ایمبولینس کے ڈرائیور‘ استاد کی باتیں

آج آپ سے بات کریں گے ایک ایسی افسانوی دنیا کی جو حقیقتوں پر بھاری ہے اور جس کے لیے ہم ایک ایمبولینس کے ڈرائیور سے کی گئی باتوں کا نچوڑ پیش کریں گے۔ اس کی باتیں اتنی گہری تھیں کہ لگتا تھا کہ کوئی افسانہ یا کوئی فلسفیانہ مکالمہ پڑھ رہے ہیں، حالانکہ وہ بات موت جیسی اٹل حقیقت کی کر رہا تھا۔ اس کی ہر بات میں موت کا لفظ ضرور آتا تھا۔ اس کی ہر بات موت سے شروع ہو کر موت ہی پر ختم ہوتی تھی۔ ایک ہسپتال کے باہر ایمبولینس میں بیٹھا یہ شخص زخمیوں اور شدید بیمار لوگوں کو ہسپتال لانے اور پھر انتقال کر جانے والوں کو گھروں تک پہنچانے کا کام کرتا ہے اور ایک عجیب دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی بات جو میں آپ کو بتا سکتا ہوں‘ یعنی جو میں محسوس کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ مجھے اب موت کا خوف نہیں رہا۔ اس بات پر اس سے تفصیل جاننے کا اشتیاق ہوا۔ بولا: میں نے اتنے اہم، جوان اور ناگزیر لوگوں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مجھے اب اپنا آپ اتنا ناگزیر محسوس نہیں ہوتا۔ مجھے کامل سے بھی زیادہ یقین ہو گیا ہے کہ آج نہیں تو کل میری باری ہو گی۔ اس نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ موت کا ڈر ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بہت زیاد لوگوں کی لاشیں اور میتیں ان کے گھروں اور قبرستانوں تک پہنچائی ہیں، میرا زیادہ وقت انہی کے ساتھ گزرتا ہے لہٰذا ہر روز کئی بار مجھے یہ خیال آتا ہے کہ ایک دن ایسے ہی میری میت پڑی ہو گی، مجھے بھی بالآخر اس دنیا سے چلے جانا ہے۔
دنیا سے چلے جانے کی حقیقت کے احساس کو مزیدواضح کرتے ہوئے اس نے کہا کہ اس کی زندگی سے اب خواہشات، تعیشات اور دیگر لوازمات کی ہوس ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ زندگی کو صرف بنیادی ضرورتوں تک محدود رکھتا ہے۔ اگر کبھی جاہ و جلال والی دنیا سے اس کا سامنا ہوبھی جائے تو وہ اس کی سوچ کو بدل نہیں پاتی۔ اس کے بعد اس نے ایک بہت ہی سبق آموز داستان سنائی جو ہم جیسے لوگوں کے لیے تجربات کی ایک پوری کتاب پہ بھاری ہے۔ کہنے لگا: جب تک لوگ قبرستان میں موجود ہوتے ہیں، وہ ہدایت یافتہ، نیک اور نرم خو محسوس ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی یہ لوگ گھروں کو واپس جاتے ہیں، ان کے اندر کی دنیاوی حرص و ہوس جاگنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس طرح وہ مرنے والے اپنے قریبی لوگوں کے غم کو بھولنے لگتے ہیں۔ ان کے صدمے کی شدت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر اس نے وقت کو دنیا کا سب سے بڑا مرہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب کچھ عرصہ بعد اس کی ملاقات کسی مرنے والے کے رشتہ دار سے ہوتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اب اس کے اندر اپنے عزیز کے بچھڑنے کا غم تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اسی تناظر میں اس نے ایک نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کسی بندے کے کسی بھی قریبی عزیز یا پیارے کی موت ہوجائے تو اس کو جتنی جلدی ہوسکے کام دھندے کی طرف مصروف کر دیں۔ مصروف ہو جانا وقت کا ایک ایسا روپ ہے جو ''عملی مرہم‘‘ بن جاتا ہے۔
اس کے بعد اس نے مرنے والوں کا دکھ مٹانے کا ایک سبق اپنے تجربے کی بنیاد پر بیان کیا، البتہ اس نے اسے دکھ ختم کرنے کے بجائے دکھ کم تر کرنے کا نام دیا۔ کہنے لگا کہ جب بھی کسی کا کوئی اپناچلا جائے تو اسے چاہیے کہ ارد گرد کے لوگوں کی طرف دیکھے، خاص طور پر ایسی اموات کو دیکھے جس میں چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہو جاتے ہیں، یا پھر ایک ہی خاندان کے ایک سے زیادہ لوگوں کا کسی حادثے میں ایک ساتھ انتقال ہو جاتا ہے۔ زندگی اتنا عجیب کھیل ہے کہ ان لوگوں کے لواحقین بھی بالآخر زندگی کی طرف لوٹ آتے ہیں یا پھر ان کو لوٹنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی گھر کا کوئی بڑا دنیا سے چلا جائے تو اس کے پسماندگان اور لواحقین کو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی طرف دیکھیں جن کے جوان اور نو عمر بچے اس دنیا سے چلے گئے ہیں۔ لوگوں کو چاہیے کہ دوسروں کی موت سے سبق لیتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں کیونکہ موت سے بڑا سبق اور اس سے پُراثر نصیحت اور کوئی نہیں ہوتی۔ یہاں پر اس کا اشارہ زندگی کو ضروریات تک محدود رکھنے کی طرف تھا، یعنی اس نے تعیشات اور مال و زر کی دوڑ سے باہر آنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اگلی بات اس نے بہت ہی دانائی کی کی۔ اس نے کہا کہ اس کا بس چلے تو وہ قبرستانوں کو شہروں کے بیچوں بیچ بسائے، مطلب بڑی اور مصروف ترین شاہراہوں کے قریب تاکہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس اٹل حقیقت کو دیکھیں اور عبرت حاصل کریں۔ اس نے اس موقع پرکچھ ایسے لوگوں کا حوالہ دیا جن کے گھر قبرستان کے قرب وجوار میں ہوتے ہیں۔ کہنے لگا: قبرستانوں کے قریب رہائش پذیر لوگ بہت حد تک ہدایت یافتہ معلوم ہوتے ہیں، اور کچھ ہو نہ ہو‘ یہ لوگ زیادہ شور شرابے والی زندگی نہیں گزارتے۔ اگر کوئی جنازہ آجائے تو دیگر لوگوں کی طرح یہ بھی غم زدہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ اس کا مشاہدہ ہے کہ قبرستان کے پڑوسی زیادہ تر اپنے گھر پر چلنے والے ٹی وی کی آواز کو کم رکھتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ دنیا کی خواہشات ترک کرنے والا سب سے بڑا بندہ اس نے وہ دیکھا جو قبریں کھودتا ہے۔ ایمبولینس کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ میں نے اس سے زیادہ سادہ زندگی گزارنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا۔ اس نے ایک عجیب حقیقت کا بھی انکشاف کیا، کہنے لگا کہ بہت سارے قبرستانوں کے اندر مذہبی رجحان والے لوگ باقاعدہ درس و تدریس بھی کرتے ہیں، جس کی بنیادی وجہ لوگوں کے اندر موجود خواہشات کے زہر کو مارنا ہوتا ہے، یعنی کم از کم لوگوں کو اس بات کا کامل یقین دلانا ہوتا ہے کہ یہ زندگی دائمی نہیں ہے۔
ویسے تو ڈرائیور کے لیے ہمارے معاشرے میں ''استاد جی‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، لیکن اس ڈرائیور کی باتیں واقعی کسی استاد کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھیں۔ اس نے بتایا کہ یہ اپنے قریبی لوگوں کی موت ہوتی ہے جو لوگوں کے دلوں سے دنیا داری کا خیال نکال دیتی ہے، یا پھر اس سے وقتی طور پر دنیا داری کا خیال کم ضرورہو جاتا ہے۔ اس نے تفصیل یوں بیان کی کہ اگر کسی شخص نے اپنے دادا اور پھر باپ کو بھی اپنے ہاتھوں دفنایا ہو تو موت کو قریب سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اب اس کی باری آنے والی ہے۔ اس کے علاوہ ''استاد جی‘‘ کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کا کوئی جوان چلا جائے‘ وہ بھی دوبارہ ہوس اور خواہشات والی زندگی سے دور ہو جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو اس نے کسی قریبی جوان عزیز کی موت کے بعد پُرسکون، سادہ اور حرص و ہوس سے محفوظ زندگی گزارتے دیکھا۔ یہ لوگ اس بات پر بھی آمادہ ہوجاتے ہیں کہ بہت کچھ زندگی میں ایسا ہے کہ جس کو یکسر رد کیا جا سکتا ہے اور پھر یہ آہستہ آہستہ دنیاوی آلائشوں سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ در گزر کرنا ان کا ایک معمول بن جاتا ہے اور بہت سارے لوگوں سے جو ناراضی ہوتی ہے‘ اس کو ختم کر دیتے ہیں۔ معاشی نفع اور نقصان کے درمیان میں جو مقام ہے‘ یہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اپنی زندگی کو قناعت اور صبر سے مزین کرتے ہیں۔ بات جاری رکھتے ہوئے ''استاد جی‘‘ نے کہا کہ یہ لوگ بعد میں کسی خوشی کے موقع پر بھی زیادہ پُر جوش نہیں ہوتے اور متوازن طریقے سے اس خوشی کے موقع کو گزارتے ہیں۔ اس بات کا بنیادی نکتہ یوں تھا کہ یہ لوگ پھر ایک اعتدال والی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس کے بعد استاد جی کا کہنا تھا کہ کسی کے قریبی رشتہ دار کا دنیا سے چلا جانا ایک ایسا امر ہے کہ جو لوگوں کے ذہنوں میں موت کے بعد کی زندگی کے تصورات کو اجاگر کرتا ہے۔ ان میں یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ عنقریب اپنے بچھڑ جانے والے عزیزوں سے جا ملیں گے، جیسے کسی نے شاعرانہ طرز پر کہا ہے:
تیرے چلے جانے کے بعد‘ موت کی؍ آرزو نہ سہی انتظار ضرور رہے گا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں