کرکٹ اور سفارت کاری

چند ماہ پہلے سعودی عرب کے ڈاکٹر عیسیٰ جو رابطہ عالم اسلامی تنظیم کے سیکرٹری ہیں‘ کا ایک بیان شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ میڈیا میں توانا آواز نہ ہونے کی قیمت مسلمان اپنے بہتے ہوئے خون کی شکل میں ادا کر رہے ہیں۔ ان کی یہ بات اُس وقت زیادہ یاد آئی جب افغانستان کے پلیئر آف میچ بلے باز نے پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ میچ میں اپنی جیت کو پاکستان سے واپس بھیجے گئے افغان مہاجرین کے نام کیا۔ انہوں نے ایسا کرتے وقت یہ تک نہیں سوچا کہ افغانستان کے حالات کی قیمت افغانوں کے بعد اگر کوئی ادا کرتا آرہا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ یہاں اس چیز کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ افغانستان کے اندر تو ویسے ہی میڈیا بہت کم، کمزور اور کنٹرولڈ ہے، لیکن پاکستان کے میڈیا میں بھی خبروں سے ہٹ کر‘ فلموں اور ڈراموں کی شکل میں کچھ ایسا نہیں بنایا گیا کہ جس سے دنیا کو یہ دکھایا، بتایا اور باور کرایا جا سکے کہ افغانستان کی جنگی صورتحال‘ جس کی تاریخ اب چار دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے‘ کا براہِ راست انسانی و معاشی بحران، جنگی اثرات اور سب سے بڑھ کر دہشت گردی کا بوجھ پاکستان برداشت کرتا آیا ہے۔
کرکٹ میچ، جس کا نتیجہ سب کو پتا ہے
کرکٹ کو افغانستان کے حوالے سے ایک واحد خوشی کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ مطلب افغانستان والے بھی کرکٹ کی فتح کو اچھی خبر اور جشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ حالیہ ورلڈ کپ میں مشہور و سینئر افغان کھلاڑی غلام نبی نے اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نوے کی دہائی میں پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں کرکٹ کھیلنی شروع کی، محنت کی اور پھر عالمی سطح پر بھی کرکٹ کھیلی۔ اسی طرح انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ایک وقت آئے گا جب وہ اپنے لوگوں کے سامنے اپنے ملک میں بھی کرکٹ کھیلیں گے۔ اگر میچ کی بات کی جائے تو پاکستان نے اس میچ میں سب سے بڑی غلطی ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنے کی شکل میں کی۔ اس کی بنیادی وجہ اوس کا پڑنا ہے۔ اگر یہ امکان کم بھی ہو تو دوسری بڑی غلطی دو ریگولر سپنرز کو کھلا کر کی جبکہ افغانستان نے چار سپن بائولرز کو ٹیم کا حصہ بنایا۔ اس دن صبح کے وقت ہی اخبارات میں یہ بات شائع ہو چکی تھی کہ آج ایک سپن وکٹ پر میچ ہوگا، مطلب یہ ایک کھلا راز تھا، پتا نہیں پاکستانی کوچ اور کپتان کیونکر لا پتا رہے۔
پہلے کھیلتے ہوئے پاکستان زیادہ رنز بنا سکتا تھا کیونکہ سپن بائولنگ کو کھیلنا پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا کے کھلاڑیوں کی مضبوطی سمجھا جاتا ہے۔ کمنٹری کرنے والوں کے مطابق تین سو کا ہندسہ عبور ہونا چاہیے تھا۔ تین سو کا ہندسہ کرکٹ میچ میں ایک پریشر فگر قرار پاتا ہے۔ اس کے بعد جب پاکستانی باؤلرز نے بائولنگ شروع کی تو وہ قدرے کم محنت کرتے نظر آئے، یعنی انہوں نے لائن اور لینتھ کا زیادہ خیال نہ رکھا۔ پہلے دس اوورز کے بعد ہی میچ پر پاکستان کی گرفت کمزور ہو گئی اور ٹیم انڈر پریشر آگئی۔ میچ کے دوران واحد موقع دوسری وکٹ گرنے کے بعد بنا جب مومینٹم پاکستان کے حق میں ہوا، کچھ گیندیں خالی گئیں اور کچھ گیندوں نے بلے بازوں کو پریشان کیا لیکن اس کے بعد میچ افغانستان کے حق میں سیدھا ہوگیا اور پھر سیدھا ہی رہا۔ یہ صرف ایک شکست کی بات نہیں‘ اصل بات آٹھ وکٹوں سے شکست ہے۔ پاکستان میں کرکٹ ایک جنون بن چکا ہے اور ہر کوئی ایک ماہر کی طرح اس پر تبصرہ کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جو گیند پاکستان کے بائولرز کو دی گئی اس کی ساخت یا بناوٹ مختلف تھی۔ اس کی وجہ میچ دیکھنے والے یہ قرار دیتے ہیں کہ جب پاکستان کے بائولرز خاص طور پر سپنرز بائولنگ کر رہے تھے تو گیند بالکل بھی ٹرن نہیں ہوئی۔
