سونیا گاندھی کی دوسری ہجرت

سب سے پہلے وضاحت اس خبر کی جس کے متعلق گزشتہ کالم میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی کانگریس کی سینئر ترین رہنما سونیا گاندھی کو بھارت کے دارالحکومت کی پڑوسی ریاست راجستھان کے شہر جے پور منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس عارضی ہجرت کی بنیادی وجہ ان کے ڈاکٹروں کی ہدایت ہے اور انہوں نے شہر کی آلودگی کی وجہ سے یہ ہجرت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ خبر تو کہیں سننے یا پڑھنے کو نہیں ملی تو گزارش یہ ہے کہ یہ خبر ہندوستان ٹائمز نے 14 نومبر اور انڈیا ٹوڈے نے 15 نومبر کو شائع کی تھی‘ ان کی ویب سائٹس پر یہ خبر اب بھی موجود ہے۔ نیز انڈیا کے این ڈی ٹی وی نے بھی یہ خبر 14نومبر کو نشر کی تھی کہ سانس لینے میں دقت کی وجہ سے سونیا گاندھی عارضی طور پر جے پور شفٹ ہو گئی ہیں اور اب ان کی پارٹی کا بیس کیمپ بھی وہیں ہو گا۔ نیز یو ٹیوب پر بھارت میں مصنوعی بارش اور آلودگی کے حوالے سے خبریں دیکھیں تو ان میں اس بات کا ذکر بھی مل جائے گا۔ رہی بات کہ یہ خبر یکسر نظر انداز ہو گئی یا اس کا زیادہ چرچا نہیں ہوا تو اس کا جواب شاید یہی ہے کہ چونکہ سونیا گاندھی کو یہ ہجرت آلودگی اور سموگ کی وجہ سے کرنا پڑی اور اس میں بھارت کے لیے ایک شرمندگی کا عنصر ہے‘ لہٰذا ممکن ہے کہ اس وجہ سے اس خبر کو دبا دیا گیا ہو۔ ایسا ہونے کا امکان اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دہلی ہی میں دیگر ممالک کے سفارتخانے واقع ہیں، لہٰذا اُن کی جانب سے بھی کسی دبائو کا سامنا ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ بیشتر بھارتی میڈیا نے اس خبر میں سموگ کے بجائے فوکس سانس کی بیماری پر رکھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سانس لینا تو ترک نہیں کیا جا سکتا‘ پھر دہلی سے جے پور کیوں؟ وجہ وہی ہے کہ جے پور کی فضا اور ہوا‘ دہلی کے مقابلے میں کئی گنا صاف ہیں۔ واضح رہے کہ سونیا گاندھی اطالوی نژاد ہیں جو اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی سے شادی کرنے کے بعد بھارت منتقل ہوئی تھیں۔ یہ ان کی پہلی بڑی ہجرت تھی‘ اب دہلی سے جے پور ان کی دوسری بڑی ہجرت ہے، جو بنیادی طور پر عارضی ہے۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ دہلی ان شہروں میں سے ایک ہے جہاں آلودگی سارا سال رہتی ہے اور اکتوبر سے فروری تک یہ سموگ کے سبب بہت زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے اور فضا پر مسلسل چھائی دھندلی کیفیت کی وجہ سے اس کا احساس بھی بڑھ جاتا ہے۔
پنجاب حکومت ایک اور قدم آگے
ہمارے یہاں سموگ کے تدارک کے حوالے سے کئی جہتوں میں کام ہو رہا ہے۔ اب بات مثبت سمت میں کچھ اس طرح آگے بڑھی ہے کہ حکومت پنجاب کی جانب سے ایک اشتہار پڑھنے کو ملا جس میں وارننگ دی گئی ہے کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو پہلی دفعہ دو ہزار جرمانہ کیا جائے گا جبکہ اس کے بعد ہر دفعہ چار ہزا ر جرمانہ کیا جائے گا۔ بلا شبہ یہ ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔ ٹریفک‘ بالخصوص دھواں دینے والی گاڑیا ں شہروں کی آلودگی میں 30سے 35 فیصد حصہ ڈالتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ جرمانہ کرنے کی پالیسی پر کس حد تک عمل ہو گا، کتنی تیزی سے ہوگا اور اس کا دائرۂ کار کیا ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دھواں دینے والی گاڑیا ں زیادہ تر ڈیزل پر چلنے والی ٹرانسپورٹ ہے اور ان میں زیادہ تر ٹرک اور بسیں شامل ہیں۔ اس حوالے سے ایک تجویز یہ ہے کہ لاہور شہر کے داخلی و خارجی راستوں پر سختی کرنے کے ساتھ لاری اڈہ اور ٹرکوں کے اڈوں پر کریک ڈائون کرنے کی ضرورت ہے۔ نیز یہ کہ جرمانہ کرنے کے بجائے ان گاڑیوں کو بند کرکے کسی قریبی ورکشاپ بجھوایا جائے جو ایک سے دو دن میں ان کی ٹیوننگ کرکے انہیں واپس بھیجیں۔ یو ں گاڑیوں کے ذریعے پھیلنے والی آلودگی کا مکمل خاتمہ ہو سکے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی بس مالک ایک چکر لگانے کے بعد اس غفلت کا شکار ہو جائے کہ اس کا ایک چالان ہو گیا‘ اب دوبارہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد وہی روایتی مسئلہ کہ کہیں چالان کرنے والا معاملہ موقع پر ہی ختم نہ کر دے، یوں نہ تو چالان ہو اور نہ ہی آلودگی کا خاتمہ۔ چونکہ حکومت اس حوالے سے کافی فعال نظر آ رہی ہے اور اس کا اندازہ مصنوعی بارش میں دلچسپی سے لگایا جا سکتا ہے‘ لہٰذا امید ہے کہ دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف بھی کریک ڈائون ضرور ہو گا اور سختی سے ہو گا۔
لگے ہاتھوں ایک کام اور بھی ہو سکتا ہے کہ وہ یہ کہ اینٹیں بنانے والے بھٹے‘ جو ابھی تک پرانے طریقے سے اینٹیں بنا رہے ہیں‘ یعنی زِگ زیگ ٹیکنالوجی کے بغیر‘ تو ان پر بھی سختی کی جائے۔ ان خشت بھٹوں میں چونکہ غیر معیاری ایندھن استعمال ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ بہت گندا دھواں اورکثیر تعداد میں کاربن ذرات ہوا میں چھوڑتے ہیں جو ماحول پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں جلایا جانے والا کوئلہ بھی اپنے اندر نمی کی بڑی مقدار رکھتا ہے اور جب اس کو جلایا جاتا ہے تو بہت گاڑھا اور زہریلا دھواں پیدا ہوتا ہے جس سے فضا کی آلودگی میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ بھٹے بہت کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی کثرت کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سالانہ آٹھ سے دس لاکھ گھر نئے بنتے ہیں جس کی وجہ سے تعمیرات کی صنعت بہت بڑی صنعت بن چکی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اتنے گھر کیوں بنائے جاتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ پاکستان میں سالانہ اوسطاً ساٹھ لاکھ آبادی کا اضافہ ہوتا ہے‘ اس صورت میں اتنے گھر تو کم از کم بنانے ہی پڑتے ہیں۔
اب ذکر کرتے ہیں پڑوسی ملک بھارت کا‘ جو ایک طرف دنیا کا سب سے آلودہ ملک ہے‘ دوسری جانب وہاں سالانہ آبادی میں اضافہ ایک کروڑ ستر لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں سالانہ کتنے نئے گھر بنتے ہوں گے۔ ہاں‘ یہ ضرور ہے کہ بھارت کا رقبہ پاکستان سے سے تقریباً پانچ گنا زیادہ ہے۔ لیکن وہاں آبادی میں سالانہ اضافے میں وہ شہر ہی سب سے آگے ہیں جہاں آبادی پہلے ہی بہت زیادہ ہے، جیسے نیو دہلی‘ اس کی کل آبادی تقریباً تین کروڑ بیس لاکھ ہے اور یہ بھارت کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر ہے جبکہ آلودگی کے لحاظ سے یہ پہلے نمبر پر ہے۔
مزید کیا ہو سکتا ہے؟
اگر حکومت دھواں دینے گاڑیوں پر کریک ڈائون کی طرز پر لاک ڈائون بھی کرے تو اس کے فوائد فوراً ملنا شروع ہو جائیں گے۔ حکومتی اشتہار میں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کا معائنہ کرکے انہیں سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی بات بھی درج ہے۔ یہاں عوام کو یہ سوچ کر اس پر خود سے عمل کرنا چاہیے کہ گاڑی کے انجن کے صفائی کرانے سے ایک طرف ان کی گاڑی کی کارکردگی بہتر ہو گی‘ نیز اس سے ماحول صاف ہو گا جس سے ہم سب مستفید ہوں گے۔ اگر حکومت آلودگی میں کمی کے حوالے سے کوشاں ہے تو ضروری ہے کہ تعمیرات میں استعمال ہونے والا میٹریل‘ بالخصوص ریت اور مٹی کی ٹرالیاں شہروں میں جب آتی ہیں تو ان کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ریت اور مٹی کی ٹرالیوں کے کناروں سے ریت‘ مٹی مسلسل گرتی رہتی ہے۔ یہ مٹی اور ریت دھول کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ٹریفک کی روانی سے اڑ کر فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شہر کے نواحی علاقوں‘ جہاں سے مٹی لائی جاتی ہے‘ ان راستوں کو پکا کیا جائے یا روزانہ کی بنیاد پر ان پر پانی کا چھڑکائو کیا جائے۔
شہر کے اندر سڑکوں کی صفائی کے نظام کو جنگی طرز پر مؤثر کیا جائے۔ یہ کام پہلے ایک حکومتی محکمہ کیا کرتا تھا‘ اب پتا نہیں کیا صورتحال ہے۔ صفائی کے محکمے کو مزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ آخر میں وہ اقدام‘ جو کچھ وقت تو لے گا لیکن اس کا اثر بہت زیادہ اور دیر پا ہے۔ آپ یقینا سمجھ گئے ہوں گے کہ درخت لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ لاہور میں صرف نہر کنارے لگے درختوں کو دیکھیں تو بیشتر درخت مردہ ہو چکے ہیں‘ اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کی شمولیت سے شجر کاری کو ایک کلچر کی شکل دی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں