اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جبکہ پوری دنیا میں یہودیوں کی کُل آبادی دو کروڑ کے قریب اور دنیا کی کُل آبادی کا محض 0.2فیصد ہے۔ دوسری طرف دنیا میں مسلمانوں کی کُل آبادی دو ارب کے قریب ہے جو کہ دنیا کی کُل آبادی کا 25فیصد ہے جبکہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں جو باضابطہ طور پر او آئی سی کے ممبر بھی ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں ایک یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان موجود ہیں لیکن پھر بھی پلڑا اسرائیل یعنی یہودیوں ہی کا بھاری ہے۔ یہاں جو چیز فرق ڈالتی ہے وہ تعلیم و تحقیق اور ایجادات ہیں۔ دور کیا جانا‘ پاکستان ہی کے اندر تعلیم کے شعبے میں موجود بحرانی کیفیت کو دیکھ لیں جو ملک کے مستقبل کو لاحق خطرات کی نشاندہی کرتی ہے۔ واپس تعلیم و تحقیق کی طرف چلیں تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں‘ جن کا سکہ عالمی معیشت میں چلتا ہے‘ وہ یہودیوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ ایک اور اہم بات جو سیکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہے اور اس کا آئین ان کی مذہبی کتاب تورات ہے۔ یعنی اگر آپ نے ترقی کرنی ہو تو آپ ایک مذہبی ریاست کے طور بھی کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ ترقی کے لیے سیکولر ہونا ضروری ہے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مذہب کے نام پر طاقت کا حصول اور کاروبار نہیں چلانا چاہیے۔
دنیا میں یہودی کیوں اور کتنے پسند کیے جاتے ہیں
یہودیوں پر سب سے بڑا‘ باضابطہ نسل کشی کا حملہ ہٹلر نے جرمنی میں کیا تھا جسے یہودیوں نے ہالو کاسٹ کا نام دیا لیکن بہت کم لوگ اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ہٹلر نے ایسا کیوں کیا تھا۔ پہلی بات‘ ہٹلر کو یہ خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ یہودی جہاں بھی ہوں یہ معیشت کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔ ان کی پوری تاریخ اور واقعات ہٹلر کے سامنے تھے۔ اس کے علاوہ یہودی سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ ترین نسل کے لوگ ہیں‘ وہ خدا کے منتخب بندے ہیں اور دنیا پر حکمرانی کے حقدار ہیں۔ کچھ اسی طرح کے خیالات ہٹلر کے اپنی قوم کے متعلق بھی تھے۔ وہ سمجھتا تھا کہ گوکہ اس کی نسل کے لوگ اعلیٰ ترین لوگ ہیں لیکن یہودی کسی بھی دوسرے ملک کی معیشت کو‘ جس میں سود کا کاروبار ایک اہم ہتھیار ہو‘ با آسانی اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔ اسی خدشے کے پیش نظر ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی کا فیصلہ کیا تھا۔
اب ایک اور پہلو کی طرف چلتے ہیں جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے جو ممالک اسرائیل کو تسلیم تو کرتے ہیں‘ اس سے تجارت بھی کرتے ہیں لیکن ان ممالک کے حکمران اسرائیل کا دورہ کرنے سے کتراتے ہیں۔ اس کی سب بڑی مثال کو بھارت ہی ہے۔ بھارت اسرائیل کو شروع دن سے تسلیم کر چکا ہے لیکن بھارت کا کوئی وزیراعظم اس کا دورہ کرنے کا خواہاں نہ تھا۔ نریندر مودی پہلا بھارتی وزیراعظم ہے جس نے چند سال قبل غالباً جولائی 2017ء میں اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ آپ اگر عالمی تاریخ پر نظر رکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اسرائیل کو دورہ کرنے والے عالمی سربراہان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں ہے۔ آپ کو اندازہ ہوگا کہ کھیل کی دنیا میں اکثر بڑے بڑے کھلاڑی‘اس حقیقت کے باوجود کہ ان کا ملک یا تو اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے یا کرنے کا خواہاں ہے‘ کئی مواقع پر فلسطین سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لیے فلسطین کا جھنڈا لہرا دیتے ہیں۔ مسلم دنیا کے حکمرانوں کے سامنے بھی یہی ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ان کے عوام اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہیں ورنہ یہ ممالک کب کے یہ فیصلہ کر چکے ہوتے۔ آپ یہی دیکھ لیں کہ حالیہ فلسطین اور اسرائیل کشیدگی سے قبل تقریباً چھ سے سات عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی نہج پر تھے لیکن اس جنگ نے یہ سارا عمل کھٹائی میں ہی نہیں ڈالا بلکہ انہیں ایک بار پھر یہ باور کروا دیا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا حل صرف اور صرف دو ریاستی فارمولے میں ہی پوشیدہ ہے۔ اسی بات کو آگے بڑھائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب گریٹر اسرائیل‘ جس کا مطلب شام‘ عراق اور مصر کے علاقوں کو اپنے اندر ضم کرکے ایک بڑا ملک بنانا تھا‘ کا معاملہ بھی اب مکمل طور پر رُک چکا ہے۔
نئی سرد جنگ کا ایک بڑا اور فیصلہ کن موڑ
ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چین نے امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر رکھا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے اس میں ایک فیصلہ کن شدت اس طرح آچکی ہے کہ چین اپنی عالمی تجارتی گزر گاہ کی شکل میں ایشیا‘ یورپ اور سب سے بڑھ کر افریقا کو بھی ایک معاشی علاقے میں ڈھال کر امریکہ کو پچھلے قدموں پر دھکیل چکا ہے‘ لیکن امریکہ اب بھی چین کی اس کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے کوشاں نظر آتا ہے۔ اس کیلئے امریکہ کی تائیوان کے مسئلے پر چین کی مخالفت‘ علاقائی و عالمی عسکری اتحاد بنانا‘ بھارت سے سی پیک کی مخالفت کروانا‘ عالمی مالیاتی اداروں کی مدد سے پاکستان کو ایک جنگی طرز کی مشکلات میں مبتلا کرنا شامل ہے۔ دوسری طرف لیکن روس کی جانب سے یوکرین پر ایک جنگی آپریشن‘ ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی‘ چین کا بھارت کی سرحدی ریاست ارونا چل پردیش کو اپنا حصہ قرار دینا‘ کینیڈا کی جانب سے بھارت پر ریاستی دہشت گردی کے الزامات‘ چین کے فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور اب فلسطین کی بدلتی ہوئی صورتحال اس بات کا اشارہ ہیں کہ چین امریکہ کو ایشیا پر اپنے تسلط سے دستبردار کروا کر ہی چھوڑے گا۔ چین اگر یہ نہیں کروا پاتا تو امریکہ اس کے راستے میں کھڑا رہے گا۔ یعنی دنیا طاقت کے ایک مرکز کے طور پر ہی کھڑی رہے گی۔
اس بات کو آپ اسرائیل کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ دراصل اسرائیل ایشیا میں امریکی طاقت کا ایک نمائندہ ملک ہے۔ اسرائیل کو امریکہ اپنی تہذیب کے ایک نمائندہ کے طور پر ایشیا میں ایک سربراہ کے طور پر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل پر کسی بھی جنگی آپریشن کا مطلب دراصل براہِ راست امریکہ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ انتہائی بامعنی بات ہے۔ اسی لیے اس جنگی کشیدگی میں امریکہ اسرائیل کا ساتھ یوں دے رہا ہے کہ جیسے اسرائیل نہیں بلکہ اُس پر حملہ ہوا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ایک بڑا فیصلہ کن موڑ ہی نہیں آیا بلکہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اب مسلم دنیا نمایاں طور پر چین کی طرف مڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی اہم بات امریکہ کی مسلم دنیا کی جانب وہ جارحانہ پالیسی بھی ہے جو اس نے سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے مسلم دنیا پر مسلط کی ہوئی ہے۔ عرب دنیا کو یہ خدشہ واضح حقیقت کی طرح نظر آ رہا ہے کہ اسرائیل اگلے مرحلے میں ان کے علاقے ہی ہڑپ نہیں کرے گا بلکہ اس خطے میں امریکہ کے نائب کی حیثیت سے ان پر اپنی مرضی چلائے گا۔ اب یہاں ایران کے بعد جو طرزِ عمل سعودی عرب نے اختیا رکیا ہے وہ بہت نمایاں اور معنی خیز ہے۔ یاد رہے کہ چین اس علاقے کے ایک بڑے کے طور پر بجا طور پرسعودی عرب ہی کو آگے رکھ رہا ہے۔ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان سعودی عرب کے ساتھ ایک جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ اسی طرح عرب دنیا کے چھوٹے مسلم ممالک بھی سعودی عرب ہی کو اپنے بڑے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
کرپشن اور پنشن کی ٹینشن
اب ذرا مسلم دنیا کے ایک ملک میں جاری ایک ناقابلِ فہم قسم کے مسئلے کی طرف چلتے ہیں جہاں پر تعلیم اور اساتذہ دونوں ہی کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں اس وقت سرکاری تعلیمی ادارے ایک مکمل بحران کا شکار نظر آرہے ہیں۔ اساتذہ سڑکوں پر ہیں‘ بڑے سرکاری تعلیمی ادارے مالی بحران کا شکار ہیں۔ اس پر مزید کچھ کہنے سے پہلے آپ کو مغرب کی ترقی کا راز بتاتے چلیں۔ اگرچہ پوری مغربی دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام ہے لیکن پھر بھی یہ ممالک دفاع‘ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان شعبوں میں معیشت یعنی منافع کا عنصر غالب نہ آئے۔ اسی بات کو ایک اور زاویے سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سبھی شعبے دراصل تعلیم و تحقیق ہی کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔ اب یہاں جو پنشن کو بوجھ بیان کیا جا رہا ہے‘ اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ملک پر اصل بوجھ کرپشن کا ہے نہ کہ پنشن کا۔ اسی طرح ایک اور بات کا خیال کچھ اس طرح سے رکھنا ضروری ہے کہ جو پیسہ تعلیم کے شعبے پر لگایا جاتا ہے اس کو اخراجات نہیں بلکہ سرمایہ کاری کہا جاتا ہے۔ تعلیم ترقی کا بیج ہے کیونکہ معیاری تعلیم ہی سے ڈاکٹر‘ سائنس دان‘ انجینئر‘ لکھاری‘ وکیل اور دیگر مؤثر قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کو انسانی وسائل (Human Resource) کہا جاتا ہے۔ دنیا کے پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک کی طرف دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ممالک صرف زمین کاشت کرنے پر لگے ہوئے ہیں لیکن دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ذہنوں کی کاشت پر توجہ دیتے ہیں۔ ذہن کاشت کرنے سے ہی ایجادات ہوتی ہیں اور ایجادات کرنے والے ممالک ہی دنیا میں نمایاں برتری حاصل کر پاتے ہیں۔ یہ نمایاں برتری معیشت کی ہو‘ سماج کی ہو یا پھر عسکری ہو‘ سب تعلیم و تحقیق سے ہی ممکن ہے۔ اسرائیل اس کی سب سے نمایاں مثال ہے کیونکہ وہاں تعلیم و تحقیق کو اولین ترجیح بنایا گیا ہے۔