آج ہم بات کرنے والے ہیں زہریلی دھند یعنی سموگ کی‘ جو گرمیوں کے اختتام یا خزاں کے شروع ہوتے ہی جنوبی ایشیا کے بیشتر خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ آج کل پنجاب کا صوبائی دارالحکومت یعنی لاہور اس کی لپیٹ میں ہے‘ نہ صرف لپیٹ میں ہے بلکہ گزشتہ کئی دنوں سے دنیا کا آلودہ ترین شہر چلا آ رہا ہے۔ گزشتہ روز سے لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس یعنی فضا میں آلودہ زرات کی مقدار 447 پارٹیکیولیٹ میٹر تھی جوکہ انسانی صحت کے لیے جان لیوا حد تک مضرِ صحت ہے۔ پہلے یہ جان لیوا دھند اکتوبر کے اختتام پر شروع ہوتی تھی اور نومبر کے مہینے میں اس وقت تک جاری رہتی تھی جب تک بارش نہ ہو جائے۔ اس کے ختم ہونے کا دوسرا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مکمل سردی آجائے لیکن اب ماحولیاتی آلودگی کی شدت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ گزشتہ سال یہ سموگ سردیوں کے پورے موسم میں اور بارشوں کے باوجود بھی جاری رہی تھی۔ اس طرح اس زہریلی دھند نے سردیوں کے پورے موسم ہی کو آلودہ اور مضرِ صحت بنا دیا تھا۔ اسی کی وجہ سے صاف دھند کا رومانوی موسم اب افسانوی سا ہو کر رہ گیا ہے۔
زہریلی آلودگی کے اسباب
اس زہریلی آلودگی کا شکار زیادہ تر بنگلہ دیش‘ بھارت‘ پاکستان اور چین ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جن ممالک سے ان ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں وہاں بھی اس کا کچھ حصہ پہنچ جاتا ہے۔ اگر اس آلودگی کی وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری ٹریفک اورگاڑیوں کا پیدا کردہ دھواں ہے۔ اس کے بعد اینٹوں کے بھٹے ہیں جو انتہائی گھٹیا قسم کا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان میں کچھ بھٹوں کو جدید زِگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا گیا ہے مگر اب بھی بہت سارے اینٹوں کے بھٹے پرانی طرز ہی پر چل رہے ہیں اور آلوددہ ترین دھواں پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ فیکٹریاں آ جاتی ہیں جو آگ پیدا کرنے کے لیے پرانے ٹائروں اور اس طرح کی دیگرچیزوں کا استعمال کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ مہنگی ترین بجلی اور گیس کی وجہ سے انرجی کے یہ گھٹیا طریقے زیادہ استعمال ہونے کا اندیشہ ہے۔ مزید آگے بڑھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بلڈنگوں کے تعمیراتی کاموں کی وجہ سے مٹی اور ریت اڑ اڑ کر مسلسل ہمارے ماحول کا حصہ بنتی رہتی ہے اور اس زہریلی دھند کے فروغ میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتی ہے۔
اب آ جائیں ٹریفک کی وجہ سے پیدا ہونے والے دھویں کی طرف‘ اس ضمن میں اگر ٹریفک پولیس کو ایک اشارہ کر دیا جائے تو کافی ہوگا۔ یہاں ایک لاہور ہائی کورٹ کا جولائی میں جاری ہونے والا وہ فیصلہ یاد آ رہا ہے جس میں ون وے کی خلاف ورزی کرنے پر پانچ ہزار روپے جرمانہ کرنے کا حکم صادر ہوا تھا۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی اسی طرز پر سخت جرمانہ کیا جائے۔ ان گاڑیوں کا ریکارڈ کمپیوٹر میں جمع کیا جائے اور دوسر ی دفعہ جرمانے میں دو گنا تک اضافہ کیا جائے اور تیسری دفعہ گاڑی ہی بند کر دی جائے۔ کچھ لوگ یہ منطق دیتے ہیں کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں زیادہ تر پرانی ہوتی ہیں اور ان کو چلانے والے غریب لوگ ہوتے ہیں۔ یہ منطق ایک دفعہ ایک وزیر صاحب نے بھی پیش کی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر آپ کا پیدا کردہ دھواں لوگوں کی جان لے رہا ہو تو کیا ایسی ٹرانسپورٹ یا ایسے کسی فعل کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ سب سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ کیا اس ضمن میں حکومت کوئی سبسڈی نہیں دے سکتی؟یہاں آپ کو بتاتا چلوں کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں آصف علی زرداری وزیر ماحولیات تھے۔ ان دنوں پہلی دفعہ ماحولیات کے حوالے سے بہت شور مچا تھا اور یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جا رہا تھا۔ پاکستان میں اس وزارت کو بہت ''کماؤ‘‘ وزارت سمجھا جاتا تھا جو بعد میں صحیح بھی ثابت ہوا کیونکہ درخت لگانے کے لیے جو شجر کاری مہم شروع کی جاتی تھی‘ اس کا کسی بھی سطح پر کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہوتا تھا کہ اس مہم میں کتنے درخت لگے اور جو لگے وہ بھی محفوظ ہیں یا اکھاڑ دیے گئے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ آج شہید بی بی کے اُس دور کو گزرے اڑھائی دہائیاں ہونے کو ہیں اور ہمارے ہاں ماحولیات کا جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
آپ کسی بھی عالمی ویب سائٹ پر جا کر پاکستان کے مختلف شہروں کے موسموں کا حال دیکھیں تو آپ کو شہر کے موسم کے علاوہ شہر کی ہوا کے معیا ر کا بھی بتایا جائے گا۔ پاکستان کے تقریباًتما م بڑے شہروں کی ہوا کا معیارUnhealthy یعنی غیر صحت بخش بتایا جاتا ہے۔ کبھی کبھا راس انڈیکس میں تبدیلی آتی ہے اور یہ Poorیا پھر Satisfactory قرار دیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو ماحولیات کے ماہرین اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کے شہروں میں سانس لینا چوبیس گھنٹوں میں بیس سگریٹ پینے کے مترادف ہے۔ اس خطے کے لوگوں کے ساتھ ہونے والے دھوکوں میں سموگ اور یہ زہریلا ماحول ایک سب سے بڑا دھوکا ہے جو ہم خود بھی اپنے آپ کو دے رہے ہیں۔ جب ہم اس دھوکے کے اثر سے باہر نکلیں گے تبھی یہ سوچنے کے قابل ہوں گے کہ اس زہریلے ماحول کے دھوکے سے ہم کب اور کیسے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔موت بانٹنے والی قاتل سموگ کے دھویں کے بڑھتے دورانیے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کو سائوتھ کے بجائے Sad & Sorrow Asia کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خطہ اب اپنی بقا کی جنگ لڑے گا‘ وہ بھی اس صورت میں اگر یہ لڑنے کے قابل رہا تو۔
زیر زمین پانی
ہم اس سے پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ لاہور میں زیر زمین صاف پانی 700 فٹ تک کھدائی کرنے پر بھی میسر نہیں کیونکہ حالیہ کچھ برسوں میں ماحولیات کو پہنچنے والے بے تحاشا نقصان کی وجہ سے زیر زمین پانی بھی آلودہ ہوا ہے۔ کبھی یہ پانی سو فٹ کی گہرائی پر ہی میسر ہوتا تھا۔ قارئین! کبھی زندگی گزارنے کے لیے روٹی‘ کپڑا اور مکان ضروری تھے اسی لیے شاید پیپلز پارٹی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا لیکن آج پینے کا صاف پانی‘ سانس لینے کے لیے صاف ہوا اور جان بچانے والی ادویات زندگی گزارنے کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہو چکی ہیں لیکن کوئی اس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں۔ انسان کی سب سے بنیادی ضرورت ہونے کی وجہ سے پانی کو مستقبل کا تیل بھی کہا جا رہا ہے۔ وطنِ عزیز مگر دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اب بھی ڈیم بنانے کی مخالفت کی جاتی ہے حالانکہ یہ ڈیم پانی ذخیرہ کرنے اور سیلابوں کے خطرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی بھی پیدا کرتے ہیں۔ جمہوری حکومتوں میں تو ویسے بھی بڑے ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے ہونا نا ممکن ہے لیکن دورِ آمریت میں یہ کام طاقت کے بل پر بھی کروایا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے کسی بھی دور میں ایسا نہ ہو سکا۔ کالا باغ ڈیم اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔
اب آئیے موجودہ صورتحال کی طرف؛ پاکستان اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں مسلسل پانی کی کمی ہو رہی ہے۔ اس کمی کا شکار سب سے زیادہ کراچی شہر ہوا ہے جہاں پینے کا صاف پانی ناپید ہو چکا ہے۔ پورا شہر سیمنٹ اور لوہے سے بنے پلازوں کا وہ جنگل بن گیا ہے جس کی پانی کی دستیابی کے حوالے سے حالت اک صحرا سے بھی بری ہے۔ کتنا تعجب خیز امر ہے کہ کراچی میں ایک طرف تو پینے کا پانی ناپید ہے لیکن دوسری طرف جب کبھی وہاں بارش ہو جائے تو اس کے پانی کو سنبھالنے کو کوئی بندوبست موجود نہیں ہے۔ اس پانی کی نکاسی بھی ناممکن ہو جاتی ہے۔ جس پانی کو کنٹرول کرکے آبِ زر بنایا جا سکتا ہے اس میں کہیں انسان ڈوب رہے ہوتے ہیں اور کہیں یہ بیماریاں پھیلاتا ہے۔ پختہ سڑکیں زمین کو ری چارج بھی نہیں ہونے دیتیں۔ مجوزہ وجوہات میں وطن عزیز کی آبادی میں سالانہ لاکھوں افراد کا اضافہ ہے۔ دوسری طرف ٹمبر مافیا کی وجہ سے ملک میں جنگلات میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت بمشکل ساڑھے تین کروڑ آبادی کا ملک تھا اور اُس وقت دنیا میں 14ویں نمبر پر تھا اور اب 24کروڑ کی حد عبور کر چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پوری دنیا آبادی میں اضافہ کو صفر کی شرح پر لانے کی کوشش کر رہی ہے اور تمام ترقی یافتہ ممالک یہ ہدف حاصل کر چکے ہیں‘ اس سلسلے میں سب سے بڑی کامیابی چین نے حاصل کی جس نے 1979ء سے لے کر 2016ء تک ایک جوڑا ایک بچہ کی پالیسی کے تحت 40کروڑ کی آبادی کو قابو کیا۔ یعنی اگر وہ ایک بچہ کی پالیسی بلکہ قانون لاگو نہ کرتے تو ان کی آبادی میں مزید چالیس کروڑ کا اضافہ ہو چکا ہوتا۔ مگر یہ سب ان کی Aگریڈ قیادت کی عملی ذہانت سے ممکن ہوا۔ بات ہو رہی تھی وطن عزیز میں قدرتی ماحول اور پانی کی تو قارئین کرام! ذرا غور کریں شہر میں کسی دکان سے آپ 100 روپے کی پانی کی بوتل‘ جس کے معیار کی کوئی ضمانت نہیں‘ خریدتے ہیں جبکہ گاؤں میں آپ کو یہ پانی مفت بھی میسر آ سکتا ہے۔ گویا شہروں کی زندگی کتنی ظالم‘ مہنگی اور آلودہ ہو چکی ہے۔