بھارت کے خدشات اورخطرات

نئی سرد جنگ کے عروج پر دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ اب دنوں کے حساب سے صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب نئی عالمی سرد جنگ کا رُخ تیزی سے اور واضح طور پر ایشیائی طاقت چین کی طرف مڑ رہا ہے۔ اس سلسلے میں دو علاقوں‘ مشرقِ وسطی اور جنوبی ایشیا میں ایسی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں کہ چین کی مشکلات روزبروز کم ہوتی جا رہی ہیں۔ ایشیا بطور بر اعظم متحرک ہو رہا ہے اور امریکہ کی بالادستی کم اور کمزور ہو رہی ہے۔ ایشیا کے یہ دونوں علاقے اس لیے بھی بہت اہم ہیں کہ جنوبی ایشیا دو ارب آبادی کا خطہ ہے۔ چین کی سرحد کے عین ساتھ لگتا ہے۔ یہیں سے چین کی اہم ترین شاہراہ سی پیک گزرتی ہے اور اسی علاقے کا ایک بڑا ملک چین کے راستے کی رکاوٹ بنا ہواہے۔ دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ مسلم بلاک ہونے کیساتھ ایک امیر اور خوشحال علاقہ بھی ہے لیکن بہت ساری علاقائی اور عالمی پیچیدگیوں کا شکار رہاہے۔ اب مگر یہ بہت تیزی سے کروٹیں بدلتے ہوئے ایک علاقائی طاقت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔
مہلک سے صرف احمق بنتا بھارت
بھارت کو ایک مفید و مہلک احمق کا نام بہت دفعہ دیا جا چکا ہے۔ مفید احمق کا ٹائٹل روسی خفیہ اہلکاروں کے بھارت کو دیے گئے خطاب سے اخذ کیا گیا تھا۔ ہم نے راج شاہی سوچ اور نرگسیت کے شکار اس ملک کو مہلک احمق کا نام اس کے علاقائی گینگسٹر اور منفی کردار کی وجہ سے دیا تھا۔ اس کے احمق پن کی انتہا اپنے تمام پڑوسی ممالک کیساتھ اختلافات اور تنازعات تو ہیں ہی لیکن ایک انتہا چین جیسی عالمی طاقت کیساتھ نہ صرف سرحدی تنازعات کو بڑھانا ہے بلکہ اس عالمی طاقت کے معاشی و ترقیاتی منصوبوں کو پس پشت ڈالنا بھی ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ بھارت ان منصوبوں کی بھرپور مخالفت کرتا ہے۔ بھارت کی اس مخالفت بلکہ پاگل پن کا اندازہ لگائیں کہ بھارت صرف سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی بھی کرواتا ہے۔
ان دنوں بھارت نہ صرف اسرائیل کی جنگی بربریت کی حمایت کر رہا ہے بلکہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنتے ہوئے اُسے شہ بھی دے رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس صورتحال پر جرمنی اور فرانس جیسی طاقتیں بھی صلح جوئی اور جنگ بندی کی باتیں کر رہی ہیں۔ اس ہفتے کی ایک خبر‘ جس نے بھارت کا عالمی تشخص بری طرح مسخ کر دیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ قطر کی ایک عدالت نے بھارت کی بحریہ کے آٹھ اہلکاروں‘ جس میں سے سات افسر رینک کے لوگ ہیں‘ کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت کی سزا سنا دی ہے۔ اس خبر سے بھارت کی عالمی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ قطر عرب دنیا کا ایک بہت ہی چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے جہاں پر آٹھ لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے ملک کی جانب سے بھارت جیسے بڑے ملک کے عام آدمی نہیں بلکہ اس کی بحریہ کے سابق اہلکاروں کو سزا دے کر ایک بہت بڑا جرأت مندانہ کام کیا گیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بھارتی نیوی کے افسروں کو سزا اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے پر دی گئی ہے‘ جس سے قطر کی جرات اور ہمت مزید واضح اور گہری ہو جاتی ہے۔ اس سزا سے مشرقِ وسطیٰ کے ایک ملک کی جانب سے اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونے کا پیغام بھی جاتا ہے۔ اس سے پہلے صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دیگر عرب ممالک بھی حالیہ جنگ میں اسرائیل سے نہ صرف فاصلہ بڑھا چکے ہیں بلکہ فلسطین کی حمایت میں بھی کھڑے ہیں۔
اس سے پہلے نہ صرف کینیڈا کی جانب سے بھارت کی ایجنسی اور ایجنٹوں کو مجرمانہ الزامات کا سامنا ہے بلکہ آسٹریلیا کی خفیہ ایجنسی کے چیف نے بھی کینیڈا میں ہونیوالی قتل کی واردات میں بھارت کو قصور وار قرار دے دیا ہے۔ یہاں ایک بہت گہرا احساس یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سرد جنگ میں بھارت کے معاملات پر اب امریکہ جیسی طاقت کے پاس حمایت اور مدد کے لیے وسائل بچے ہیں اور نہ ہی بھارت اس کی ترجیح ہے۔ امریکہ اس وقت یوکرین‘ اسرائیل‘ تائیوان اور مشرقِ وسطیٰ کے حالات و معاملات میں اُلجھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں اس کو جب بھی اپنی ذمہ داریاں اور بوجھ ہلکا کرنا ہوگا تو اس میں بھارت کا نمبر پہلا ہوگا۔ اس کے بعد اسرائیل ایک ایسی طاقت ہے جو ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھڑی رہی ہے یا پھر وہ اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ حماس اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی بھرپور حمایت کی وجہ سے بھارت کے مسائل میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اب اگر امریکہ یا اسرائیل چاہیں بھی تو بھارت کے حق میں قطر پر کسی بھی قسم کا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتے۔
بھارت باضابطہ اور مصدقہ مجرم قرار پانے والا ہے
پاکستان کے پاس کلبھوشن یادیو کی شکل میں ابھی تک بھارتی نیوی کا ایک افسر دہشت گردی کے مجرم کے طور پر موجود ہے۔ کیسا عجیب اور خطرناک اتفاق ہے کہ بھارتی نیوی ہی کے سات افسروں سمیت آٹھ اہلکاروں کو قطر میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ بھارتی نیوی کے اہلکاروں کو قطر میں سزائے موت سنائے جانے کا مقدمہ ایک مقامی نوعیت کا مسئلہ ہونے کی وجہ سے کسی عالمی ادارے میں بھی نہیں جا سکتا۔ اس صورتحال میں بھارت کی نیوی تو اخلاقی‘ سماجی اور عالمی نوعیت سمیت تمام جواز گنوا بیٹھی ہے۔ ایک اور پہلو ملاحظہ کریں تو بھارت کالا پانی کے جزائر کے قریب چین کیلئے سمندری راستوں میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے نیا بحری اڈہ بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن اب لگتا ہے کہ بھارتی نیوی روس کے ویگنر گروپ کی طرح کا ایک مسلح اور پیشہ وارانہ گروہ قرار پانے کے قریب ہے۔ یہاں پر 2017ء کے بھارت کے آرمی چیف کا وہ بیان بہت یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارت کی آرمی اڑھائی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس میں چین اور پاکستان کے دو محاذوں کے علاوہ اندرون ملک جاری علیحدگی پسند تحریکوں کو آدھا محاذ قرار دیا گیا تھا۔ اب پتہ نہیں اس نئے عالمی محاذ کا سامنا بھارتی آرمی‘ نیوی جس کا ایک بڑا حصہ ہے‘ کس طرح کرے گی۔ عسکری امور کا ایک بہت اہم اصول کم سے کم محاذ رکھنے کو ایک ناگزیر امر قرار دیتا ہے‘ لیکن بھارت بطور ملک بمع اپنی آرمی اور خفیہ اداروں کے ایک اشتہاری ملزم کی حیثیت تک سکڑتا نظر آ رہا ہے۔
بھارت کے دیگر رِستے ہوئے زخم
گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا کہ بھارت کی آرمی کو مالدیپ اور بھوٹان سے نکل جانے کا کہا جا چکا ہے۔ چین کے ساتھ لگنے والی سرحد پر چین اپنا اثرو رسوخ اور عمل دخل پہلے ہی بڑھا چکا ہے۔ بھارت کے شمال مشرق میں واقع ریاست منی پور میں رواں سال تین مئی کو شروع ہونے والی خانہ جنگی ابھی تک رکنے میں نہیں آ رہی۔ خالصتان کی تحریک کو عالمی سطح پر پذیرائی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ کر مل رہی ہے۔ وزیراعظم مودی صاحب بدستور اگلے الیکشن کی جیت کیلئے مصنوعی قسم کے انتظامات میں مصروف ہیں جس کیلئے ان کے پاس صرف اپنا میڈیا بچا ہے جس کو بھارت کے اپنے میڈیا ماہرین گودی میڈیا قرار دیتے ہیں۔ اب اس گودی کے لفظ سے مراد میڈیا کا مودی صاحب کی گود میں بیٹھا ہونا ہے۔ یہاں ایک اور چیز‘ جس کے نشے میں بھارتی میڈیا نہ صرف خود جھوم رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کو بھی اسی نشے پر لگایا ہوا ہے‘ وہ ورلڈ کپ میچز میں بھارتی ٹیم کی متواتر کامیابی ہے۔ جس سے بھارتی ٹیم کے سیمی فائنل ہی نہیں فائنل میں پہنچنے کے امکانات نہ صرف واضح ہیں بلکہ فائنل میں جیت کا بھی قوی امکان ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ورلڈ کپ ختم ہونے کے بعد بھارت کیا کرے گا۔ یہ بات مودی صاحب کے بھی سوچنے کی ہے۔
یہاں نریندر مودی کیلئے اپنی قوم کا دھیان بٹانے کے لیے ایک اور حربہ یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے بہت مشہور قسم کی فلمیں ریلیز ہوں لیکن ان فلموں کا بجٹ بڑا ہونا چاہیے‘ کاسٹ بہت مشہور اداکاروں کی ہو اور ایک سے زیادہ ہیروز ہوں اور سب سے بڑھ کر میوزک یعنی گانے بہت مشہور ہونا ایک اضافی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ہاں اگر فلم کسی متنازع موضوع پر بنا لی جائے‘ جیسے پاکستان مخالف تو افاقہ زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔ ارے! ایک بات تو یاد ہی نہیں آئی کہ اگر کوئی فلم کینیڈا میں اپنی ایجنٹوں کے ذریعے کیے جانے والے قتل پر بنا لی جائے یا پھر جو آٹھ نیوی کے اہلکار سزائے موت کے مجرم قرار پائے ہیں‘ ان کے دفاع میں بنا لی جائے تو ایک تیر سے کئی شکار کیے جا سکیں گے۔ یہ عوامی پریشر سے ڈیل کرنے کیلئے ایک اچھی کوشش ہو سکتی ہے۔ آخر میں ایک بات جو بھارت کی حکومتی پالیسیوں کے حوالے سے ذہن میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے ہاں ہونے والی کرکٹ لیگ کا ایک خصوصی ایڈیشن ورلڈکپ کے فوری بعد شروع کروا دیا جائے۔
ضروری نوٹ: اس طرح کے اقدام سے مقامی لوگوں کا دھیان تو بٹ سکتا ہے‘ عالمی طور پر ملنے والی سفارتی‘ عسکری اور سیاسی ذلتوں سے بچنے کے لیے بھارت کو اپنے کرتوت بدلنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں