بکھرتا یا نکھرتا جنوبی ایشیا؟

امن نام کی کوئی چیز اگر دنیا میں موجود ہے تو وہ صرف اس دورانیے کا نام ہے جس میں اگلی جنگ کی تیاری ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ فقرہ عالمی سیاست میں ایک مسلمہ اور مصدقہ حقیقت کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اب اگر آپ اسی فقر ے کے تناظر میں دیکھیں تو جنوبی ایشیا دنیا کا وہ خطہ ہے جس نے کتنی صدیوں سے امن دیکھا ہی نہیں۔ آپ پہلے گورے کے 200سال دیکھ لیں جس کے بعد یہ خطہ بظاہر آزاد تو ہوگیا لیکن اس خطے کی تقسیم اس قدر بے ترتیب‘ مقامی افراد کی مرضی کے بغیر اور اتنی عجلت میں کی گئی کہ یہ خطہ صرف ہندو رہنماؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا‘ جنہوں نے سب سے پہلے اس خطے میں موجود خودمختار ریاستوں‘ جنہیں اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت کیساتھ الحاق کا حق دیا گیا تھا‘ پر زبردستی قبضہ کیا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان سے ایک ایسی خود ساختہ دشمنی پال لی جو وہ آج تک جاری رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھارت نے خطے کے دیگر ممالک کو بھی اتنا زچ کیے رکھا کہ بالآخر وہ بھی اب بھارت مخالفت پر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ان ممالک میں نیپال سب سے بعد بھارت کی مخالفت میں کھڑا ہوا لیکن اب تو گویا نیپال نے بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔ گزشتہ کالم میں نیپال کی جانب سے گریٹر نیپال یا بھارت کی زبان میں اکھنڈ نیپال کا نقشہ جاری کر نے کی بات ہوئی تھی‘ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نیپال نے بھارت کے تقریباً 54ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنا حق جتلا دیا ہے۔ یہ علاقے بھارت کی ریاستوں اتراکھنڈ‘ اتر پردیش‘ بہار اور بنگال پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ نیپال کی طرف سے جاری کیے گئے گریٹر نیپال کے نقشے میں بنگلہ دیش کا کچھ حصہ بھی شامل ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر تین علاقے ایسے موجود ہیں جنہیں سرد و گرم جنگوں کا سامنا ہے۔ سب سے پہلی مثال تو یوکرین کی ہے جہاں باقاعدہ مسلح جنگ جاری ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں مغربی طاقتوں کی طرف سے معاشی جنگ جاری ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغربی طاقتوں نے پاکستان میں یہ جنگ یوکرین کی جنگ کے بعد شروع کی ہے۔ ان سخت گیر معاشی حالات میں چین بدستور پاکستان کا ساتھ دے رہا ہے۔ چین پہلے ہی متعدد محاذوں پر امریکہ کو سیاسی و سفارتی شکست دے چکا ہے جن میں ایران سعودیہ مصالحت سرِفہرست ہے جس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں اپنے سفارت خانے پھر سے کھول لیے ہیں۔ اس اقدام نے صرف انہی دو ممالک کو نہیں بلکہ پورے عرب خطے کو باہمی تنازعات کے خاتمے کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین افغانستان کو بھی اپنے ساتھ ملا چکا ہے۔
جنوبی ایشیا کا مستقبل
بات شروع ہوئی تھی جنوبی ایشیا کی جنگی تاریخ سے تو اس خطے میں پہلے روس دس سال اور پھر امریکہ بیس سال افغانستان میں موجود رہا۔ ان دونوں جنگوں کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی پڑا۔ واضح رہے کہ روس کی افغانستان میں دس سالہ جنگ سے زیادہ نقصان پاکستان نے امریکہ کی بیس سالہ جنگ کے دوران اٹھایا۔ امریکی سرگرمیاں تو پھر بھی کافی حد تک افغانستان تک ہی محدود تھیں لیکن امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کا بھارت نے خوب فائدہ اٹھایا جو امریکی آشیرباد سے افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا۔ اس دوران چین اپنی مصالحت پسندانہ پالیسی کی وجہ سے بھارت کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوشش کرتا رہا لیکن بھارت نے اس کے برعکس رویہ اختیار کیا اور صرف پاکستان مخالفت کے چکر میں سی پیک جیسے منصوبے پر بھی اعتراضات اٹھا دیے۔ اب چین کے پاس بھارت کے کھلنڈرے پن کا کوئی علاج نہیں تھا سوائے اسے اس کی حد‘ قد اور اوقات یاد دلانے کے۔ پہلے تو چین نے لداخ‘ ڈوکلام اور اروناچل پردیش کے علاقوں میں بھارتی فوج کی خوب درگت بنائی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس وقت لداخ کے علاقے میں بھارت 65میں سے 25چیک پوسٹوں پر اپنا کنٹرول کھو چکا ہے۔ اسی طرح بھوٹان نے بھی چین سے علاقوں کے تبادلے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت چین نے بھوٹان کو زیادہ علاقہ دے کر اس کا دل جیت لیا ہے اور اب بھوٹان بھی ایک طرح سے چین کا اتحادی بن چکا ہے۔ اس کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس سے قبل بھوٹان اور بھارت کے درمیان نقل و حمل کیلئے محض ایک علامتی گیٹ موجود تھا لیکن اب بھوٹان نے اپنے بھارت سے ملحقہ بارڈر پر ایک دیوار بھی تعمیر کر لی ہے۔ ساتھ ہی اب بھارت کی طرف سے بھوٹان جانے والے افراد سے ایک ٹکٹ کی شکل میں داخلی ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے جس سے بھارت سے بلا روک ٹوک بھوٹان جانے والوں میں واضح کمی آچکی ہے۔ بظاہر بھوٹان کے حکومتی عہدیداروں کی حفاظت پر مامور کئی ہزار بھارتی فوجیوں کی واپسی کا عندیہ پہلے ہی دیا جا چکا ہے۔ یہ فوجی دستہ 1961-62ء سے بھوٹان میں موجود تھا۔ اس دستے کا نام ''Indian Military Training Team‘‘ ہے۔ بھوٹان جو رقبے کے لحاظ سے ایک بہت ہی چھوٹا ملک ہے اور جس کا رقبہ محض 38ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی محض پونے آٹھ لاکھ ہے‘ یہ پہلے عملاً بھارت کی ایک ذیلی ریاست تھا‘ اب چین کا اتحادی بن چکا ہے۔
ٹوٹتی ہوئی چکن نیک
اب کچھ بات بھارت کے شمال مشرقی علاقے کی سات ناراض بلکہ اب جھگڑا کرتی ریاستوں کی۔ واضح رہے ان سات ریاستوں میں سے آسام‘ اروناچل پردیش اور سکم کی سرحد بھوٹان کے ساتھ ملتی ہے۔ بھوٹان کے مغرب کی جانب صرف سکم کا چھوٹا سا علاقہ ہے جس کے بعد نیپال شروع ہو جاتا ہے۔ اب امید ہے کہ آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ سات ریاستوں والے اس علاقے پر بھارت کی گرفت کس قدر کمزور ہو چکی ہے۔ خانہ جنگی والی ریاست منی پور میں کشیدہ ترین صورت حال ساتویں ہفتے میں داخل ہو چکی ہے۔ وہاں جمعرات کی رات تقریباً ایک ہزار مسلح افراد نے ایک یونین منسٹر ڈاکٹر رانجن سنگھ کا گھر مکمل طور پر جلا دیا۔ وزیر صاحب پہلے ہی کسی محفوظ مقام پر منتقل ہو چکے تھے‘ اس لیے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا‘اس لیے ان وزیر صاحب کے گھر پر مامور سکیورٹی اہلکار بغیر کسی مزاحمت کے وہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے جبکہ رانجن سنگھ ان ساتوں ریاستوں سے دور کیرالہ کی ریاست میں میڈیا کے سامنے آئے۔ واضح رہے کہ منی پورکو جانے والی سڑک علیحدگی پسندوں کی جانب سے مکمل بلاک کی جا چکی ہے۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ بھارتی فوج کا ایک دستہ بھی اس سڑک پر پھنس کر رہ گیا ہے جسے ہوائی ذرائع سے خوراک پہنچائی جا رہی ہے۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نے ابھی تک کوئی منی پور کا دورہ کرنا تو دور کی بات‘ اس حوالے سے کوئی بیان بھی جاری نہیں کیا۔ ایک بھارتی سوشل میڈیا چینل کے مطابق منی پور ریاست واضح طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے اوروہاں اس طرح حد بندی ہو چکی ہے کہ جیسے دو ممالک کی سرحد ہوتی ہے۔ یہ حد بندی دونوں متحارب گروہوں کے مسلح لوگوں نے باقائدہ چیک پوسٹیں بنا کر کی ہے۔ دو رپورٹروں نے آنکھوں دیکھا حال بتاتے ہوئے کہا کہ صبح ہوتے ہی جیسے ہی کرفیو نرم ہوتا ہے تو ریاست میں دو طرح کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ پہلی قطار اے ٹی ایم مشینوں پر لگتی ہے اور دوسری پٹرول پمپس پر۔ اگلا خطرہ جو اس ریاست پر منڈلا رہا ہے‘ وہ خوارک کی قلت کا ہو سکتا ہے۔ اس ریاست کو صرف میانمار کی سرحد لگتی ہے لیکن وہاں پر فوجی مارشل لاء لگا ہوا ہے جس کے نتیجے میں وہاں سے لوگ پہلے ہی بھارت کی اس ریاست کی جانب آ رہے تھے‘ اس لیے وہاں سے بھی کوئی امداد نہیں مل سکتی۔ دیکھا جائے تو بھارتی ریاست منی پور اس وقت خانہ جنگی کے ساتھ ایک انسانی بحران کا بھی شکار ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ اندرونی علیحدگی پسند تحریکوں کی وجہ سے بھارت ایک ایسی عمارت ہے جس کی دیواروں کی اینٹیں بہت خستہ حال ہیں اور بھارت سرکار اپنی پارلیمنٹ کی عمارت میں اکھنڈ بھارت کا نقشہ لگا کر نیپال کے ہاتھوں رسوا ہو رہی ہے۔ آخر میں اس صورتحال کی تشریح کرتا ایک شعر؛
بھارت کے ہمسایہ ملک تین‘ نیپال پاکستان اور چین
علیحدگی پسند تحریکیں‘محاذ ہوئے ساڑھے تین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں