پندرہ اگست اور شُبھ گھڑی

انگریزی میں وِچ کی اصطلاح جادو ٹونہ کرنے والی عورت یا چڑیل کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ عالمی سیاست میں یہ لفظ امریکی صدر نکسن نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کیلئے استعمال کیا تھا۔ گزشتہ کالم میں ہم بات کر رہے تھے کہ بلائیں سب کچھ کھا جاتی ہیں‘ اور بھارت ایک ایسی ہی بلا کا نام ہے جو نہ صرف علاقے کے دیگر ممالک بلکہ اپنے غریب عوام‘ جو دنیا کی سب سے بڑی غریب تعداد ہے‘ کا حق بھی کھا رہی ہے اور پورے خطے کو ایک جنگ کی آگ میں جھونک رہی ہے۔ بھارتی ریاست منی پور ہی کو دیکھ لیں‘ اندازہ ہو جائے گا کہ اندرونی طور پر بھارت کس قدر کھوکھلا ہو چکا ہے۔ اس ریاست میں تین مئی سے شروع ہونے والے فسادات میں اب یہ مقام آ چکا ہے کہ منی پور ریاست کی پولیس نے بھارتی فوج کے دستے ''آسام رائفلز‘‘ کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی ہے کہ اس فوجی دستے نے منی پور پولیس کو شر پسندوں کو گرفتار کرنے سے روکا۔ ایک وڈیو ایسی بھی سامنے آئی ہے جس میں ریاستی پولیس اور فوجیوں کے درمیان سخت تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کے مناظر فلمبند کیے گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بی بی سی نے ایک وڈیو جاری کی ہے جس میں منی پور کے لوگ برملا اس با ت کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کا یوم آزادی ہرگز نہیں منائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کا مطلب دہلی میں کچھ اور ہے اور ہماری ریاست میں یہ یکسر مختلف ہے۔
بھارت کا سیکولرازم کا ڈھونگ
امریکہ کے بعد بھارت دنیا کا وہ ملک ہے جس میں تمام مذاہب کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان حالات میں سیکولر کا لفظ آئین میں درج کرنا بھارت کی شدید مجبوری تھی۔ اصل میں بھارت کتنا سیکولر ملک ہے‘ اس کیلئے اس کی تاریخ کے ابتدائی دنوں کا احوال ہی کافی ہے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد تاجِ برطانیہ کے آخری وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے 14 اگست 1947ء کو کراچی میں قائداعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے گورنر جنرل کا حلف لیا اور اسی دن وہ فلائٹ پکڑ کر دوپہر سے قبل دہلی پہنچ گئے‘ جہاں جواہر لال نہرو نے وزیراعظم کا حلف اٹھانا تھا۔ چودہ اگست کو نہرو کے گھر پر ہندو پنڈتوں کو بلایا گیا تھا جنہوں نے مذہبی رسومات کے مطابق اپنے اشلوک پڑھے اور نہرو کو ایک شال اوڑھا کر اس پر مقدس پانی چھڑکا۔ دوپہر دو بجے لارڈ مائونٹ بیٹن نے نومولود ریاست بھارت کی تشکیل کا اعلان کرنا تھا اور اقتدار نہرو کو سونپنا تھا مگر دہلی ایئرپورٹ پر ہی انہیں اطلاع ملی کہ جوتشیوں کے حکم کے مطابق تقریب ملتوی کر دی گئی ہے اور ''شُبھ گھڑی‘‘ نصف شب یعنی رات 12 بجے ہو گی‘ لہٰذا یہ تقریب بھی اسی وقت ہو گی۔ معروف صحافی ملڈریڈ ٹالبوٹ بھی اس تقریب میں موجود تھی۔ ٹالبوٹ نے جو اس تقریب کے نوٹس لیے وہ مائونٹ بیٹن کی دستاویزات میں محفوظ ہیں۔ وہ لکھتی ہے: ''گھڑیال رات 12 بجے کا اعلان کرنے ہی والا تھا اور اسی لمحے نہرو کو نئے ملک کا پہلا وزیراعظم بننا تھا۔ سب خاموشی سے شُبھ گھڑی کے منتظر تھے۔ ایک سکوت تھا اور سب کی نظریں گھڑیال پر جمی ہو ئی تھیں۔ جیسے ہی سوئی پر سوئی چڑھ چکی‘ ایک زوردار دھماکا ہوا۔ سب نے یکدم چونک کر اس طرف دیکھا جہاں سے دھماکے کی آواز آئی تھی۔ بھارتی آئین ساز اسمبلی کے ایک ہندو ممبر نے ایک مٹی کا کُجا زمین پر دے مارا تھا۔ یہ اس بات کی علامت تھا کہ بھگوان نے شُبھ گھڑی کو قبول کیا ہے‘‘۔ یہ واقعہ مشہور مصنفہ Alex von Tunzelmann نے اپنی شہرہ آفاق کتاب Indian Summer: The Secret History of the End of an Empire میں بھی درج کیا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ چودہ کے بجائے پندرہ اگست کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہندو پنڈتوں نے چودہ اگست کے دن کو بدقسمت قرار دیا تھا۔ اب رات بارہ بجے جب تقریبات کا آغاز ہوا تو پہلے علامہ اقبال کی مشہور نظم ''سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ گائی گئی اور اس کے بعد اَکھنڈ بھارت کا ترانہ ''بندے ماترم‘‘ گایا گیا۔ اب ذرا اس ترانے کی اصلیت جان لیتے ہیں۔ یہ ترانہ بنیادی طور پر ایک ناول ''Ananda Math‘‘ کا حصہ ہے جو 1882ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ ناول Bankim Chandra Chatterjee نے لکھا تھا۔ اس ناول کا بنیادی خیال یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب ہندوستان پر مکمل طور پر ہندوئوں کی حکومت قائم ہو جائے گی اور یہاں سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے گا۔ اس ناول کے دو ہی مرکزی خیال ہیں: ایک‘ مکمل طور پر ہندو راج اور دوسرا‘ مسلمانوں کا صفایا۔ اب بھی اگر لوگوں کو دو قومی نظریے کی سمجھ نہیں آتی تو یہ ناول پڑھ لیں۔ ناول میں ایک کردار ''بندے ماترم‘‘ کا ترانہ اس وقت گاتا ہے جب اسے اپنے لوگوں کا لہو گرمانا ہوتا تھا۔ ایک اور غور طلب حقیقت بیان کرتے چلیں کہ غیر برہمن اور امن پسند سمجھے جانے والے رہنما جیسے گاندھی‘ بھارت کی اسمبلی کا حصہ نہیں تھے۔ اس کی تفصیل پھر سہی! ہندو برہمن حکمرانی پر کس قدر گرفت رکھے ہوئے تھے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی کے پانچ ماہ بعد ہی جنوری 1948ء میں آر ایس ایس کے ایک برہمن ممبر نتھو رام گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کر دیا۔ یاد رہے کہ اِس وقت بھارت کی برسر اقتدار جماعت بی جے پی‘ آر ایس ایس ہی کی ایک شاخ ہے اور مودی جی آر ایس ایس کے بھگت ہیں۔ آزادی کے فوری بعد بھارت کو ایک برہمن ریاست بنا دیا گیا۔ نہرو کس قدر عجیب جمہوری حکمران تھے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ وہ تنِ تنہا سترہ سال تک بھارت کے وزیراعظم رہے۔ ان کے عہدِ حکمرانی کا خاتمہ کسی سیاسی تبدیلی کے باعث نہیں بلکہ ان کے انتقال کی وجہ سے ہوا۔
اب آتے ہیں گاندھی جی کے قتل کی طرف جو باہمی دوستی کے حامی تھے۔ انہوں نے کشمیر پر حملے اور بھارت کی طرف سے پاکستان کو اس کے حصے کی پچپن کروڑ روپے نہ دیے جانے کی وجہ سے بھوک ہڑتال کی تھی۔ ہندوتوا تنظیمیں مسلسل انہیں دھمکیاں دے رہی تھیں‘ اسی دوران آٹھ سے دس لوگوں نے گاندھی جی کے قتل کا منصوبہ بنایا اور گاندھی جی پر حملہ کیا خوش قسمتی سے اس حملے میں وہ بچ گئے اور ایک حملہ آور بھی گرفتار ہو گیا لیکن اس ملزم سے قتل کی سازش، شریک لوگوں اور دیگر چیزوں سے متعلق کوئی معلومات اکٹھی کی گئی اور نہ ہی کسی کو گرفتار کیا گیا۔ اس وقت بھارت کے وزیر داخلہ ایک سخت گیر قسم کے ہندو ولبھ بھائی پٹیل تھے۔ انہوں نے اس حملے کے بعد چند مزید پولیس والوں کو گاندھی جی کی رہائشگاہ پر تعینات کر دیا مگر اسی سکیورٹی میں نتھو رام گوڈسے نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس گھر میں گھس کر گاندھی جی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل کے بعد بہت سارے سوالات نے جنم لیا جن کا آج تک کوئی جواب نہیں مل سکا۔ اس قتل کے دو مرکزی مجرموں کو سزائے موت اور پانچ کو عمر قید سنائی گئی۔ ایک شخص کو وعدہ معاف گواہ بننے پر رہا کر دیا گیا، اس نے قتل میں ایک گانگریسی لیڈر کا نام بھی لیا مگر اسے گرفتار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ایک آر ایس آیس رہنما نے دھمکی دی تھی کہ اگر ہم گاندھی کو مسلمانوں کی حمایت سے باز نہ کر سکے تو اس کو خاموش کرانے کیلئے اپنا طریقہ اختیار کریں گے، اس کو بھی شاملِ تفتیش نہیں کیا گیا۔ نتھو رام گوڈسے کو پھانسی دی گئی مگر وہ آج بھی آر ایس ایس سمیت ایک بڑی ہندو آبادی کا ہیرو ہے۔
ہندوتوا اور آج کا بھارت
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہبی شدت پسندی کی آگ کو پوری طرح بھڑکایا جا رہا ہے۔ یہاں واضح کرتے چلیں کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد فسادات شروع ہو گئے اور عام ہندوئوں نے بڑی تعداد میں برہمن ہندوئوں کو قتل کیا۔ یہ نوزائیدہ بھارت میں قتلِ عام کا پہلا واقعہ تھا جو ہندوئوں میں آپس میں پیش آیا۔ اُدھر نہرو کے انتقال کے بعد لال بہادر شاستری بھارت کے وزیراعظم بنے مگر انہیں بھی راستے سے ہٹا دیا گیا کیونکہ وہ برہمن نہیں تھے، شاستری کے بعد نہرو کی بیٹی اندرا کو وزیراعظم بنائے جانے کا پلان بنایا گیا جو شاستری کی موت کے 15 دن بعد ہی پورا ہو گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اپنے ہاتھوں سے کیڑے ڈال کر کیڑے نکالنے والوں کو پتا نہیں بھارت کی حقیقی تاریخ کا ذکر کرنا کیوں گوارا نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں