بھارت، امریکہ اور ایشیا کا امن

گزشتہ کالم میں سات ناراض بہنوں کے حوالے سے بھارت کی ان سات ریاستوں کا ذکر ہوا تھا جو ایک علیحدہ خطے کی طرح آپس میں منسلک اور بھارت سے جدا ہیں۔ یہ سات کی سات ریاستیں نہ صرف بھارت کی حکومت و ریاست سے ناراض ہیں بلکہ ان سب میں مختلف مسلح و سیاسی گروہ آپس میں بھی جنگی کشیدگی جیسی صورت حال کا بھی شکار ہیں۔ ریاست منی پور میں اس وقت خانہ جنگی جاری ہے جو مئی کی تین تاریخ کو شروع ہوئی تھی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پولیس اور فوج کو کسی بھی مشکوک شخص کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ پوری ریاست میں کرفیو نافذ ہے مگر تاحال حالات کنٹرول میں نہیں آ رہے۔ 'سات بہنوں‘ کے حوالے سے ایک تاریخی ذکر بھی ہو جائے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جب مشرقِ وسطیٰ میں 1920ء کی دہائی میں تیل دریافت ہوا تو سات عالمی کمپنیوں نے اس مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی جن میں سے پانچ کا تعلق امریکہ جبکہ ایک کا برطانیہ اور ایک کا ڈنمارک سے تھا۔ اس اجارہ داری پر یورپ کے دیگر ممالک نے‘ جن کی کمپنیوں کے حصے میں کچھ نہیں آیا تھا‘ ان سات کمپنیوں کو ''سات بہنوں‘‘ کا نام دیا تھا۔ اس حوالے سے 1975ء میں Anthony Sampson کی ایک کتاب ''The seven sisters‘‘ بھی شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ کیسے یہ ''سات بہنیں‘‘ پوری دنیا کی آئل مارکیٹ کی دولت اپنے نام کر گئی ہیں۔ البتہ بھارت کی سات بہنیں اب تک اس لیے احتجاج اور لڑائی کر رہی ہیں کہ ان کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا۔ ان کی ایک لڑائی بھارت سرکار سے ہے تو دوسری طرف یہ ساتوں ریاستیں اپنی اندرونی لڑائیوں میں بھی الجھی ہوئی ہیں۔
بھارت جنگی جھگڑے کس طرح ختم کرے
بھارت سرکاراس بات کی بھرپور طاقت رکھتی ہے کہ وہ منی پور ریاست میں امن قائم کرے‘ اور یہ اس کی اولین ذمہ داری بھی ہے مگر شاید نیت کا فتور ہے۔ واضح رہے کہ ریاست منی پور قیامِ ہندوستان کے وقت ایک راج شاہی ریاست تھی جس کو بھارت نے بعد میں‘ دیگر کئی ریاستوں کی طرح‘ بزور طاقت اپنے اندر ضم کر لیا تھا۔ بھارت سرکار کس قسم کی سوچ اور کس طرز پر چل رہی ہے اس کا اندازہ آپ کو بھارت کی نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کو دیکھنے سے ہو جائے گا جس میں ایک بڑا نقشہ کندہ کیا گیا ہے۔ ''اکھنڈ بھارت‘‘ کی جارحانہ سوچ کے تحت اس نقشے میں افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر کئی علاقوں کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق پاکستان کے علاوہ، بنگلہ دیش اور نیپال نے بھی اس پر باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں سے نمٹنے یا ان ریاستوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے،بیرونی ممالک کو کشیدگی پر آمادہ کر رہی ہے‘ اس کا حتمی انجام کیا ہوسکتا ہے، یہ کوئی ڈھکا چھپا امر نہیں ہے۔ لازمی بات ہے کہ اس طرح کی پالیسیاں آپ کے اپنے نقشے میں تبدیلیوں کا سبب بنیں گی اور آپ کا اپنا نقشہ مزید سکڑ جائے گا، یعنی اس کے اندر سے مزید آزاد ریاستیں نکلیں گی۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ عالمی سطح پر سکھوں کے زیرِ اہتمام ہونے والے خالصتان ریفرنڈمز کی تصویریں اور وڈیوز ہی کو دیکھ لیں، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ خالصتان کی تحریک میں کتنی شدت آچکی ہے۔ یہاں پر آپ کو ایک خبر دیتے چلیں کہ سکھوں نے امریکہ میں الجزیرہ ٹی وی چینل کی طرز پر اپنا ایک عالمی چینل شروع کیا ہے،یہ ٹی وی چینل انگلش زبان میں خالصتان کی آواز کو پوری دنیا میں پہنچا رہا ہے۔ اب بات واپس اس نکتے پر کہ بھارت اپنی اندرونی کشیدہ صورتحال سے کس طرح نمٹے، تو اس کا واحد حل یہی ہے کہ وہ اپنے اربوں ڈالر کے جنگی منصوبے بند کرے‘ جن کے ذریعے کبھی افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی امریکہ کے ایما پر چین کے خلاف کشیدگی کو محض برقرار ہی نہیں رکھا جاتا بلکہ مزید بڑھانے پر وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے سکیورٹی ادارے دیگر ہمسایہ ممالک یعنی بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ پر اپنی گرفت بڑھانے کے لیے اربوں‘ کھربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ بھارت کا دفاعی بجٹ(جسے جنگی بجٹ کہنا زیادہ مناسب ہے) امریکہ اور چین کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا عسکری بجٹ ہے۔ اگر یہ اربوں ڈالر پنجاب میں سکھوں کی زندگی آسان بنانے پرخرچ کیے جائیں‘ منی پور اور آسام جیسی ریاستوں پر خرچ کیے جائیں توکیا یہ نفرتیں اور بغاوتیں برقرار رہ سکتی ہیں؟ اس وقت ریاست منی پور کے لوگ جس بری حالت میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر بھارت سرکار کی جانب سے ان کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟وہ تمام غریب افراد جو اپنی زندگیاں بچانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں‘ ان لوگوں پر یہ وسائل خرچ کیے جائیں‘ سرکاری و ریاستی مشینری منی پور اور دیگر ناراض ریاستوں کے مابین جھگڑوں کو ختم کرنے پر استعمال کی جائے تو حالات میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ یاد رہے کہ بھوکے پیٹ لوگ کسی بھی ذات، نسل، علاقے کی پہچان تو کجا‘ اپنے عقیدے تک کو بھول جاتے ہیں، لیکن مذکورہ ریاستوں کے لوگ نہ صرف انہی بنیادوں پر تقسیم ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی انتہائی تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت اپنے ملک کے ہر کونے میں لگی غربت اور فسادات کی آگ بجھانے کے بجائے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سرد جنگ میں بھی ایک فریق بن کر استعمال ہو رہا ہے۔ وہ اپنی تخریبی پالیسیوں کی بنا پر یہ ضرور کہہ سکتا ہے کہ اس نے افغانستان کی سر زمین استعمال کرکے پاکستان کو اربوں ڈالر اور کثیر جانی نقصان پہنچایا لیکن کسی دوسرے کا نقصان کبھی بھی آپ کا فائدہ نہیں ہو سکتا۔ اب منی پور جیسی ریاستوں کے لوگوں کو جو بھی کرنا ہے‘ اپنے طور پر ہی کرنا پڑے گا کیونکہ بھارت سرکار تو بیرونی جنگی محاذوں پر کشیدگی برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ایشیا کا امن اور امریکہ
کسی بھی ملک یا خطے کو خوشحالی یا ترقی سے پہلے استحکام اور امن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت عالمی حاکمیت کی لڑائی میں امریکہ چین کی مخالفت میں ہر ممکن محاذ کھول رہا ہے۔ اس نے اپنی تاریخ کے بلند ترین قرضوں کے باوجود اپنے جنگی بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ امریکہ ایک بہت بڑا ملک ہے جو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہے، اس کی عالمی حاکمیت دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک قائم ہے۔ اس لیے اب اس نے ایک رسک ہی نہیں بلکہ خطرہ مول لیا ہے کہ وہ چین کی عالمی طاقت کی حیثیت کو چیلنج کرتا رہے گا۔ اس چکر میں وہ ڈیفالٹ بھی کر سکتا ہے یا ایک بڑے معاشی بحران میں گھر سکتا ہے۔ اگر امریکہ کے ساتھ کچھ ایسا بڑا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کو ایک بڑا نقصان یہ ہو گا کہ اس کی عالمی حیثیت کھو جائے گی اور اس کی جغرافیائی سرحدیں بھی خطرات سے دوچار ہو جائیں گی لیکن اگر وہ عالمی معاملات میں پیچھے ہٹے گا تو امکان ہے کہ اس کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ امریکہ کے صرف دو ہمسایہ ممالک ہیں؛ کینیڈا اور میکسیکو، ان سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ چین کی مخالفت کی بڑی وجہ اس کی قیادت میں بر اعظم ایشیا کا ترقی کی طرف واپس آنا ہے۔ یہی بات امریکہ کو اچھی نہیں لگ رہی کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ مضبوط اور محفوظ ایشیا ہی اس کے برابر کی عالمی طاقت بن سکتا ہے۔ اس سارے تناظر میں بھارت دنیا کا وہ انوکھا اور آٹھواں عجوبہ ہے جو تاحال امریکی ایما پر نہ صرف جنوبی ایشیا کے ممالک میں شر پسندی اور جنگی صورتحال کو بھڑکا رہا ہے بلکہ چین کی مخالفت میں جو کچھ ہو سکتا ہے‘ وہ کر رہا ہے۔ ذکر ہوا تھا کہ سی پیک کی طرز پر چین نے ایک سڑک میانمار (برما) سے بھی نکالی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر بھارت چین کی مخالفت ختم کر کے باہمی تعلقات بہتر کر لے تو یہ چین کا سب سے بڑا اتحادی بن سکتا ہے، لیکن تاحال یہ چین کیلئے مہلک ثابت ہو رہا ہے۔ اگر جنوبی ایشیا اور چین کی آبادی کو اکٹھا کیا جائے تو یہ دنیا کی چالیس فیصد آبای بنتی ہے، جو کسی بھی براعظم سے زیادہ ہے لیکن بیوقوف بھارت کو کون یہ بات سمجھائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں