج کی زیادہ تپش جذب کرتی ہیں جس سے اس علاقے کا درجہ حرارت مزید بڑھ جاتا ہے۔ اس بات کو بغور سمجھنے کے لیے تصور کریں کہ ایک دس مرلے کا گھر اپنی بیرونی دیواروں سے درجہ حرارت جذب کرتا ہے اور پھر اس کو واپس فضا میں خارج کر دیتا ہے‘ اب اگر اس دس مرلے کی جگہ پر دس منزلہ عمارت تعمیر کی جائے گی تو اس کی سبھی منزلیں تپش کو اپنے اندر جذب کریں گی اور بعد میں اسی تناسب سے تپش خارج کریں گی۔
گرم شہر اورسیمنٹ کا جنگل
اگر شہروں میں گرمیوں کے موسم میں چلنے والی گرمی کی لہر (Heat Wave) کی بات کریں تو اب تک اندازہ ہو چکا ہو گا کہ یہ کیوں اور کیسے چلتی ہے۔ بات پھر شہروں میں سیمنٹ کی بنی ہوئی بلڈنگز کی ہے، جبکہ دوسری طرف تپش کو کھا جانے والے درخت نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ دن بارہ بجے کے بعد تمام عمارتوں نے جو سورج کی تپش اپنے اندر جذب کی ہوتی ہے‘ وہ اس کو واپس فضا میں خارج کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس سارے عمل میں شہر کا درجہ حرارت اوسط درجہ حرارت سے کہیں اوپر چلا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس شہر کے بیرونی حصوں کے بجائے شہر کے اندر کا درجہ حرارت تین سے چار ڈگری سینٹی گریڈ مزید بڑھ کر ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے۔ اسی کو ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر کہا جاتا ہے۔اس سال اپریل کے آخری دنوں میں اتنی گرمی محسوس ہو رہی تھی جتنی مئی کے آخر میں ہوتی ہے۔ اسی لیے اب یہ بات زور دے کر کہی جاتی ہے کہ جو آئے روز ذکر ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں‘یہ تبدیلیاں نہیں بلکہ تباہیاں ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے درختوں کی چھائوں بڑھانے کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے۔
ہمارے ہاں اکثردرختوں کے حوالے سے ''درخت کے سائے‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے مگر یہ اس لیے ادھورا تصور ہے کہ سایہ تو دیوار کا بھی ہوتا ہے لیکن وہ اس طرح ٹھنڈا نہیں ہوتا جس طرح درخت کا سایہ ہوتا ہے۔ اسی لیے درخت کے سائے کو چھائوں کہا جانا چاہیے۔ اب سارا کھیل دوبارہ درختوں کی طرف آ گیا ہے کہ یہ درخت ہی ہیں جو انسانوں کی پیدا کردہ زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو اپنی غذا کے طور پر کھا جاتے ہیں اور بدلے میں آکسیجن گیس فراہم کرتے ہیں۔ انسان کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس دو طرح سے پیدا کرتا ہے، ایک تو وہ ہر لمحہ سانس لیتے ہوئے یہ گیس خارج کرتا ہے اور دوسری طرف اپنی معاشی سرگرمیوں کے دوران یہ گیس پیدا کرتا ہے۔ اس میں خاص طور پر قابلِ ذکر طریقے ناقص کوئلے سے بجلی پیدا کرنا اور صنعتیں ہیں جو اپنے پیداواری عمل میں زہریلی گیسیں اور دھواں پیدا کرتی ہیں۔
اب آخر میں ایک انکشافیہ بات تاکہ لوگوں میں آگاہی آ سکے‘ دنیا میں سب سے زیادہ آکسیجن درخت نہیں بلکہ سمندر پیدا کرتے ہیں۔ شاید آپ کو یہ بات عجیب لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سمندروں میں پائے جانے والے درخت، زمین کے باسیوں کو سب سے زیادہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھا جانے والوں میں بھی سمندر کا پانی اور اس کے پودے سرفہرست ہیں، لیکن انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے اب یہ سمندر بھی آلودہ ہونے لگ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سمندروں کے اندر چلنے والے جہازوں سے تیل کا اخراج اور ساحلوں پر واقع صنعتوں کی جانب سے سمندر میں پھینکا جانے والا آلودہ مواد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب سمندر کے پانی پر ایک چکنائی والی تہہ چڑھ رہی ہے جس سے سمندروں کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ (جاری)