اکھنڈ سے کھنڈر تک

دنیا میں اس وقت مسائل اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ اس سال ایک اہم ترین دن کو بھی بھرپور طریقے سے نہیں منایا جا سکا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیاکے بزعم خویش ماہرین تو لا علم دکھائی دیے ہی میڈیا چینل پر بھی زیادہ کوریج دکھائی نہیں دی۔ یہ لاعلمی اور کوتاہی اس مسئلے کی زیادتی کا باعث بن رہی ہے۔ بات ہو رہی ہے آبادی کے عالمی دن کی‘ جو ہر سال11 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ 11 جولائی 1989ء کو شروع ہوا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب دنیا کی آبادی پانچ ارب ہوئی تھی۔ اس وقت خیال کیا گیا کہ آبادی میں بے تحاشا اضافے سے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں جو انسانی بقا کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں‘ اس لیے اس حوالے سے مستقل آگاہی کا بندوبست ہونا چاہیے۔ اب آبادی کے مسئلے کے شکار دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک یعنی بھارت اور پاکستان میں ہی یہ دن خاموشی سے گزر گیا ہے۔ بھارت کی بات کریں تو یہ ملک اس سال آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ یہ بات کس حد تک قابلِ فخر ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت نے ابھی تک سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا؛ البتہ وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے‘ وہ کر دیں گے اور پتانہیں اور کیا کچھ کر دیں گے، لیکن ایک بھی دفعہ یہ نہیں کہہ پائے کہ ہم آبادی بم کو قابو کریں گے۔ یاد رہے کہ ماہرین آبادی میں بے ہنگم اضافے کو آہستہ آہستہ پھٹنے والا بم قرار دیتے ہیں۔
دو دھماکے دنیا ختم کر سکتے ہیں
میں گزشتہ پچیس‘ تیس سال سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں‘ اور اس دوران ایک ہی اہم ترین خطرے کے بارے سنتا آیا ہوں جو دنیا کو لاحق ہے۔ اس خطرے بارے جو کچھ سنا اور پڑھا‘ وہ یہ ہے کہ ایٹم بموں کے علاوہ جو دھماکا انسانی زندگی کو ختم کر سکتا ہے‘ وہ آبادی میں ہونے والا بے تحاشا اضافہ ہے۔ یہ بات قدرے عجیب لگتی تھی لیکن اب یہ بات یقین کی حد سے بھی آگے گزر چکی ہے کیونکہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں‘ وہ واقعتاً انسانی بقا کے لیے خطرات پیدا کر رہے ہیں اور ان کی وجہ سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور یہ مسائل بدستور بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں ماحولیاتی آلودگی کی جس کی وجہ سے صاف ہوا میں سانس لینا اب ماضی کی یاد بن چکی ہے۔ اسی کے ساتھ صاف اور محفوظ پانی تک رسائی بھی پسماندہ ممالک کا ایک بڑا خواب بن چکا ہے۔ زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہی نہیں ہو رہی بلکہ اب پانی ختم ہو رہا ہے۔ بیشتر علاقوں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ پاکستان میں فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے علاقوں ہی کو دیکھ لیں جن کا پانی ہر گز بھی پینے کے قابل نہیں رہا۔ کراچی سمیت کئی شہروں میں پانی کی قلت اور واٹر ٹینکر مافیا کی کہانیاں خبروں میں روز ہی سنتے اور پڑھتے ہوں گے۔ یہ سب آبادی میں بے ہنگم اضافے کی وجہ سے ہے۔ صرف لاہور شہر میں پچھلے بیس سالوں میں ستر فیصد سبزہ و درخت ختم ہوچکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ رہائشی کالونیوں کا بننا ہے۔ شہروں کے اندر کا درجہ حرارت اسی وجہ سے دیہی علاقوں سے زیادہ ہوتا ہے اور شہروں کو اسی سبب ہیٹ ویو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب اکتوبر کے مہینے سے شروع ہو کر فروری کے اختتام تک جاری رہنے والی سموگ ہی کو دیکھ لیں۔ اس زہریلی دھند میں سانس لیناایک ہوائی زہر کو مسلسل اپنے اندر اتارنے کے برابر ہے۔ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والی ہلاکتیں کسی بھی بڑی بیماری کے سبب ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ اسی طرح آلودہ ہوا اور پانی بذاتِ خود بہت ساری بیماریاں پیدا کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بات تو معلوم ہی ہو گی کہ عالمی مارکیٹ میں اب صاف اور صحت مند پانی کی باقاعدہ تجارت ہوتی ہے۔ کم آبادی اور زیادہ رقبے والے ممالک اب صاف پانی بھی برآمد کر رہے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کے استعمال سے پانی کو صاف اور محفوظ بنا کر بھی اس کی تجارت کی جا رہی ہے۔ یہ مسئلہ یہیں ختم ہونے والا نہیں۔ آگے جو نظر آرہا ہے‘ وہ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ عنقریب لوگ سانس لینے کیلئے آکسیجن سلنڈر اور آکسیجن بنانے والی مشینیں بھی خریدا کریں گے۔ یہ امر امیر اور غریب کلاس میں ایک نئی تفریق کا باعث بنے گا۔ اسی طرح عالمی ہجرت کے اسباب میں جو نئے عوامل شامل ہوئے ہیں‘ ان میں ایک پُر فضا ماحول بھی ہے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے میں جنوبی ایشیائی خطہ سب سے آگے ہوگا‘ یعنی سب سے زیادہ لوگ یہاں سے ہجرت کریں گے۔ آج کل امریکہ میں جو اندھا دھند فائرنگ کے واقعات ہو رہے ہیں‘ جن میں اوسطاً سالانہ بیس ہزار افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں‘ ان کے پیچھے جس تحریک کے ملوث ہونے کا پتا چلا ہے وہ قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ہی کوشاں ہے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ''Problem of life is too much life‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ بہت زیادہ ہوچکے ہیں اور قدرتی ماحول آلودہ ہو رہا ہے۔ یہ لوگ پانی، جنگلات، پہاڑ اور دیگر قدرتی مظاہر کی تصویروں کی مدد سے اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ قدرتی وسائل کی حفاظت ناگزیر ہو چکی ہے۔ لیکن اس کا حل لوگوں کو مارنا قطعاً نہیں ہے‘ یہ سراسر دہشت گردی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی محض ایک بہانہ ہو اور اصل مقصد انتشار پیدا کرنا ہو۔ یہ تحریک دوسرے ممالک سے آنے والے لوگوں کی ہجرت کے بھی خلاف ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اس علاقے کے اصل رہنے والے ہیں‘ ان کی شرح کم ہو رہی ہے۔ اسی لیے اس تحریک کے لوگوں نے ایک ''رِپلیسمنٹ‘‘ نظریہ بھی تخلیق کیا ہوا ہے۔ اس تحریک کے لوگ سب سے پہلے کووِڈ کی وبا کے دنوں میں سامنے آئے تھے۔
Worst Asia
''وَرسٹ ایشیا‘‘، یہ اصطلاح ایک ماحولیاتی ماہر کی ایجاد ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر بنیادی انسانی ضروریات یعنی سانس لینے کیلئے ہوا اور پینے کیلئے پانی جیسی ناگزیر چیزوں کو ہی دیکھا جائے تو ایشیا کا ایک خطہ ایسا ہے جو سب سے خطرناک حالت میں ہے۔ یہ خطہ ہے جنوبی ایشیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ صرف اس خطے میں سالانہ سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی کا اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ باقی پوری دنیا کی آبادی میں آٹھ کروڑ تک اضافہ ہوتا ہے۔ یہ خطہ ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بدتر علاقہ ہے۔ زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں‘ سموگ نامی آفت ہر سال اسی علاقے میں آتی ہے۔ اس آفت کا دورانیہ اب پانچ ماہ پہ محیط ہو چکا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ بھارت ہے۔ یہ زہریلی دھند بھارت میں اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ جب بھی ہوائوں کا رخ بھارت سے ہمسایہ ممالک کی طرف ہوتا ہے تو ان ملکوں میں بھی فضائی آلودگی کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ ماضی کی تہذیبیں جو تباہ ہو گئی تھیں‘ ان کی بنیادی وجہ ماحولیاتی آلودگی ہی تھی۔ یہ تہذیبیں بنیادی طور پر ایک شہر میں آباد ہوتی تھیں اور رفتہ رفتہ ان شہروں کی آبادی بہت زیادہ ہو جاتی تھی لیکن فضلے کی نکاسی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔ ماحولیاتی تعفن اتنا زیادہ ہو جاتا تھا کہ لوگ یا تو جان سے جاتے تھے یا پھر علاقہ چھوڑ دیتے تھے۔ اُس وقت کل آبادی بہت کم تھی، پوری دنیا کی آبادی محض بھارت کے دو بڑے شہروں کے برابر یعنی کروڑوں میں تھی۔ جب ایسے علاقوں کا قدرتی ماحول خراب ہوتا تو لوگ کسی اور علاقے کی طرف ہجرت کر جاتے تھے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا قدرتی ماحول جب خطرناک حد سے بھی زیادہ خراب ہوجائے گا تو کیا ہو گا؟ ممکن ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ لوگ ہجرت کر جائیں گے‘ تو یاد رکھیں کہ بیرونِ ملک جانا اب ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے اس خطے کے غریب عوام کو جو اگلا عفریت ہر ممکن طریقے سے گھیرے میں لے گا وہ ماحولیاتی آلودگی کا عفریت ہو گا۔ علاقے میں آلودگی پیدا کرنے والے سب سے بڑے ملک بھارت کو سوچنا ہو گا کہ اکھنڈ بننے کے خبط میں مبتلا وہ پورے جنوبی ایشیا کو کھنڈر بنانے پر تُلا ہوا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں