اساتذہ، بیگار ی اور معاوضہ

کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان میں ایک شعبہ آج بھی ایسا ہے جس کا معاوضہ قریب پچیس سال پرانا ہے ؟ یقینا یہ سن کر آپ کو حیرت ہوئی ہو گی یا یہ بات ناقابلِ یقین لگ رہی ہو گی لیکن آپ کو بتاتے چلیں کہ تعلیم کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کا بالترتیب پانچ ہزار اور دس ہزار روپے ماہانہ جو معاوضہ ملتا ہے یہ پچیس سال سے اتنا ہی تھا۔ یہ معاوضہ وفاق اور سندھ سرکار نے تو بڑھا دیا ہے لیکن پنجاب میں آج بھی اتنا ہی ہے۔ یہ دلخراش بات بیان کرتے ہوئے جو دکھ ہوتا ہے وہ ناقابلِ بیان ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پچیس سال پہلے اگر آپ کسی فقیر کو کچھ دیتے تھے تو اس وقت پچیس پیسے یا پچاس پیسے بھی چل جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پیسے والے سکے معدوم ہو گئے اور بات صرف روپوں تک رہ گئی۔ اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مت کہا کریں کہ فلاں کے پاس بہت پیسہ ہے، بلکہ اب روپوں ہی کی بات کیا کریں۔ یہ وہی بات ہے جیسے ماضی میں جب کہا جاتا تھا کہ فلاں بندہ لکھ پتی ہے تو اس سے مراد ایک امیر کبیر آدمی لیا جاتا تھا، مگر اب بات کم از کم کروڑ پتی سے شروع ہوتی ہے۔ البتہ یہ معاوضہ‘ جو آج بھی پچیس سال پہلے کی سطح پر کھڑا ہے‘ یقینا حیران کن ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تکلیف دہ بھی ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ملک میں کسی چیز کی قیمت نہ بڑھنے کے حوالے سے ماچس کی مثال دی جاتی تھی، لیکن اب وہ بھی پیسوں کے بجائے روپوں میں آتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی کچھ اس طرح بڑھ چکی ہے کہ اب قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے کے بجائے آسمان کو چیر کرمزید اوپر جا چکی ہیں۔ ان حالات میں پنجاب میں اساتذہ کا سڑکوں پر آ کر اپنا وہ حق مانگنا‘ جو دیگر صوبوں کے علاوہ وفاق نے بھی انہیں دے دیا ہے‘ نہایت شرمندگی کا مقام ہے۔ کیسی عجب بات ہے کہ یہاں شرمندگی جیسا لفظ استعمال کرتے ہوئے بھی عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔
تعلیم نہیں تو تباہی
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ انگلش زبان اور اس کے بولنے والوں کی ترقی کا رازکیا ہے؟ انگلش زبان میں تعلیم کا متضادلفظ صرف ناخواندگی ہی نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں ایک لفظ 'تباہی‘ بھی استعمال کیا جاتا ہے، اس سے تعلیم کے شعبے کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اب آپ کو جاپان لیے چلتے ہیں جس پر دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے دو ایٹم بم گرائے تھے۔ جاپان کے پاس قدرتی وسائل کچھ خاص نہ تھے، تیل، لوہا حتیٰ کہ زرعی وسائل بھی پاکستان سے کم تھے۔ مگر شدید تباہی کے بعد جاپان دوبارہ اٹھا اور آج دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت ہے۔ آج مارکیٹ میں جاپان میں بنی چیزوں کو برتری حاصل ہے۔ آج بھی کسی پرانی چیز کو صرف اس لیے خرید لیا جاتا ہے کہ اس میں ''جاپانی لوہا‘‘ استعمال ہوا ہے۔ لیکن حقیقت میں کمال جاپان کے لوہے کا نہیں بلکہ جاپانیوں کے ہاتھ کا ہے۔ جاپانیوں کے ہاتھ سے مراد وہاں کی ٹیکنالوجی ہے۔ ٹیکنالوجی تحقیق سے آتی ہے اور تحقیق تعلیم کے میدان میں اگنے والا وہ درخت ہوتا ہے جس پر خوشحالی کا پھل لگتا ہے۔ یہ صرف تعلیم و تحقیق ہی کی بدولت ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ ایسا بنائیں جو نیا ہو ہے اور چونکہ ہر نئی چیز سوغات ہوتی ہے‘ اس لیے اس کے دام منہ مانگے ملتے ہیں۔ آپ موبائل فون کی مثال لے لیں یا پھر کوئی نئی دوا‘ جب بھی مارکیٹ میں کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے تو اس کے دام مرضی کے مطابق ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس آپ زراعت کی مثال لے لیں، اس کے دام محض جسمانی مشقت کی طرح ہوتے ہیں۔ وجہ بہت سادہ اور اہم ہے کہ ہر وہ کام جو کوئی بھی (اَن پڑھ اور غیر ہنر مند) کر سکتا ہو، اس کا معاوضہ ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ یاد رکھیں کہ دنیا میں ترقی ہمیشہ سائنس و ٹیکنالوجی میں برتری سے ہوئی ہے، کبھی کسی ملک نے محض زراعت، معدنیات یا افرادی قوت سے ترقی نہیں کی۔
بات ہو رہی تھی جاپان کی‘ کسی نے ایٹم بم کے بعد تباہ ہو جانے کے باوجود جاپان کی ترقی کا راز پوچھا تو اسے بہت ہی سادہ اور مختصر جواب ملا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اگر جاپان میں کوئی نئی تعمیر شدہ عمارت نظر آتی تھی تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں پیش آتی تھی کہ یہ عمارت کس مقصد کے لیے بنی ہے یا یہ کون سا سرکاری دفتر ہے کیونکہ جاپان نے سب سے پہلے تعلیم اداروں کی تعمیرِ نو کی تھی۔ اب بات واضح ہو گئی ہوگی کہ صرف تعلیم کو ترجیح دی گئی تو پھر اگلی منزل تحقیق کی تھی۔ تحقیق شروع ہوئی تو نت نئی ایجادات سامنے آنا شروع ہو گئیں اور پھر ان نت نئی اشیا کے دام مرضی کے ملنا شروع ہو گئے۔ یہ صرف تعلیم و تحقیق کے شعبے کا کمال تھا کہ دنیا نے ایک لمبے عرصے تک‘ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد‘ ایک ایسا دور بھی دیکھا کہ جب جاپان امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھا۔ آج بھی جاپان دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت ہے۔ بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ امریکہ آج کی دنیا میں جس ملک کا سب سے بڑا مقروض ہے وہ چین نہیں بلکہ جاپان ہے۔ اس وقت امریکہ پر ڈیفالٹ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے امریکہ جس ملک پر سب سے زیادہ انحصار کرتا ہے وہ جاپان ہی ہے۔ امریکہ نے جاپان کا ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کا قرض دینا ہے (ایک ٹریلین یعنی ایک ہزار ارب، عموماًاس کو ایک کھرب سمجھا جاتا ہے حالانکہ ایک ٹریلین میں دس کھرب ہوتے ہیں) اس ساری بات کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر آج جاپان امریکہ سے اپنا سارا قرضہ واپس مانگ لے تو امریکہ ڈیفالٹ ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اسی امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے۔ امریکہ ویسے تو سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی ترقی کرتا رہا ہے لیکن پوری دنیا پر حکمرانی کے خبط میں مبتلا ہو کر جنگوں میں بھی الجھا ہوا ہے، چاہے خود لڑے یا دوسروں کو لڑائے‘ اس کے برعکس جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد اب تک کوئی جنگ نہیں لڑی۔ مطلب تعلیم کا اثر پوری طرح ظاہر ہے اس قوم پر۔
معاشرے کی رینکنگ اور استاد
اب آپ کو امریکہ لیے چلتے ہیں۔ بشریات کے مضمون پر دنیا میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب Horton Hunt کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت اور فروخت آج بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس کتاب کے ایک باب میں امریکی معاشرے کی درجہ بندیوں کا ذکر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں عزت و تکریم، معاوضے اور دیگر حوالوں سے جو شعبے اہم ترین ہیں ان کی باقاعدہ رینکنگ کی گئی ہے۔ آپ کو یہ جان کر یقینا حیرانی ہو گی کہ صدر، ریاستوں کے گورنر، ممبر آف پارلیمنٹ (کانگریس اور سینیٹ) کے بعد چوتھے نمبر پر جس عہدے کا ذکر آتا ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ کالج کے اساتذہ ہیں۔ یونیورسٹی پروفیسرز‘ جو تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہیں‘ ان کا رتبہ ایک سینیٹر کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر وہاں ایک پروفیسر کسی طالب علم سے متعلق یہ لکھ کر دیدے کہ اس کو ریسرچ کے لیے اتنی گرانٹ دی جائے تو یہ وہاں کی حکومتوں کے لیے ایک حکم کا درجہ رکھتا ہے۔
آج کل پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ اُس ڈیسپیرٹی الائونس کیلئے سڑکوں پر ہیں جو دیگر شعبہ جات میں پہلے سے دیا جا رہا ہے۔ کالج اور یونیورسٹیوں کے پروفیسرز جب سڑکوں پر آتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ ترقی کی سڑک یہی اساتذہ تعمیر کرتے ہیں‘ اگر یہی لوگ احتجاج پر مجبور ہیں تو پھر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی کیسے ہو گی؟ آپ نے بہت ساری باتیں سنی ہوں گی کہ کسی قوم کی حالت جاننے کیلئے فلاں چیز کو دیکھ لیں یا فلاں شعبے کی حالت دیکھ لیں‘ حقیقت میں جو چیز دنیا کی کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کا واضح ثبوت ہے‘ وہ صرف اور صرف تعلیم و تحقیق کا شعبہ ہے۔ اگر اساتذہ ہی سراپا احتجاج ہیں تو ترقی کی سڑک تو تباہ ہو چکی ہے۔ جیسے پہلے بتایا کہ انگریزی میں تعلیم کا ایک متضاد لفظ تباہی ہے‘ جہاں تعلیم و تحقیق نہیں‘ وہاں صرف تباہی ہے۔
نوٹ: احتجاج کرنے والے اساتذہ پر لاٹھی چارج نہ کرنا حکومت کی مہربانی ہے‘ شاید حبس اور شدید گرمی کی وجہ سے اسے یقین ہوگا کہ یہ جلد ہی واپس گھروں کو چلے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں