امریکی صدر جو بائیڈن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی تنازعات کی وجہ سے ایک ارب لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم تنہا ان چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس لیے درپیش مسائل کا سامنا کرنے کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اہداف کا مقابلہ کرنے کے اقدامات میں تیزی لانا ہو گی۔ آخری اہم بات انہوں نے یوکرین جنگ کے حوالے سے کی اور اسے ایک غیر قانونی جنگ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ اگر امریکی صدر کے خطاب کے اہم موضوعات کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ صدر بائیدن کی کہی ہوئی باتیں حالات کا مکمل احاطہ نہیں کرتیں۔
ایک ارب لوگ یا پھر...
صدر بائیڈن کا یہ کہنا کہ ایک ارب لوگ عالمی تنازعات سے متاثر ہو رہے ہیں‘ درست نہیں ہے۔ یہ بیان بہت کم تعداد کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کی بیان کی گئی اس تعداد میں کون سے علاقے لیے گئے ہیں، اس کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی گئی، لیکن اگر علاقائی اور عالمی تنازعات کے ضمن میں جائزہ لیں تو صرف جنوبی ایشیا کی دو ارب آبادی مختلف قسم کے تنازعات کا شکار ہے، اور پتا نہیں کتنی دہائیوں سے شکار چلی آرہی ہے۔ اس خطے کے تنازعات میں امریکہ کا محبوب اتحادی بھارت بنیادی کردارادا کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے خطے کی دو ارب سے زائد آبادی کو تنازعات سے نجات دلانے کیلئے اقوام متحدہ کے بجائے صرف امریکہ ہی چاہے تو خاصی مدد مل سکتی ہے۔ صرف امریکہ ہی بھارت کو راہِ راست پر لا سکتا ہے، کیونکہ بصورتِ دیگر اس میں تو اتنی بھی صلاحیت نہیں کہ اپنے اندرونی تنازعات ہی کو ختم کر سکے۔ بھارت کے اندر چلنے والے فسادات کی حالیہ لہر ہی کو دیکھ لیں جس میں غیر ہندو آبادی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر، خالصتان، مائو علیحدگی پسند اور اسی طرح کی دیگر تحریکوں کا ایک پورا محاذ بھارت اپنی جارحانہ طاقت کے استعمال کے باوجود ابھی تک حل کرنا تو دور کی بات‘ اس میں کمی تک نہیں لا سکا۔ اسی طرح بھارت وہ واحد بڑا ملک ہے جو اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ بھوٹان، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور چین بھی شامل ہیں۔
اب آپ موسمیاتی تبدیلیوں کے مسئلے کو دیکھ لیں، یہ خطہ ان کے باعث تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دو عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق جنوبی ایشیا کی آبادی کی اوسط عمر میں پانچ سے سات سال کی کمی ہو رہی ہے۔ یہ بات کسی بھی طور کسی مہلک جنگ سے کم نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس ماحولیاتی جنگ میں لوگ بدستور، مرحلہ وار اور آہستہ آہستہ موت کی وادی کی طرف سرک رہے ہیں۔ اکتوبر کے مہینے کی آمد آمد ہے اور ماحولیات کا سب سے انوکھا اور جان لیوا روگ‘ یعنی سموگ‘ اس خطے پر منڈلانے لگے گا۔ پہلے یہ زہریلی دھند ایک بارش کے بعد ختم ہوجاتی تھی لیکن اب یہ سردیوں کے پورے موسم میں‘ پانچ ماہ سے زیادہ عرصے تک مسلط رہتی ہے۔ ماحولیات کی جنگی صورتحال کی بات کریں تو بھارت کے پڑوسی ممالک کو اس بات پر بھارت سے احتجاج کرنا چاہیے کیونکہ بھارت اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے اور سب سے زیادہ آلودہ بھی۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب بھی ہوائوں کا رخ بھارت کی طرف سے کسی پڑوسی ملک کی جانب ہوتا ہے تو اس ملک کی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا شکار پاکستان بھی ہوتا ہے۔ بھارت کی اس ماحولیاتی دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بھوٹان اور نیپال ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی ہوا کی کوالٹی کا معیار عمومی طور پر بہتر ہوتا ہے بالخصوص بھوٹان کا‘جہاں ستر فیصد سے زیادہ رقبے پر جنگلات ہیں مگر جیسے ہی ہوا کا رُخ بھارت سے ان ممالک کی طرف ہوتا ہے تو یہ بھی فضائی آلودگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اب یہ بھارت کے سوچنے کی بات ہے جہاں مصنوعی بارشوں کا نظام بھی نصب ہے کہ وہ کس طرح اس خطے کی بقا کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ فی الوقت بھارت کی پالیسی الٹے پائوں والی ہے یعنی وہ اپنے طور پر جتنا آگے بڑھتا ہے‘ در اصل اتنا ہی پیچھے جا رہا ہوتا ہے۔ اس کے دور جانے کا پتا اس کے اپنے عوام کے خیالات سے لگا لیں کہ جن میں علیحدگی پسند تحریکوں کی پذیرائی بدستور بڑھتی جا رہی ہیں۔ خالصتان تحریک کے ایک سرگرم رکن کے کینیڈا میں قتل میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے الزامات‘ جو براہِ راست کینیڈا کے وزیر اعظم کی طرف سے لگائے گئے ہیں‘ کے بعد بھارتی حکومت کی اپنے لوگوں سے دوری اور بھی بڑھ گئی ہے۔ بقول شاعر:
ہمارے پائوں الٹے تھے فقط چلنے سے کیا ہوتا
بہت آگے گئے لیکن‘ بہت پیچھے نکل آئے!
بھارت پر خالصتانی لیڈروں کے قتل کے الزامات میں صرف کینیڈا ہی پیش پیش نہیں ہے بلکہ آسٹریلیا ، برطانیہ اور امریکہ کی آوازوں کی بھی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ کینیڈا میں بھارتی سفارتکار کو ملک چھوڑنے کا حکم جاری ہو چکا ہے۔ مغرب کی ایما پر ایشیا میں کشیدگی‘ تنازعات اور شورشوں کو ہوا دینے والے بھارت کیلئے شاید یہ آخری موقع ہے کہ وہ اپنے قدم سیدھے کر لے۔ قدم سیدھے کرنے کے بعد چاہے سفر نہ کرے‘ تب بھی اس خطے کی تقدیر سدھر سکتی ہے، یا کم از کم بچ سکتی ہے۔
باقی بچی ہوئی تقدیر
شاید یہ الفاط عجیب محسوس ہوتے ہوں کیونکہ تقدیر کا سدھرنا تو سنا تھا، یہ تقدیر کا بچنا کہاں سے آگیا۔ اس کیلئے آپ کو بھارت ہی کی ایک فلم کا ایک ڈائیلاگ حوالہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ فلم میں ایک کردار اپنے مخالف کے متعلق کہتا ہے کہ ''کسی کی زندگی تباہ کرنے کیلئے اسے زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے‘‘۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بھارت اس خطے پر حکمرانی چاہتا ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ یہ خطہ‘ بھارت سمیت‘ بچا رہے۔ بصورتِ دیگر ظالم اور مظلوم‘ دونوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹتا نظر آ رہا ہے کیونکہ اب تک کے آثار، شواہد اور حالات وواقعات یہی بتاتے ہیں کہ جنوبی ایشیا‘ جو جدید دنیا کی پہلی تہذیب ہے اور جو قدیم ترین تہذیبوں کا خطہ ہے‘ اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ پرانی تہذیبوں کا خاتمہ بھی ماحولیاتی آلودگی کے حد سے بڑھ جانے ہی کے سبب ہوا تھا۔ اس وقت بھی شہروں میں آلودگی اس حد تک بڑھ جاتی تھی کہ لوگ مرنا شروع ہو جاتے تھے، جبکہ باقی لوگ وہ علاقہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح اب جنوبی ایشیا وہ خطہ بن چکا ہے جس کے متعلق یہ پیش گوئی کئی سال سے کی جارہی ہے کہ اس علاقے سے لوگ عنقریب آلودگی کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ یاد رہے اس ضمن میں روزنامہ دنیا کے انہی صفحات پر تقریباً دو سال قبل عرض کیا تھا کہ لاہور جیسے شہروں کے پاس اب زیادہ سے زیادہ پانچ سال بچے ہیں۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ جی ٹونٹی کا نفرنس میں سب ملکوں کے سربراہان کو نہ بلا سکنے والا بھارت‘ در اصل اب ٹی ٹونٹی کی طرز پر تیزی سے اس خطے کی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جی ٹونٹی سے ٹی ٹونٹی تک
ٹی ٹونٹی کرکٹ میں سب سے تیزی سے کھیلا جانے والا انٹرنیشنل کھیل ہے۔ اگر جنوبی ایشیا میں پانی کی کمی، پانی کی آلودگی، ہوا کی آلودگی، زیرِ کاشت رقبے میں کمی اور سب سے بڑھ کر سالانہ سو ا دو کروڑ آبادی میں اضافے جیسے مسائل ہی کو لیا جائے تو یہ خطہ ٹی ٹونٹی میچ کی طرز پر تیزی سے اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ماحویاتی آلودگی کے جان لیوا مرض کا علاج تو دور کی بات‘ ابھی تک اس کا ادارک تک نہیں ہو سکا ہے۔ اگر ادراک ہی نہیں ہوا تو تدارک کہاں سے ہو گا۔ یاد رہے کہ عالمی ماحولیاتی رینکنگ ملکوں کے مضبوط یا محفوظ ہونے کا ایک نیا پیمانہ ہے۔