مقابلہ، کشمکش اور جنگیں

کہا جاتا ہے کہ قدرتی سائنس کے جتنے بھی علوم ہیں ان کے دو ادوار ہیں؛ ایک آئن سٹائن سے پہلے کا دور اور ایک وہ جس میں اس نے اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا تھا۔ عین اسی طرح معاشیات‘ سیاسیات اور سماجیات کے جتنے بھی علوم ہیں ان کے بھی دو ادوار ہیں۔ ایک کارل مارکس سے پہلے کا دور اور دوسرا وہ جس میں کارل مارکس نے اشتراکیت کا نظریہ پیش کیا تھا۔ اشتراکیت کے نظریے کے حوالے سے ہمیں زیادہ مشکل اس لیے پیش آتی ہے کہ ہم نے اس نظریے کی مخالفت علمی بنیادوں پر نہیں بلکہ عالمی سیاسی دباؤ اور امریکہ کی فنڈنگ‘ سختی اور لابنگ کے تحت جاری رکھی۔ امریکہ کی یہ مخالفت سوویت یونین سے تھی تاکہ اسے جارجانہ طور پر اشتراکیت پھیلانے سے روکا جا سکے۔ دوسری طرف اشتراکیت کا پھیلاؤ روس یعنی سوویت یونین کی پالیسی تھی نہ کہ نظریۂ اشتراکیت خود اس کا درس دیتا ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت بیشتر مسلمان ملکوں پر جنگ مسلط کرکے مسلم دنیا کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ تیس سال سے زیادہ اس عرصے میں مسلم دنیا کے کسی مفکر نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی بیان تک نہیں دیا۔ یاد رہے کہ جب تک روس اور امریکہ کی سرد جنگ (1945-90ء) جاری تھی‘ مسلم دنیا مجموعی طور پر امریکی اتحاد کا حصہ تھی اور قدرے محفوظ بھی لیکن اس کے بعد تہذیبوں کے تصادم کے خود ساختہ نظریے کے تحت مسلم دنیا کو اندرونی اور بیرونی حملوں کی زد پہ رکھ لیا گیا۔ اس کے بعد تاریخ کا چکر دیکھیں کہ پھر ایک اشتراکی ملک عالمی طاقت بن گیا اور امریکہ کا دھیان ایک تصادم کی شکل میں اس طرف ہو گیا ہے۔ اب یہ اشتراکی ملک چین‘ مسلم دنیا کے لیے ایک بڑے ریلیف کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ ایک تو امریکی پالیسیوں اور جارحانہ کوششوں کا رخ چین کی طرف ایک نئی سرد جنگ کی شکل میں ہو چکا ہے تو دوسری طرف یہی اشتراکیت کے نظام والا چین اب مسلم ممالک کو نہ صرف تجارتی شاہراہ کی طرف لے آیا ہے بلکہ ان کی باہمی رنجشوں کو بھی دوستیوں میں بدل رہا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ مسلم دنیا‘ ایشیا کے اکثر ممالک اور افریقہ جیسا براعظم اب بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ اب یہ بہتری اور خوشحالی کب تک اور کتنی ہو پاتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ بات واضح ہے کہ اب ان ممالک کی تباہی کمی سے خاتمے کی طرف گامزن ہے۔
کارل مارکس کا نظریہ
پہلے بات کارل مارکس کے نظریۂ اشتراکیت کے چند بنیادی نکات کی۔ کارل مارکس کا کہنا تھا کہ ''دنیا میں غربت کی وجہ وسائل کا نہ ہونا یا کم ہونا نہیں ہے بلکہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے‘‘۔ یہ نکتہ اتنا اہم اور طاقتور ہے کہ کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس لیے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو غربت کی بنیاد کہنا محض ایک رائے یا نظریہ نہیں بلکہ پوری دنیا کی سب سے بڑی معاشی حقیقت ہے۔ یہ ظالمانہ تقسیم صرف عالمی سطح پر ملکوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ ملکوں کے اندر بھی موجود ہے بلکہ اندرونِ ملک زیادہ سخت گیر اور تلخ ترین حقیقت کی شکل میں موجود ہے۔ مغرب کے اپنے اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی 83 فیصد سے زیادہ دولت پر محض بیس فیصد لوگ قابض ہیں۔ اس پر کسی مفکر کا کہنا ہے کہ امیر آدمی کے پالتوکتے کو جو غذا ہر روز ملتی ہے‘ غریب کی اکلوتی اولاد کو وہ غذا کسی تہوار کے موقع پر بھی نہیں مل پاتی۔ اگر یہ بات آپ کو بہت سخت یا عجیب لگتی ہے تو کبھی بھی شہر کے کسی بڑے سٹور پر جاکر پالتو کتوں کے لیے در آمد شدہ خوراک کی قیمت پوچھ سکتے ہیں۔ اسی طرح کسی پوش علاقے میں پالتو جانوروں کے علاج کے لیے بنے مراکز کی حالت سے بھی اس تفاوت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان میڈیکل سنٹرز کی حالت انسانوں کے علاج کے لیے بنے سرکاری ہسپتالوں سے کہیں بہتر نظر آئے گی۔ آپ اس بات پر مزید تحقیق اس طرح بھی کر سکتے ہیں کہ یہ تقسیم مغرب کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی پورے جوبن پر ہے اور یورپ کے ترقی یافتہ ملکوں سمیت امریکہ میں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو بے گھر ہیں یا جو دو وقت کی خوراک سے بھی محروم رہتے ہیں، اسی طرح ان ملکوں میں بھی پالتوں جانوروں کی حالت ایسے افراد سے کہیں بہتر ہے، وجہ یہ ہے کہ وہ جانور امیر لوگوں کے فیملی ممبر کا درجہ انجوائے کرتے ہیں۔ اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
امیراں دے کتیاں نوں ریشم دے چگھے
غریباں دے بالاں نو کھدر وی نہ لبھے
مطلب امیر کے کتوں کو ریشم کا لباس ملتا ہے اور غریب کے بچوں کے مقدر میں کھدر کا لباس بھی نہیں۔ آپ آئے روز ایسی خبریں دیکھتے اور سنتے ہوں گے کہ ماں یا باپ نے کھانا موجودنہ ہونے کی وجہ سے اپنی اور اپنے بچوں کی جان لے لی۔ اسی طرح آپ کو کوڑے کے ڈھیر پر لوگ کھانے کیلئے کچھ ڈھونڈتے بھی نظر آ جائیں گے۔ اس طبقے کو علمی دنیا میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگ کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے غذا کی فراہمی یا ان کو غربت کی لکیر سے اوپر لانے کے لیے ہر سیاستدان نعرے لگاتا اور وعدے کرتا ہے مگر جب بھی اس صورتحال کے اسباب کی بات کی جائے تو یہ سیاستدان اس کا ذمہ دار اپنے سے پچھلی حکومتوں کو ٹھہرا کر بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں غربت کی لکیر سے نیچے زندہ رہنے والوں یا زندہ رہنے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے نہ کہ کمی۔ بات ہو رہی تھی اشتراکیت کی‘ غربت کے خاتمے کے حوالے سے جدید دور میں سب سے بڑی مثال اشتراکیت والے ملک چین ہی کی ہے‘ جس نے لگ بھگ 80 کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھا کر انہیں مڈل کلاس تک پہنچا دیا ہے۔ یہ ملک دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش ایک عقیدے کی طرح کرتا ہے۔
کشمکش اور جنگ
اب کارل مارکس کے دوسرے اہم ترین اور بنیادی نکتے کی طرف چلتے ہیں۔ اس نے کہا تھا کہ معاشرے میں ہر دو فریقوں میں ایک کشمکش (Conflict) پائی جاتی ہے۔ اس کے مقابل سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے کہ یہ کشمکش نہیں بلکہ Functioning ہے۔ اس لفظ کا ترجمہ آپ جو بھی کریں‘ لیکن کارل مارکس کی کشمکش والی بات ہر لحاظ سے اور ہر شکل میں بھاری نظر آتی ہے۔ یہ کشمکش اب اگلے درجے میں داخل ہوتی ہوئی ایک جنگ بن چکی ہے۔ یہ جنگی کشمکش اب عالمی سطح سے لے کر ملکوں کی اندرونی حالت اور پھر لوگوں کی نجی زندگیوں میں بھی جھلک رہی ہے۔ لوگوں کی زندگی کبھی صرف بنیادی ضروریات تک محدود ہوتی تھی‘ جو اس مرحلے سے گزر کر سہولیات کی درجے کو پہنچتی، پھر اس کے بعد یہ تعیشات کے درجے میں جا پہنچتی۔ اس امر کا ایک اور رخ سے دیکھتے ہیں تو بات مزید عیاں ہو جاتی ہے کہ پہلے جن چیزوں کو تعیشات کا درجہ حاصل تھا وہ وقت کے ساتھ ساتھ سہولتوں کا درجہ اختیا کر گئیں اور جن کو سہولتیں سمجھا جاتا تھا‘ وہ بنیادی ضرورت بن کر رہ گئیں۔ اس ماجرے کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں موجود ایئر کنڈیشنر جب ایجاد ہوا تھا تو اس کا درجہ ایک تعیش کا تھا مگر وقت کے ساتھ یہ ایجاد ایک سہولت بن کر رہ گئی اور اب زیادہ تر آبادی کے لیے یہ ایک بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ اسی طرح کئی ایسی چیزیں ہیں جو ہیں تو بنیادی ضرورت مگر اب ایک تعیش یا کم از کم سہولت کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس حوالے سے مثالیں اور جنگی کشمکش کی مزید وضاحت اگلی تحریرمیں کی جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں