جنوبی ایشیا مستقبل کا افریقا یا Worst Asia (پسماندہ ترین ایشیا) ہے۔ یہ وہ نام ہیں جو راقم نے جنوبی ایشیا کو اپنے کالموں میں گزشتہ دو ڈھائی سال کے عرصے میں دیے ہیں۔ اسی طرح بھارت سے متعلق مفید یا مہلک احمق‘ بگ بلنڈرز آف بھارت‘ بلائنڈ بلنڈرز آف بھارت‘ نرگسیت میں مبتلا بلا کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں۔ ان اصطلاحات پر بہت سارے لوگ قدرے نہیں بلکہ مکمل تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے کہ بھارت تو بہت آگے نکل چکا ہے‘ بہت ترقی کر چکا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ بھارت سے متعلق اپنے کالموں کی ایک سیریز میں مَیں نے متعدد بار اس خدشاتی امکان کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ ملک تضادات کا مجموعہ ہوتے ہوئے کسی بھی منفی انجام کو پہنچے گا۔ اب حال ہی میں کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے‘ کسی بیان کے بجائے کینیڈین پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران ایک سکھ کینیڈین شہری کے قتل کا بھارت پر واشگاف الفاظ میں الزام لگانے کے بعد سے بھارت کے قد اور حد میں مزید کمی ہوئی ہے۔ مغربی یا ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے بھارت سے متعلق اس طرح کے انکشافات یا الزامات‘ جو حقیقت پر مبنی ہیں‘ کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے خالصتان کے حامی کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے حوالے سے بھارت پر الزام عائد کرنے سے پہلے امریکی صدر جوبائیڈن‘ برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک اور فرانس کے صدر عمانوائیل میکرون کو اعتماد میں لیا تھا۔ جسٹن ٹروڈو نے ان عالمی رہنماؤں کو آگاہ کیا تھا کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے پاس شواہد موجود ہیں کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ایجنٹ ملوث ہیں۔ کینیڈا نے اس معاملے پر اقوام متحدہ سے بھی رابطہ کیا ہے جس سے اب بات کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں کہ کینیڈا کے پاس خالصان کے حامی سکھ رہنما جو کہ کینیڈا کا شہری بھی ہے‘ کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے حوالے سے کتنے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
بھارت کے جدید تضادات
بھارت کے نوبل انعام یافتہ مصنف امرتیا سین کی ایک کتاب کا عنوان An Uncertain Glory: India and its Contradictions ہے جس میں مصنف کہتا ہے کہ بھارت کا مستقبل غیریقینی ہے۔ اسی طرح رواں برس بھارت کے مشرقِ وسطیٰ میں تعینات سابق سفیر تلمیذ احمد (Talmiz Ahmad) نے بھارت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اپنے ہی خیالات و تصورات میں کھویا ہوا ایک Self-absorbedملک ہے۔ انہوں نے بھارت کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ تعلقات کے حوالے سے کہا تھا کہ بھارت برطانوی طرز کی راج شاہی سوچ میں مبتلا ہے۔ آج کے بھارت پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کی نقشوں کی جنگ یعنی سرحدی علاقوں کی باؤنڈری پر تضادات‘ پاکستان کے علاوہ نیپال‘ بھوٹان اور سب سے بڑھ کر دنیا کی دوسری بڑی عالمی طاقت چین کے ساتھ ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کے رقبے پر چل رہے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ بھارت کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ بھی مکمل طور پر واضح نہیں اور اسی طرح کے معاملات میانمار کے ساتھ بھی ہیں۔ چین کے ساتھ اس کی سرحد کی حیثیت ایک عارضی لائن کی ہے جس کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول(The Line of Actual Control) کہا جاتا ہے۔ بھارت کی چین کے ساتھ گزشتہ پانچ برسوں سے سرحدی تنازعات پر مسلسل کشیدگی چل رہی ہے۔ یہ کشیدگی بھارت کے ارونا چل پردیش کی پوری ریاست کو اپنا حصہ قرار دینے پر چل رہی ہے۔ بھارت کی اس ہٹ دھرمی کا ایک پُر امن مگر پُرزور جواب دینے کے لیے چین نے حال ہی میں اپنا ایک نیا سرکاری نقشہ جاری کیا تھا جس میں اس پوری ریاست کو چین نے اپنا حصہ ظاہر کیا تھا۔ نیپال بھی دو مرتبہ اپنا نیا نقشہ جاری کر چکا ہے جس میں بھارت کے زیر قبضہ بعض علاقوں کو نیپال نے اپنی ملکیت ظاہر کیا ہے۔
بھارت میں نئے الیکشن کی آمد آمد ہے جبکہ فاشسٹ مودی نے اپنی قوم کو واضح طور پر ہندو اور غیر ہندو آبادی میں تقسیم کرنے کی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی مثال بھارتی ریاست منی پور کی ہے جہاں رواں برس مئی سے خانہ جنگی کی طرز پر کشیدگی جاری ہے جو تاحال نہیں رُک سکی۔ اتنے بڑے ملک کے لیے یہ ایک کھلا چیلنج ہے کیونکہ بھارت کی آرمی بھی اس علاقے کے حالات کو نارمل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ آپ حالات کی نزاکت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اس علاقے کی پولیس نے اپنی ہی آرمی کی ایک یونٹ‘ آسام رائفلز کے خلاف ایف آئی آر کٹوا رکھی ہے۔ اب اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ بھارت سرکار ان تمام مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود کیوں کر کینیڈا کی سر زمین پر ان لوگوں کو قتل کروا رہی ہے جو اب کینیڈا کے باضابطہ شہری ہیں۔ کسی بھی ملک کا کوئی بھی ادارہ اتنا ہی طاقت ور ہوتا ہے جتنا وہ ملک مجموعی طور پر باصلاحیت اور طاقتور ہوتا ہے۔بھارت نے اپنی ایجنسی سے سکھ کینیڈین کا قتل کرواتے ہوئے یہ بھی نہ سوچا کہ دنیا کے پانچ ممالک کی ایجنسیاں اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔پانچ ممالک جن میں آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ امریکا‘ کینیڈا اور برطانیہ شامل ہیں‘ کی خفیہ ایجنسیوں نے ایک اتحاد بنا رکھا ہے جسے پانچ انکھوں (Five Eyes) کا نام دیا گیا ہے۔ ایسے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را کی حالت ایک ایسی ایجنسی کی ہے جس کی ایک آنکھ بھی بمشکل کام کرتی ہے۔ اپنی اس خستہ حالی کے باوجود وہ کیسے کینیڈا کی سرزمین پر ہی ایک کینیڈین شہری کو قتل کر سکتی ہے۔
خام ایجنسی کی خراب آنکھیں
بھارت کی خفیہ ایجنسی کا نا م RAWہے۔ اس لفظ کو اگر الٹا پڑھیں تو یہ وار یعنی جنگ بنتا ہے لیکن RAW لفظ کا لفظی مطلب خام ہوتا ہے۔ جیسے جب لوہا زمین سے نکلتا ہے تو اس کی شکل ایک مٹی کے ڈھیلی کی طرح ہوتی ہے‘ یہ اس کی خام شکل ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ اس ایجنسی کو شہرت یا مشہوری صرف اور صرف بھارتی فلموں کے ذریعے حاصل ہوئی ہے۔ یہ ایجنسی کتنی زیادہ خام یعنی غیر معیاری ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ایک میٹنگ بلائی اور یہ منصوبہ بنایا کہ مغربی پاکستان پر بھی حملہ کیا جائے گا۔ لیکن اس میٹنگ کے اگلے ہی روز یہ ساری معلومات امریکا کے صدر کی میز پر پہنچ چکی تھیں۔ اس پر امریکی صدر نے فوراً اندرا گاندھی کو فو ن کرکے اس طرح کی کسی بھی حماقت کرنے سے باز رہنے کی حاکمانہ ہدایت کی۔ 'را‘ نامی اس خام ایجنسی کو اس تاریخی واقعہ سے ہی سبق لینا چاہیے تھا کہ وہ کس حد تک غیر معیاری ہے۔ یہاں پر ایک تاریخی انکشاف بھی کرتے چلیں کہ اس واقعہ کے بعد جب امریکی مصنفوں نے کتابیں لکھیں تو پتہ چلا کہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ایک قریبی وزیر امریکی ایجنسی کے ایجنٹ تھے۔ یہ صاحب جو امریکی ایجنٹ تھے‘ بھارت کے نائب وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ باقی تو چھوڑیں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی خود روس کی ایجنسی کے پے رول پر تھی۔ اندرا گاندھی کا کوڈ نیم VANOتھا جس کا مطلب ایک بے کار چیز ہوتا ہے۔ اب جو ایجنسی اپنی وزیراعظم اور نائب وزیراعظم کے بارے میں یہ خبر نہ رکھ سکے کہ وہ غیرملکی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں‘ وہ کس طرح اتنی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے کہ ایک ترقی یافتہ مغربی ملک کی سر زمین پر ایک متحرک شخصیت کا قتل کردے اور اُس ملک کو پتہ بھی نہ چل سکے؟ اس خام یعنی غیرمعیاری ایجنسی کو یہ بھی خیال کرنا چاہیے تھا کہ یہ سکھ لیڈرکینیڈا کا ایک باضابطہ شہری تھا۔ عالمی سیاست میں کسی شخص کو کب ہیرو سے ولن یا پھر ولن سے ہیرو بنانا ہے یہ صلاحیت ایک سپر پاور ملک ہی رکھتا ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عالمی معیار کی ایجنسیاں تو ملک کے حکمرانوں کو بھی راستے سے ہٹا دیتی ہیں لیکن وہ اتنی طاقتور اور با صلاحیت ہوتی ہیں کہ کوئی وہ نام لینے والا تو کیا کوئی نشان بھی پیچھے نہیں چھوڑتیں۔ بھارتی ایجنسی کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے تھی کہ اس کے اپنے تین حاضر وزرائے اعظم قتل ہو چکے ہیں جن میں سے ایک دیارِ غیر میں قتل ہوا تھا۔اس لیے اس ایجنسی کو پانچ آنکھوں والے عالمی ایجنسیوں کے اتحاد سے مقابلہ کرنے سے پہلے بار بار سوچنا چاہیے تھا کہ وہ خود تو ایک آنکھ بھی نہیں رکھتی اور اگر اس کی ایک آنکھ ہے بھی تو اس سے وہ دھندلا ہی دیکھتی ہے یعنی اسے کوئی تصویر مکمل نظر نہیں آتی۔ گوکہ اب بھارت سرکار کی آنکھیں کھل چکی ہیں لیکن دیکھتے ہیں کہ وہ کھلی آنکھوں سے بھی صاف صاف دیکھ سکتی ہے یا نہیں۔