ہر سال جولائی کے آخری یا آگست کے ابتدائی دنوں میں ایک انتہائی اہم دن منایا جاتا ہے جس پر دنیا کو انتہائی سنجیدگی سے غور اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دن کا نام ہے: Earth Overshoot Day۔ اس کو آپ زمین کی حدِ کاشت زیادہ کرنے کا دن بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل 26 جولائی سے اگست کے ابتدائی دنوں کے دوران دنیا خوراک کی کھپت کی وہ حد پار کر لیتی ہے جو زمین اپنے طور پر پیدا کر سکتی ہے۔ اس کو مزید سادہ طریقے سے کچھ اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے کہ زمین اگر ایک سو لوگوں کو خوراک دے سکتی ہے اورزمین پر ایک سو ستر لوگ آباد ہو چکے ہیں تو سو لوگوں کی خوراک ایک سو ستر لوگوں میں تقسیم کرنے سے سال کے ساتویں مہینے کے اختتام پر زمین کی پیداواری گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ اسی کوفوڈ سکیورٹی کا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ صدی میں 70ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہی 60ء کی دہائی میں مصنوعی کھادوں، زیادہ پیداوار والے بیجوں اور پولٹری فارمنگ کا آغاز کرنا پڑا تھا۔ اب خوارک کے مسئلے کے بارے میں جو بار ہا کہا جاتا تھا کہ مستقبل میں خوراک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو گی‘ وہ وقت لگ بھگ آن پہنچا ہے۔ روس نے جب سے یوکرین پر حملہ کیا ہے‘ اس کے بعد سے خوراک کے مسئلے میں شدت آنا شروع ہو گئی ہے۔ یوکرین کی بندرگاہ اوڈیسا پر روسی حملے کے بعد سے یوکرین سے گندم کی سپلائی مکمل خطرے میں پڑ چکی ہے۔ واضح رہے دنیا کی کُل گندم ایکسپورٹ میں یوکرین کا حصہ لگ بھگ دس فیصد ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی خبریں آ رہی ہیں کہ یوکرین میں گندم کے کئی بڑے ذخیرے جنگ کے سبب تباہ ہو چکے ہیں۔ یورپ کی فوڈ باسکٹ میں جنگی حالات کے سبب دنیا بھر میں باقاعدہ طور پر خوراک کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت دس فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ ویسے تو اس وقت پاکستان بھی گندم کے بحران اور آٹے کی قلت کا سامنا کر رہا ہے مگر ہمارے مسائل کا تعلق یوکرین جنگ یا عالمی مارکیٹ سے نہیں ہے۔ بہرکیف‘ خوارک کے متوقع بحران کے باعث بھارت نے اپنی چاول کی برآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی ضمن میں ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ اس سال دنیا میں چاول کی فصل کی پیداوار آٹھ ملین ٹن کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زراعت کا شعبہ شدید متاثر ہو رہا ہے۔ اس سال اوسط سے زیادہ گرمی پڑنے کی وجہ سے پہلے گندم کی فصل متاثر ہوئی تھی اور اب چاول کی فصل‘ جو گندم کے بعد غذا کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے‘ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ چاول کی فصل بنیادی طور پر پانی کی مرہونِ منت ہوتی ہے، اسی لیے اس فصل کا نوے فیصد مشرقی، جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا میں پیدا ہوتا ہے اور عمومی طور پر اس کی بوائی مون سون کی بارشوں میں ہوتی ہے۔ بارشوں کے علاوہ اس فصل کی کاشت میں زیرِ زمین پانی سے بھی مدد لی جاتی ہے اور ٹیوب ویلوں سے زمین سے پانی نکالا جاتا ہے۔ اس طریقے سے فصلوں کو کھلا پانی لگانا ''فلڈ اریگیشن‘‘ کہلاتا ہے مگر اس طریقۂ کار سے ساٹھ سے ستر فیصد تک پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے زمین سیراب کرنے کے طریقوں کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں زیرِ زمین پانی کی سطح نیچے سے نیچے جاتی جا رہی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں پاکستان میں ایک مثبت خبر جو سننے میں آئی ہے وہ ''گرین انیشی ایٹو منصوبہ ہے جس میں فلڈ اریگیشن کے بجائے فوارہ نما سپرنکل طریقے سے فصلوں کو پانی لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ طریقہ نہ صرف کسان کا خرچہ کم کرے گا بلکہ پانی کی بچت جیسا انمول مقصد بھی پورا ہو گا۔ واضح رہے کہ اس وقت بھی پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی دیہات میں رہتی ہے اور زراعت ہی سے وابستہ ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ پانی کی کمی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے انتہائی خطرناک ممالک میں شمار ہوتا ہے، لیکن اگر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے یہ جدید طریقے استعمال کیے جانے لگیں تو یقین سے بھی آگے کا کوئی لفظ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان پانی کی قلت کے عذاب سے بہت حد تک محفوظ ہو جائے گا۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں کل پانی کا ستر فیصد زراعت ہی میں استعمال ہوتا ہے۔ سپرنکل اور ڈرپ اریگیشن جیسے جدید طریقوں کو رائج کرنے کے لیے کسانوں کو راغب کرنا، اس طرح کے طریقۂ آبپاشی کے آلات اورمعاونت مہیا کرنا‘ یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کرنا ہو گا۔
ٹیوب ویل چلا کر زمینوں کو کھلا پانی لگانا‘ یہ طریقہ بہت زیادہ پانی ضائع کرتا ہے اور یہ اب کتنا قدیم ہو چکا ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل ایک پروفیسر صاحب ٹیوب ویل کے پانی کے آگے ایک ٹربائن رکھ چھوٹے پیمانے پر بجلی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صاحب اس سلسلے میں چین کے انجینئرز سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے یہ منصوبہ چین والوں کو دکھانے کی کوشش کی تو آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو گی کہ چین والوں نے اس طریقۂ آبپاشی کو پہچاننے ہی سے انکار کر دیا اور فوراً اپنے ملک کے جدید طریقۂ آبپاشی کی تصاویر اور وڈیوز بھیجیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹیوب ویلز تو اب چین کے کسی پسماندہ علاقے میں بھی نہیں پائے جاتے۔ جب آپ انٹرنیٹ پر دنیا میں سب سے زیادہ ٹیوب ویلز والے ممالک تلاش کریں گے تو اس فہرست میں چین کا نام تک شامل نہیں ہو گا۔ بھارت پچاس لاکھ ٹیوب ویلز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے، دیگر ممالک میں برازیل اور پاکستان جیسے ملکوں کے نام آتے ہیں۔ لہٰذا جدید طریقہ آبپاشی متعارف کرانا، فصل کی لاگت کم کرنے اور پانی کی بچت کے حوالے سے ایک نیم انقلاب سے کم نہیں ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ اس پر پوری لگن اور دلجمعی سے کام ہو۔ اس سلسلے میں جو سنٹر آف ایکسیلینس قائم ہوا ہے‘ پتا چلا ہے کہ اس کے ذریعے موسم کی صورتحال سے کسانوں کو بروقت اور مؤثر اطلاع دینے کا سسٹم بھی بنایا گیا ہے۔ اس سے بھی پانی اور فصل‘ دونوں کی بچت ہو گی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسان ٹیوب ویل چلا کر فصل کو پوری طرح سیراب کر لیتا ہے مگر اگلے ہی دن بارش ہو جاتی ہے لہٰذا وہ پانی‘ جو مہنگی بجلی کے ساتھ ٹیوب ویل چلا کر زمین سے نکال کر فصلوں کو دیا گیا تھا‘ وہ ضائع جاتا ہے بلکہ بارش ہو جانے کے بعد پانی کی زیادتی سے کئی بار الٹا فصل کو نقصان ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک انقلاب کی ابتدا ہو گی جس سے پانی‘ محنت اور بجلی کی بچت کے ساتھ فصل کو بھی فائدہ ہو گا۔ یاد رہے کہ صاف پانی دنیا کی وہ قیمتی شے ہے جو نہایت تیزی سے قلت پذیر ہے اور جس کی عالمی سطح پر باقاعدہ تجارت شروع ہوچکی ہے اور اسے اب پگھلی ہوئی چاندی سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔
گرین ہو گا تو کلین ہو گا
گرین انیشی ایٹو منصوبے کی جو سب سے نمایاں بات ہے‘ وہ بنجر اور صحرائی علاقوں کو آباد کرنا ہے۔ دنیا بھر میں یہ کام کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ آپ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہی کی مثال لے لیں جو اب خود گندم کاشت کر رہے ہیں۔ بات یہاں بھی پانی کے قلیل استعمال کی ہے۔ بنجر علاقوں کو آباد کرنے کیلئے درخت‘ بلکہ پھلدار درخت‘ لگا کر اس منصوبے کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ اس میں جو طریقہ استعمال ہو سکتا ہے اور جس کا ذکر بھی کیا گیا وہ ڈرپ اریگیشن ہے۔ اس طریقۂ کار میں ایک چھڑی زمین میں لگا کر اس کے ساتھ پانی کی ایک بوتل لٹکا دی جاتی ہے‘ بالکل ایسے ہی جیسے ہسپتال میں مریضوں کو ڈرپ لگائی جاتی ہے‘ قطرہ قطرہ پانی پودے کی جڑ والی جگہ پر گرتا رہتا ہے اور وہ سوکھتا نہیں۔ صحرائی علاقوں میں جس جگہ پودے لگائے جاتے ہیں وہاں کچھ مٹی بھی ڈالی جاتی ہے جو پودوں کو اُگنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ مٹی ریتلی زمین میں پانی کو یکدم جذب ہونے سے بھی روکتی ہے۔ چند ماہ میں پودے کی جڑیں مضبوط ہو کر پودے کو اپنے پائوں پر کھڑا کر دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ بنجر علاقوں میں جتنے پودے لگائے جائیں گے اس سے سبزہ اتنا ہی بڑھے گا اور اتنی ہی فضائی اور موسمیاتی آلودگی کم ہوگی جو اس وقت پورے جنوبی ایشیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