یہ کرکٹ کی دنیا ہے اور میچ بھی بھارت میں ہو رہے ہیں، لہٰذا کسی بھی بات کی امید اور توقع کی جا سکتی ہے۔ بھارت کی ٹیم یعنی کھلاڑیوں کو جس طرح اس ٹورنامنٹ کی سب سے فیورٹ ٹیم قرار دیا جا رہا ہے‘ وہ ناقابلِ فہم نہیں۔ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں میں بھی بڑے بڑے کھلاڑی شامل ہیں، اس حساب سے بھی بھارت کا نمبر کم از کم تین بنتا ہے۔ لیکن لوگ 2011ء کے ورلڈ کپ کو یاد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہی یہ ورلڈ کپ جیتے گا یا 'جتوا یا‘ جائے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جا رہی ہے کہ اس ورلڈ کپ کے ساتھ ہی آئندہ الیکشن میں نریندر مودی کی جیت جڑی ہے۔
تاریخ جو معلوم ہے لیکن یاد نہیں
پاکستان‘ افغانستان کرکٹ میچ کے حوالے سے جو کچھ لکھا گیا‘ وہ سب کچھ پہلے بھی دیکھا‘ سنا اور پڑھا سا لگ رہا ہوگا۔ لیکن وہ بات‘ جو اب نصف صدی کا قصہ ہونے کو ہے‘ اس طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا۔ یہ 1979ء کی بات ہے جب سوویت فوج نے افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا اور سوویت یونین یعنی روس کے مقابل امریکہ کھڑا تھا، جس نے پاکستان کے ذریعے افغانستان کو سرد جنگ کا فیصلہ کن میدان بنانے کی ٹھان لی تھی۔ اس جنگ کے شروع ہوتے ہی 30لاکھ افغان مہاجر پاکستان آگئے۔ انہی مہاجروں میں ایک خاندان‘ جو پشاور آیا تھا‘ کے ایک بچے کانام محمدنبی تھا، جس کی پیدائش 1985ء میں ہوئی۔ اس بچے نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ آج یہ کھلاڑی دنیا کے ٹاپ آل رائونڈرز میں شمار ہوتا ہے۔ اب یہاں پر ایک بھارتی فلم یاد آرہی ہے، جو باکس آفس پر تو فلاپ ہو گئی تھی مگر ا س میں ایک پیغام پوشیدہ تھا۔ اس فلم میں سنجے دت کو ہیرو کے روپ میں دکھلا کر افغانستان کے اندر کرکٹ کو بنیاد بنا کر بھارت کے حق میں رائے ہموار کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
اب چلتے ہیں ایک اور رخ کی طرف‘ جو یہ بتاتا ہے کہ افغانستان میں بھارت نے پنجے گاڑے اور قونصل خانوں کی شکل میں دہشت گردی کو پاکستان ایکسپورٹ کرنے کی ایک جنگی حکمت عملی اختیار کی۔ اس سلسلے میں بھارت کے سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کا بیان بہت مشہور ہے، جس نے اس نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ بھارت افغان سرزمین پرکتنے ہی ملین ڈالر دے کر مختلف گروہ کھڑے کر چکا ہے، جن کے ذریعے پاکستان کے اندر خلفشار اور دہشت گردی جاری رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ افغان آرمی‘ جو امریکہ کے جاتے ہی ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گئی تھی‘ کی ٹریننگ بھی بھارت ہی میں ہوا کرتی تھی۔ بھارت نے چابہار کا منصوبہ بھی افغانستان میں اپنی عسکری مداخلت برقرار رکھنے کے لیے ہی بنایا تھا۔ بھارت نے کچھ افغانوں کو اپنے ہاں پناہ بھی دی تھی‘ جو اب بھی وہیں موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ افغانوں کو این جی اوز بھی کھول کر دی گئی تھیں جو اب بھی چل رہی ہیں۔ بھارت نے افغان سر زمین کو امریکی چھتری کے نیچے پندرہ سال تک صرف اور صرف جنگی دہشت گردی کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان میں گاہے گاہے بھارت کی جنگی سرمایہ کاری کی باقیات‘ کسی نہ کسی تخریب کاری کے واقعے کی شکل میں نمودار ہوتی رہتی ہیں۔ افغانستان میں پہلے روس اور پھر امریکہ کی بیس سالہ موجودگی کے تناظر میں فلمیں یا ڈاکومینٹریز بننی چاہئیں۔ زیادہ مؤثربات یہ ہو گی کہ اگر طویل ڈرامہ سیریز اس موضوع پر بنیں۔ اس کے لیے پروڈکشن ہائوسز کو فوکس کرنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پریمیئر لیگ (پی ایس ایل) کے اگلے ایڈیشن میں افغان کھلاڑیوں کو نہ صرف زیادہ تعداد میں مدعو کیا جائے بلکہ ان کے ساتھ میڈیا پر بھی تفصیلی ڈسکشن کی جائے۔ اسی صورت بھارت کی عینک‘ جو افغانوں کی آنکھوں پر چڑھائی گئی ہے‘ اتر سکے گی اور ان کو اصل صورتحال کا علم ہو سکے گا کہ افغانوں کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں اور آسانیاں پاکستان ہی نے فراہم کی ہیں۔
انڈیا آئوٹ
مالدیپ میں حالیہ انتخابات جیتنے والے نو منتخب صدر نے بھارتی آرمی کو مالدیپ سے نکلنے کا حکم دیا ہے، اس کے ساتھ ہی بھارت کی فوج کی یہاں موجودگی کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ بھی اب یقینی نظر آ رہا ہے۔ واضح رہے کہ مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزو وہی ہیں جنہوں نے مالدیپ میں ایک تحریک چلائی اور ایک نیا نعرہ دیا: انڈیا آئوٹ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں