بِگ بلنڈر آف بھارت

''بھارت اپنے کیے کی کتنی قیمت چکائے گا ابھی واضح نہیں‘‘ یہ الفاظ اکانومسٹ جیسے جریدے کے ہیں۔ پورے عالمی میڈیا کا یہی کہنا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی کا کینیڈا میں ایک کینیڈین سکھ شہری کا قتل پاگل پن ہے۔ موساد جیسا بننے کی خواہش نے بھارتی ایجنسی ''را‘‘ اور خود بھارت کے لیے بہت سے خطرات کو جنم دیا ہے۔ قتل ہونے والا سکھ‘ جس کا نام ہردیپ سنگھ نجر تھا‘ اپنی کمیونٹی کا ایک اہم رہنما تھا ‘ جس کے قتل کی تحقیقات کے لیے سکھ کمیونٹی کی طرف سے کینیڈین حکومت پر کافی دباؤ تھا۔یہی وجہ ہے کہ جی20 کی سربراہی کانفرنس سے پہلے ہی کینیڈا نے ایک بھارتی سفارتی اہلکار کو خاموشی سے کینیڈا چھوڑنے کا حکم دے کر اس دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ کینیڈا کی جانب سے بھارت کی خفیہ ایجنسی پر لگائے گئے الزامات کے بعد مغربی ممالک اس جانب متوجہ ہوئے ہیں حالانکہ بھارت کی بدنامِ زمانہ ایجنسی پر اس سے پہلے جنوبی ایشیا کے ممالک میں دہشت گردی اور اہم شخصیات کے قتل کی وارداتوں کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا‘ ناقابلِ تردید اور زندہ ثبوت ابھی تک پاکستان کے پاس کلبھوشن یادیو کی شکل میں موجود ہے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ بھوٹان‘ نیپال‘ میانمار اور افغانستان میں تورا بدامنی پھیلانے کی کئی کارروائیاں کر چکی ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی میں تو افغانستان را کے لیے دوسرا ہوم لینڈ تھا۔ اُس دور میں را نے افغان سر زمین کو پاکستان میں بد امنی پھیلانے کیلئے کھل کر استعمال کیا۔ اس کے علاوہ یہ چاہ بہار کے بہانے ایران کی سر زمین کو بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر چکی ہے۔اب یہ ایجنسی اپنی حد اور قد سے کہیں بڑی واردات کر بیٹھی ہے جس کی اسے کوئی نہ کوئی قیمت تو چکانا ہی پڑے گی۔
بھائی بنایا جاتا ہے باپ نہیں
ایک بھارتی فلم کا ڈائیلاگ ہے کہ پولیس کسی کو بھائی تو بنا سکتی ہے لیکن باپ نہیں۔ یہ ڈائیلاگ ایک پولیس افسر فلم نے اپنے ہی پیدا کردہ ایک بدمعاش کو حد سے زیادہ وارداتیں کرنے پر اُسے مارنے سے پہلے بولا تھا۔ عالمی سیاست میں بڑی طاقتوں کی حیثیت بھی ایک پولیس افسر کی سی ہوتی ہے جو دنیا پر اپنا حکم‘ مثبت یا منفی‘ اپنے طور پر چلاتی ہیں۔ چین کے بطور عالمی طاقت ابھرنے سے پہلے عالمی پولیس مین کا کردار صرف امریکہ کا تھا لیکن اب اس کی یہ حیثیت چیلنج ہو چکی ہے۔ امریکہ نے ایک پولیس والے کی طرح بھارت کو جنوبی ایشیائی خطے کا بھائی بنا رکھا تھا لیکن بھارت نے حرکت ایک باپ والی کر ڈالی ہے۔ سابقہ سوویت یونین ہو یا پھر مغربی طاقتوں کی خفیہ ایجنسیاں‘ یہ ایک دوسرے کے ممالک میں ایسی کارروائیاں بلکہ اس سے بھی بڑی شخصیات حتیٰ کہ سربراہان مملکت کو بھی نشانہ بناتی رہی ہیں‘ لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے ملک بہت طاقتور تھے۔ ایک مغربی ملک کی ایجنسی کے ایک سابق ایجنٹ کا کہنا ہے کہ 5 Eyes والے کسی بھی ملک میں اس طرح کی کارروائی ایک حماقت اور پاگل پن ہے جو بھارت نے کینیڈا میں کی ہے۔ پانچ آنکھوں سے مراد برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خفیہ اداروں کا ایک اتحاد ہے۔ یہاں پر ایک بہت ہی اہم واقعہ یاد آرہا ہے جو بھارت کے لیے ایک قومی سانحے اور بے بسی کا مظہر ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے بھارت کے اپنے وزیراعظم لال بہادر شاستری کے مبینہ قتل کی جو روس میں 1965ء میں ہوا تھا۔ اگرچہ ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ قرار دی گئی تھی لیکن بھارت کی ایجنسیاں اس واقعے کے حقائق کے قریب بھی نہیں پہنچ پائیں تھیں۔ یہ ایک قتل تھا یا نہیں‘ اس کے لیے آپ صرف بھارت کی اپنی بنائی فلم تاشقند فائلز ہی دیکھ لیں تو آپ کو کافی کچھ پتا چل جائے گا۔
VANOکون تھی
اب آپ کو ایک بہت ہی اہم حقیقت کی طرف لیے چلتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی درونِ خانہ سوویت یونین کی خفیہ ایجنسی کے پے رول پر تھیں۔ روسی ایجنسی کے ایک سابق افسر کے مطابق اندار گاندھی کا خفیہ یا کوڈ نیم VANO تھا۔ یہ ایجنسی اندرا گاندھی کو رشوت کے طور پر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مالی امداد فراہم کرتی تھی۔ ایک اور روسی ایجنٹ کا کہنا تھا کہ وہ نہرو خاندان کے کہنے پر ان کے سیاسی مخالفین تک کو راستے سے ہٹا دیا کرتے تھے۔ لال بہادر شاستری کی موت کا براہِ راست فائدہ بھی اندرا گاندھی ہی کو پہنچا تھا جو اس کی موت کے بعد وزیراعظم بنی تھیں۔ بھارتی ایجنسی کو سوچنا چاہیے کہ جو اپنی وزیراعظم کے بیرونی طاقت کے پے رول پر ہونے کا پتہ نہ چلا سکی‘ وہ کس طرح کینیڈا جیسے ملک میں ایک مقامی لیول کے لیڈر کو قتل کرنے چل پڑی۔ یہاں پر یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان میں کلبھوشن یادیو سے پہلے بھی بھارتی جاسوس پکڑے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ناکامی جو اس ایجنسی کے ماتھے پر داغ ہے وہ اپنے وزیراعظم راجیو گاندھی کو قتل کرنے کے لیے سری لنکا سے آئے تاملوں کو نہ پکڑ پانا ہے جس کی وجہ سے راجیو گاندھی ایک خود کش دھماکے میں جان گنوا بیٹھے تھے۔ اس موضوع پر بھارت نے ایک فلم مدراس کیفے کے نام سے بنا رکھی ہے۔ اب پتہ نہیں بھارت کب اور کیسے کینیڈا میں اپنی حالیہ واردات کے موضوع پر کوئی فلم بنائے گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اپنی کامیابی قرار دینے والا بھارت کب اس موضوع پر بھی کوئی فلم بنائے گا کہ اسے اُس وقت کی دونوں عالمی طاقتوں روس اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کی ہر طرح کی مالی‘ عسکری و انٹیلی جنس امداد حاصل تھی۔ اگر اس موضوع پر فلم بنانی ہو تو روسی جاسوس یوری بیزمی نو کی کتاب Deception Was My Job اور ان کے انٹرویو سے فلم کا سکرپٹ حقائق کے ساتھ مل سکتا ہے۔
Use, Misuse and Abuse
بڑی طاقتوں کے ہاتھوں چھوٹے ممالک کا استعمال ایک تلخ حقیقت ہے۔ بات کی جائے مغربی طاقتوں کی تو یہ ایشیائی ممالک کو مسلسل استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ مغربی طاقتوں کی طرف سے ایشیائی ممالک کو اس لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان مسائل میں گھرے رہیں اور کسی بھی طرح ترقی کے شاہراہ پر گامزن نہ ہو سکیں۔ اس کی بنیادی وجہ مغربی طاقتوں کا اپنے خلاف کسی بڑی طاقت یا طاقت ور خطے کو ابھرنے سے روکنا ہوتا ہے۔ اب آپ سرد جنگ کی مثالیں لے لیں یا پھر مسلم دنیا کو باہم اختلافات میں مبتلا رکھنا‘ ان سب مثالوں سے بھارت کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سیاست میں ہیرو سے ولن اور دوست سے دشمن قرار دیے جانے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگتا۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ سرد جنگ میں مسلم دنیا کے افغانستان میں روس کے خلاف کامیابی سے لڑنے والے مقدس جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دینے اور پھر انہی کے خلاف ایک جنگ لڑنے کی مثال ایک سبق ہے۔ بھارت کو پہلے تو یہ بات سوچنا ہو گی کہ ابھی وہ امریکہ یا دیگر مغربی طاقتوں کے لیے کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہوا ہے۔ اس کے بعد دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ روس کے برعکس اب چین ایک ایسی عالمی طاقت ہے جس کی بھارت کے ساتھ دہائیوں پرانی لڑائیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ تواتر سے چین بھارت کی فوج کو ہزیمت سے دوچار کرتا رہتا ہے اور اس کے علاقوں پر اپنا قبضہ بھی بڑھاتا رہتا ہے۔ اس کی بڑی مثال چین کا بھارت کی ریاست ارونا چل پردیش کو مکمل طور پر اپناحصہ دکھا کر بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کی ایک جھلک دکھانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کبھی بھی اس طرح بھارت کو چین کے خلاف کھڑا نہیں کر سکتا اور نہ ہی لڑا سکتا ہے جس طرح کبھی امریکہ نے مسلم دنیا کو روس کے خلاف لڑایا تھا۔ دوسری طرف بھارت تاحال ایک نرگسیت کے شکار ملک کے طور پر امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ Mis-Useکا ہے اور سب سے آخر میں اس طرح کے کردار ABUSEہو کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔
اب طاقت ور اور با صلاحیت ممالک کیسے ہوتے ہیں‘اس کے لیے بھی بھارت کو چین اور روس کی طرف دیکھنا ہوگاجو چاہیں تو امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک کے الیکشنز پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔یاد آیا کہ آج سے تقریباً سات سال پہلے بھارت میں چین کے سفیرنے سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرکے بھارت کو بہت بڑا پیغام دیا تھا۔موجودہ حالات میں چین کے سفیر کا وہ دورہ بہت یاد آ رہا ہے۔کینیڈا میں سکھو ں کی تعدا د پندرہ لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور وہاں پر چین کی لابی بھی مضبوط ہے۔جبکہ بھارت کو سکھوں کی علیحدگی کی تحریک کا سامنا امریکہ‘برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی کرنا پڑ رہا ہے ۔آخری اہم بات جو ذہن میں آرہی ہے وہ چین اور امریکہ کی سرد جنگ میں کسی ایک فریق کی واضح برتری تک بھارت جیسے ملک کو چھوٹ ملنے کا کچھ امکان ہے لیکن اس کے بعد بالخصوص اگر چین کو امریکہ پر برتری حاصل ہو گئی تو بھارت ایک Abusedکردار کی طرح اپنی بقا داؤ پر لگاتا نظر آ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں