دنیا کے مختلف خطے آج کل سنگین حالات کا شکار ہیں۔ ایک طرف مظلوم فلسطینی ہیں جو آسمان سے برسنے والے بارود کے بعد خوراک اور پانی کو بھی ترس رہے ہیں‘ دوسری جانب جنوبی ایشیا آج کل زہریلی دھند کی لپیٹ میں ہے۔ یہ دنیا کا واحد حصہ ہے جہاں کے لوگ دیگر جنگوں کیساتھ ساتھ قدرتی ماحول کی تباہی کی وجہ سے بھی ایک جنگی کیفیت کا شکار ہیں۔ منگل کو 'روزنامہ دنیا‘ کے پہلے صفحے پر خبر شائع ہوئی کہ لاہور شہر میں لوگ سموگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں‘ خاص طور پر آنکھوں کی جلن اور سانس لینے میں دقت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس طرح کی صورتحال جنوبی ایشیا کے تمام بڑے شہروں کو در پیش ہے۔ جنوبی ایشیا سے برطانیہ کے جانے کے بعد بھارت کی برہمن کلاس‘ جو اس کی حقیقی اشرافیہ ہے‘ کے رحم وکرم پر ہے۔ اس برہمن اشرافیہ نے بھارت کے قیام کے فوری بعد حکومت سنبھالی اور اسکے پہلے برہمن وزیراعظم سترہ سال تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ اسکے بعد تھوڑے سے وقفے کے انکی بیٹی اندرا گاندھی اقتدار میں آ گئیں بلکہ انکو اقتدار میں لایا گیا۔ یہاں اندرا گاندھی کا ذکر 31 اکتوبر کے حوالے سے بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ جو انکا یوم انتقال ہے۔ سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشن کرنے کی پاداش میں انکے اپنے ہی دو سکھ گارڈز نے فائرنگ کرکے انہیں قتل کر دیا تھا ۔
تاریخ کو جاننے یا اس کا علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ Oral History کہلاتا ہے ۔ اس میں کسی خاص واقعے کے حوالے سے کسی شخصیت کا انٹرویو کیا جاتا ہے یا پھر کسی بڑی شخصیت کے قریب رہنے والے افراد کا انٹرویو کر کے تاریخ مرتب کی جاتی ہے۔ اسی طرح فلموں کے ذریعے تاریخ کا مطالعہ ایک انتہائی آسان اور مفید طریقہ ثابت ہوا ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں فلم دیکھنے کا مزہ اپنی جگہ برقرار رہتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو سیکھنے اور جاننے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ آج چونکہ جنوبی ایشیا کی پسماندگی‘ جنگی صورتحال اور دیگر مشکلات کا ذکر کررہے ہیں‘ لہٰذا اس ضمن میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا جائزہ لیں جس میں دنیا کی سب سے زیادہ فلمیں بنتی ہیں‘ تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض اوقات وہ اپنی تاریخ کے چھپے ہوئے یا چھپائے گئے رازوں کے متعلق بھی فلمیں بناتے ہیں‘ اگرچہ ان کی تعدا بہت کم ہوتی ہے۔ دیگر علاقائی ممالک یعنی پاکستان اور بنگلہ دیش کو بھی ایسی فلمیں بنانی چاہئیں۔ جنوبی ایشیا کو بظاہر تو آزادی مل چکی ہے مگر تا حال یہ خطہ عالمی طاقتوں کے زیر نگیں ہے۔ اس خطے میں برطانیہ کی طاقت کمزور پڑنے کے بعدامریکہ نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں سوویت اثر و رسوخ بھی بہت زیادہ تھا۔ دونوں عالمی طاقتیں نوآبادتی دور کی پالیسیوں کے تحت ہی اس خطے میں اپنا عمل دخل جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اس خطے میں حکومتوں کو بنانے اور گرانے کا کام آج بھی بیرونی طاقتیں ہی کرتی ہیں۔ حکومتوں کے علاوہ اہم شخصیات کو راستے سے ہٹانے کا کام بھی اسی طرح جاری ہے۔
بھارت کی اِندو سرکار
''اِندو سرکار‘‘ ایک ایسی بھارتی فلم ہے جو بھارت کی خاندانی و آمرانہ جمہوریت کا ایک ایسا منظر نامہ پیش کرتی ہے کہ اسے دیکھنے کے بعد آپ کے سامنے نہرو خاندان کی بھارتی حکومت پر آمرانہ گرفت کی تصویر سفید اور سیاہ رنگوں کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ اس فلم میں بھارت میں اندراگاندھی کے ہاتھوں مارشل لا کی طرز پر لگنے والی ایمرجنسی کا تفصیل کیساتھ تجزیہ کیا گیا ہے۔ اندرا گاندھی نے جون 1975ء میں الہ آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اپنے خلاف ایک فیصلہ آنے پر پورے بھارت میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا تھا۔ ہائیکورٹ نے اندرا گاندھی کو نہ صرف ان کی الیکشن میں جیتی ہوئی نشست سے نااہل قرار دیا بلکہ اپنی جیت کیلئے سرکاری مشینری اور دیگر غیر قانونی ذرائع کے استعمال پر مجرم قرار دیتے ہوئے آئندہ پانچ سال کیلئے انتخابات سے نا اہل بھی قرار دیا تھا ۔ اس فیصلے پر اندرا گاندھی نے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کے بجائے پورے ملک میں ایمرجنسی لگادی اور اپنی پارٹی کے لوگوں سمیت سارے ملک بلکہ پوری دنیا کو حیران و پریشان کر دیا۔ ریڈیو پر اپنے خطاب کیلئے انہوں نے چند الفاظ چنے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''ملک میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے لیکن تشویش کی کوئی بات نہیں ہے‘‘۔ اس فیصلے میں مشورے سے لے کر فیصلہ سازی تک اہم کردار اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی نے ادا کیا جو اس ایمرجنسی کے بعد ایک طاقتور شخص کے طور پر سامنے آئے۔
جیسے ذکر ہوا کہ جون 1984ء میں سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشن کرنے کی پاداش میں چار ماہ بعد اکتوبر کی آخری تاریخ کو اندرا گاندھی کو ان کے اپنے ہی گارڈز نے قتل کر دیا تھا ۔ یہ لال بہادر شاستری کے 1966ء میں تاشقند میں ہوئے مبینہ قتل کے بعد‘ بھارت کی تاریخ کا دوسرا بڑا مگر پہلا کھلا قتل تھا۔ واضح رہے کہ لال بہادر شاستری بھارت کے دوسرے وزیر اعظم تھے جو نہرو کے انتقال کے بعد 1964ء میں وزیراعظم بنے تھے اور جنوری 1966ء کو وہ 1965ء کی جنگ کے حوالے سے تاشقند معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے روس میں موجود تھے۔ دستخطی تقریب کے اگلے دن‘ 11 جنوری کو وہ اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ انکی پُراسرار موت کے بعد انکی لاش کا پوسٹ مارٹم تک نہیں ہونے دیا گیا تھا۔ اب بھارت میں ''غیر سرکاری‘‘ طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ انکی موت طبعی کے بجائے ایک قتل تھی۔ اس کی تفصیلات جاننے کیلئے آپ ''تاشقند فائلز‘‘ کے نام سے بننے والی فلم دیکھ سکتے ہیں۔ اس فلم کا خلاصہ یہ ہے کہ شاستری کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زہر دے کر راستے سے ہٹایا گیا تھا۔ شاستری کے خاندان کے افراد سمیت کئی وزرا بھی شاستری کی موت کو طبعی کے بجائے قتل قرار دیتے ہیں۔ اس مبینہ قتل کا ذکر اسلئے یہاں آگیا کیونکہ اسکے بعد ہی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بنی تھیں۔ یعنی جواہر لال نہرو کی موت کی وجہ سے نہرو خاندان کا اقتدار ختم ہوا تو دو سال سے بھی کم عرصے کے وقفے کے بعد‘ شاستری کی موت کے بعد اقتدار دوبارہ شروع ہو گیا۔ 1966ء سے 1977 ء تک اندرا گاندھی وزیراعظم رہیں‘ اسکے بعد 1980ء تک تین سال وہ اقتدار سے دور رہیں لیکن 1980ء میں دوبارہ اقتدار میں آ گئیں اور یہ دورِ اقتدار انکی موت پر یعنی 1984ء میں ختم ہوا۔ واضح رہے کہ نہرو 17سال جبکہ اندرا گاندھی 15سال بھارت کی وزیر اعظم رہیں۔ اندرا گاندھی کی موت کا اعلان ہوتے ہی انکے بیٹے راجیو گاندھی وزیر اعظم بنے اور 5سال حکومت کرنے کے بعد 1989ء میں وہ بھی ایک خود کش بم دھماکے میں ہلاک ہو گئے ۔ بھارت کی آزادی کے ابتدائی 42سال میں 37 سال تک صرف نہرو خاندان ہی برسرِ اقتدار رہا ۔
اب بات گولڈن ٹیمپل پر بھارتی فوج کے آپریشن کی‘ اس آپریشن میں عبادتگاہ کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا اور سکھوں کے لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ہلاک کر دیے گئے تھے۔ اس کے چار ماہ بعد اندرا گاندھی کا قتل ہوا تو بھارت کے دارالحکومت دہلی میں یکم نومبر سے سکھوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا جو کئی دن تک بلا روک ٹوک جاری رہا۔ اس وقت بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ تھے لیکن نہ تو گیانی ذیل سنگھ کو گولڈن ٹیمپل پر ہوئے آپریشن بلیو سٹار کی خبر ہونے دی گئی اور نہ ہی سکھوں کے قتلِ عام کی پلاننگ کی ہوا لگنے دی بلکہ جب انہوں نے اس کو روکنے کیلئے آرمی بلانے کا حکم دیا تو جواب ملا کہ کہ فوج کب اور کہاں بلانی ہے‘ اس کا فیصلہ وزیراعظم راجیو گاندھی کریں گے۔ اگر فلموں کی بات کی جائے تو سکھوں نے متعدد فلموں اور ڈاکیومنٹریز کے ذریعے اپنے اوپر ہونے والے ان مظالم کو انتہائی مؤثر طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ اندرا گاندھی کو قتل کرنے والے دو سکھ نوجوانوں پر ایک فلم ''مٹی دے ہیرے‘‘ بنا کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ مقدس عبادتگاہ پر ہونے والے ظلم کے بعد سکھوں کے جذبات کتنے مجروح ہوئے تھے اور اسی دبائو اور گھٹن کی وجہ سے دو نوجوانوں نے اندرا گاندھی کو قتل کیا۔ اسی طرح ایک حالیہ فلم ''جوگی‘‘ میں 1984ء کے دہلی فسادات اور اس میں حکومتی کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
ضروری نوٹ: اس تحریر میں خیالات قدر ے الجھے ہوئے محسوس ہوں گے‘ یہ اس لیے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دیگر ممالک کو بھی جنگی طرز پر اسی طرح الجھایا ہوا ہے۔