مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں‘ دو عالم لڑ رہے ہیں

مذہب‘ پرنٹنگ مشین اور فرانس کا انقلاب‘ وہ تین عوامل ہیں جو دنیا کی تاریخ کا خلاصہ ہیں۔ تاریخ دان اس جملے کو دنیا کی تاریخ کا نچوڑ کہتے ہیں۔ مذہب نے آدمی کو انسان بنانے کیلئے رہنمائی فراہم کی۔ پرنٹنگ مشین نے عام آدمی کی علم اور معلومات تک رسائی آسان بنا ئی اور فرانس کے انقلاب نے اختیارات کا جمود توڑ کر عام آدمی کو فیصلہ سازی میں شریک کر دیا۔ حماس اسرائیل یا مشرقِ وسطیٰ کی جاری جنگ کا نچوڑ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایشیا کے عوام بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بھی انسانوں جیسا سلوک کیا جائے۔ ایک عرب میڈیا چینل نے اس بات کو غیرجانبداری سے پوری دنیا تک پہنچایا اور یہ بھی کہ اب عالمی حکمرانی میں صرف امریکہ کی مرضی نہیں چلے گی۔ اس کے خلاف ایشیا کی دو طاقتیں کھڑی ہو چکی ہیں۔ ایشیا کے ساتھ جس خطے کو تاریخ میں پہلی دفعہ کوئی موقع اور مقام مل رہا ہے‘ وہ براعظم افریقہ ہے۔ اس طرح آپ اس کو ایفرو ایشیا کی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دنیا میں مشرق و مغرب کے حوالے سے خود مغرب سمیت West vs. Rest کا فلسفہ بیان کیا جاتا ہے۔
Crash to Clash
روس کے ٹوٹنے پر امریکہ نے دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے‘ بنانے اور چلانے کے لیے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا جسے امریکہ کی طرف سے ''نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کہا گیا۔ اسی ورلڈ آرڈر کے تحت روس کے ٹوٹتے ہی مسلم دنیا کی تہذیب کو ختم کر دینے کی حد تک نقصان پہنچایا گیا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا موڑ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں سامنے آ چکا تھا لیکن پھر ایک انقلابی صورتحال پیدا ہوئی یا یوں کہہ لیں کہ ایک کوشش ہوئی ہے جو اب کچھ نہ کچھ سے‘ بہت کچھ حاصل کرتی نظر آ رہی ہے۔ اس سے پہلے مشرقی تہذیب بالخصوص مسلم تہذیب کو صرف اور صرف تباہی (Crash) کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ واضح رہے کہ ایشیا کا وہ واحد ملک جو مکمل طور پر مغربی تصور ہوتا ہے‘ وہ صرف اسرائیل ہے۔ اس کا اظہار حالیہ دنوں میں تمام بڑے یورپی ممالک کے اسرائیل کے حق میں بیانات سے بھی ہو جاتا ہے۔ رہی بات امریکہ کی تو اسرائیل اس کی 51ویں ریاست تصور کیا جاتا ہے۔ فلسطینی اسرائیل کو جد ید دنیا کا عسکری و استعماری قابض کہتے ہیں۔
بات چل رہی ہے تہذیبوں کے ٹکراؤ کی تو واضح رہے کہ اسرائیل بھی نظریاتی طور پر ایک مذہبی جمہوری ریاست ہے اور اس کا آئین الہامی کتاب تورات ہے۔ یہاں مسلم دنیا کو یہ بات ضرور سمجھنی چاہیے کہ ترقی کرنے اور طاقت حاصل کرنے میں مذہب ہر گز رکاوٹ نہیں ہے۔ یہودیوں کا مسیحیوں کے ساتھ کوئی تنازع یا تصادم نہیں ‘ ان کے تمام تر تنازعات مسلمانوں کے ساتھ ہیں‘ یہی وجہ سے کہ وہ فلسطین کے مسلمانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لیے یہودی ریاست اسرائیل نے قومی سطح پر پالیسیاں تشکیل دی رکھی ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف دوسرا بڑا محاذ ہندوبرہمن نے اپنی شدت پسندانہ سوچ کی بنا پر کھول رکھا ہے۔ آج کل اس میں مزید تیزی آچکی ہے۔ بارہا یہ ذکر ہو چکا ہے کہ بھارت ہندو بنیے کی اسی شدت پسندی کی وجہ سے ایک مفید اور مہلک احمق کے طور پر جنوبی ایشیا اور دیگر ایشیا کی خرابی میں استعمال ہو رہا ہے۔ اسرائیل بھارت کو مسلسل عسکری مدد فراہم کرتا رہتا ہے۔ اس سے بھی اہم بات جو اسرائیل اور بھارت کے مابین قدرِ مشترک ہے‘ وہ اسرائیل کے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کی طرح مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ تسلط اور وہاں مسلمانوں کی نسل کشی ہے۔
سرد جنگیں اور مسلم دنیا
روس اور امریکہ کی سرد جنگ میں مسلم ممالک امریکی اتحاد کا حصہ بنے‘ استعمال ہوئے اور پھر امریکی جبر کا شکار ہو گئے۔ نئی سرد جنگ کی اہم بات یہ ہے کہ چین مسلم ممالک کو اپنے قدموں پر کھڑا کر رہا ہے‘ ان کے تنازعات حل کروا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کوشش کر رہا ہے کہ مسلم دنیا جنگ و جدل سے نکلے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی مثال افغانستان ہے جہاں چین کی معاونت سے آہستہ ہی سہی لیکن ایک تعمیری عمل ضرور شروع ہوا ہے۔ چین نے افغانستان میں اپنا سفارتی عملہ بھی تعینات کر دیا ہے۔ ماضی کی سرد جنگوں کے برعکس جاری سرد جنگ میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ماضی کی سرد جنگ میں روس اور چین کے باہمی فاصلے بڑھتے بڑھتے اختلافات میں بدل گئے تھے لیکن جاری سرد جنگ میں یہ دونوں ممالک نہ صرف خود ساتھ ساتھ ہیں بلکہ ایٹمی طاقت شمالی کوریا بھی اس بلاک کو جوائن کر چکا ہوا ہے۔ یہ تین ایٹمی طاقتوں کا ایک بڑا عسکری اتحاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے بھی فلسطینیوں کی حمایت کر دی ہے جو ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اس وقت مسلم ممالک میں سے وسطی ایشیا کے پانچ ممالک بہت حد تک چین کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ چین نے وسطی ایشیا کے تین ممالک تاجکستان‘ کرغزستان اور قازقستان کے ساتھ سرحدی معاملات مکمل اور واضح طور پر طے کر لیے ہیں۔ جس طرح چین اور بھارت کا سرحدی علاقہ واضح بھی نہیں اور متنازع بھی ہے‘ اسی قسم کی کچھ صورتحال چین کی تاجکستان‘ کرغزستان اور قازقستان کے ساتھ بھی ہوا کرتی تھی۔ اس خطے میں اب جو سب سے بڑا تنازع جنگی کشمکش میں بدل رہا ہے‘ وہ چین کے بھارت کی طرف بڑھتے قدم ہیں۔
موجودہ سرد جنگ کا ایک گرم میدان جو فلسطین کی شکل میں کھلا ہے‘ اس پر پہلی دفعہ مسلمان اپنے لیے لڑ رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بھی امریکہ کی جارحانہ بلکہ ایک طرح سے قبضے کی پالیسی سے اکتا چکے ہیں۔ یہ ممالک صرف اس انتظار میں ہیں کہ کب ایشیا میں چین کا عمل دخل اتنا بڑھے کہ امریکہ کو ایشیا سے بے دخل کیا جا سکے۔ اب عرب ممالک کا اسرائیل کو ماننے یا اس کے ساتھ کھلے عام تعلقات استوار کرنے کا سلسلہ بھی کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ پوری مسلم دنیا کے عوام نہ صرف اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ بڑے پیمانے پر فلسطین کی حمایت بھی کرتے ہیں۔ پہلے یہ عنصر اتنا اہم نہیں تھا لیکن اب اسرائیل کو ماننے سے متعلق مسلم ممالک کو یقینا یہ رائے عامہ بھی مدنظر رکھنا ہو گی۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم اور جو مواد سامنے آ رہا ہے‘ وہ واضح طور پر اس پہلو کی غمازی کرتا ہے۔
عالمی جنگ یا دو عالموں کی جنگ
پہلی دونوں عالمی جنگیں بنیادی طور پر یورپ اور اس کے اتحادیوں کے درمیان لڑی گئی تھیں۔ پہلی عالمی جنگ میں ایک بڑی طاقت سلطنت عثمانیہ بھی تھی لیکن موجودہ سرد جنگ‘ جو اب بہت حد تک گرم بھی ہو چکی ہے‘ کے دو محاذوں میں سے ایک ایشیا میں ہے اور یہ دو عالموں‘ یعنی مشرق اور مغرب کا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ یہاں ایک اور خطے افریقہ کا بھی ذکر کرتے چلیں جہاں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک واقع ہیں۔ واضح رہے کہ اس خطے کو پسماندگی کا شکار بنائے رکھنا بھی مغرب کی پالیسیوں یا ترجیحات میں شامل ہے لیکن اب چین اس براعظم کو بھی ایک عالمی ایکٹر کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ افریقہ سے یاد آیا کہ فلسطین یعنی غزہ کے ساتھ مصر کی سرحد لگتی ہے۔ یہاں مصر کے مرحوم اور منتخب صدر محمد مرسی کا ذکر لازم ہو جاتا ہے جنہوں نے حکومت میں آتے ہی فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحد کھولنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ آپ کو پتہ ہی ہے۔ مغربی طاقتیں کس طرح وقت آنے پر اپنی مرضی کے حکمرانوں کا کیا حال اور بندوبست کرتی ہیں‘ اس کا بخوبی اندازہ آپ کو ضرور ہو چکا ہوگا۔
اصل Clashاب ہوا ہے
دنیا کے اندر اگرچہ پچھلی پانچ صدیوں سے مغرب ہی کا غلبہ رہا ہے۔ یہ غلبہ اپنی مرضی کا سیاسی‘ معاشی اور سماجی نظام بنانے اور مسلط کرنے کے لیے تھا۔ بنیادی طور پر مشرق آبادی اور رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا خطہ ہے۔ صرف ایشیا میں دنیا کی آدھے سے زیادہ آبادی رہتی ہے اور اس کا رقبہ دنیا کا تیس فیصد ہے۔ اگر افریقہ کو شامل کر لیں تو رقبے کے اعتبار سے یہ دونوں براعظم دنیا کا پچاس فیصد ہیں۔ افریقہ کے حوالے سے مغرب کی پسماندگی پر مبنی پالیسیوں کی ایک وجہ یہاں پر موجود مسلم ممالک بھی ہیں۔ چونکہ بات ہو رہی ہے تہذیبوں کے ٹکراؤ کی تو تہذیبوں کا اصل اور پہلا باضابطہ ٹکراؤ اب شروع ہوا ہے۔ فلسطین اور پاکستان کے خلاف معاشی جنگ‘ بھارت اور چین کے سرحدی تنازعات‘ بھارت کے اندر علیحدگی کی تحریکیں‘ امریکی مداخلت کی وجہ سے تائیوان میں کشیدگی‘ جنوبی چین کا سمندر‘اس عالمی ٹکرائو کے بڑے محاذ ہیں۔ یاد رہے کہ فلسطین کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی مسلمان اپنے علیحدہ وطن کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ محاذ دور ہی سے سہی‘ لیکن عالمی ماہرین کو نظر ضرور آ رہا ہے۔ چین بھی اب Attack is the best form of defence کی پالیسی اپناتا نظر آ رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں