ماحولیاتی معاملات‘ توقعات و خدشات

یہ بات پڑھتے‘ سنتے اور پھر پڑھاتے‘ لکھتے اور بولتے تین دہائیاں ہو چلی ہیں کہ دنیا کی تباہی کے دو ممکن طریقے ہیں۔ پہلا طریقہ ایٹمی جنگ ہے جبکہ دوسرا طریقہ قدرتی ماحول کی تباہی ہے۔ اب ایٹمی جنگ کا خدشہ تو شاید اس طرح لاحق نہیں لیکن ماحولیاتی امور بدستور ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں۔ اب تک نہ تو تیزی سے بڑھتی آبادی پر قابو پایا جا سکا ہے اور نہ ہی خام تیل کا استعمال اور کاربن کا اخراج روکا جا سکا ہے۔ کوئلے سے بجلی بنانے کا عمل ختم تو درکنار‘ کم بھی نہیں ہو سکا۔ 1992ء میں برازیل میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ''درخت زمین کے لیے پھیپھڑوں کا درجہ رکھتے ہیں‘‘۔ بنیادی طور پر یہ خطاب برازیل کے جنگلات کو دیا گیا تھا۔ اگر ماحولیاتی آلودگی کا جائزہ لیا جائے تو اب ہوا ایک زہریلی چیز کا درجہ حاصل کر چکی ہے، پانی کا معیار انتہائی خراب ہو چکا ہے، حتیٰ کہ سورج کی جس روشنی میں ہم چلتے پھرتے ہیں‘ وہ بھی اپنا خالص پن کھو چکی ہے۔ زمین پر موجود جنگلات تیزی سے کم ہو رہے ہیں، زیرِ زمین پانی کمیاب ہو رہا ہے اور کھلے علاقے‘ جہاں صحت افزا فضا ہو‘ اب معدوم ہو رہے ہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ صرف لاہور شہر کی مثال لے لیں۔ اس شہر کو کبھی باغات کا شہر کہا جاتا تھا لیکن آج یہ دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے۔ جب لاہور شہر کی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو واضح طور پر احساس ہوتا ہے کہ نیم سیاہ رنگ کے غبار نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
درخت دیوتا ہیں
قدیم اہلِ یونان کا عقیدہ تھا کہ بہت سارے دیوتا اور دیویاں ہیں جو اس دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ ان میں ایک دیوتا کا نام ''Aeolian‘‘ تھا جو ہوائوں کا دیوتا کہلاتاتھا۔ ایک دیوتا آتش یعنی آگ کا تھا جس کا نام ''Volca‘‘ تھا، آتش فشاں پہاڑوں کو ''والکینو‘‘ کا نام اسی مناسبت سے دیا گیا۔ اُس دور میں ہوا اور آگ کا ہی انسانی زندگی میں عمل دخل زیادہ تھا لہٰذا ان کے لیے مختلف دیوتائوں کا وجود تراشا گیا مگر قدیم یونانیوں نے درختوں کے لیے کوئی دیوتا مخصوص نہیں کیا، اس لیے کہ شاید اس وقت درخت انتہائی زیادہ تھے اور ایک معمولی چیز سمجھے جاتے تھے۔ یونانی تاریخ کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر قدیم اہلِ یونان کو آج کی طرح ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کا سامنا ہوتا تو یقینا سب سے طاقتور دیوتا درخت ہی ہوتے۔ درختوں کے حوالے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کچھ یہ بھی گلہ ہے مجھے لوگوں سے کہ
درخت کی چھائوں کو پھل نہیں کہتے
اس شعر کے معنی پر غور کریں‘ یہ ایک انتہائی اہم پیغام دے رہا ہے۔ عمومی طور پر لوگ درخت کی چھائوں کو سایہ کہتے ہیں جبکہ انگلش زبان میں اس کے لیے Shadow کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ سایہ تو دیوار کا بھی ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ سایہ ٹھنڈا بھی ہو‘ البتہ جب بھی چھائوں کی اصطلاح استعمال کی جائے‘ اس میں یہ مفہوم پنہاں ہو گا کہ یہ ٹھنڈے سائے کا ذکر ہے۔ البتہ مذکورہ شعر میں شاعر ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ایک معنی خیز بات کرتا ہے۔ شاعر کا مطالبہ ہے کہ درخت کے سائے کو ایک پھل کا درجہ دینا چاہیے۔ یقینا یہ درخت ہی ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں زندگی کا وجود ممکن ہے۔ درخت ہی وہ آکسیجن پیدا کرتے ہیں جس میں تمام جاندار سانس لیتے ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ درخت ماحول کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھے جانے والی گیس یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھا جاتے ہیں۔ یہاں یہ مطلب واضح ہو گیا کہ درخت ہی دنیا کا سب سے نایاب پھل ہے کیونکہ انسانوں کے لیے زہر کا درجہ رکھنے والی گیس کو یہ کھا جاتے ہیں اور ایسی گیس پیدا کرتے ہیں جس میں انسان سانس لیتے ہیں۔ محترم انور مسعود نے کہا تھا:
درختوں سے کوئی سیکھے سبق حسنِ مروت کا
فضا کا زہر پی لینا مگر تریاق لوٹانا
انسان عمومی طور پر دن میں تین دفعہ کھانا کھاتا ہے، چھ‘ سات گلاس پانی پیتا ہے لیکن اگر ان کی کم مقدار میسر ہو تو بھی انسان زندہ رہ سکتا ہے مگر سانس تو اسے ہر دم لینا ہے، حتیٰ کے سوتے وقت بھی سانس تو لینا ہی پڑتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ زندگی سانسوں کا کھیل ہے۔ اوراگر سانس لینے کے لیے صاف ہوا ہی میسر نہ ہو تو دم گھٹنا شروع ہو جاتا ہے اور سانس اکھڑنے لگتا ہے۔ عالمی ادارے صاف ہوا کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اب لاہور جیسے شہر میں بسیرا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اوسط زندگی میں پانچ سے سات سال کمی ہو جائے۔ یاد رہے کہ بھارتی میڈیا کے مطابق: دہلی جیسے شہر میں زندگی گزارنے کا مطلب اوسط زندگی میں بارہ سال کمی کرنا ہے۔ باقی حساب آپ خود لگا لیں کہ جتنی زیادہ آلودہ فضا‘ اوسط عمر میں اتنی زیادہ کمی۔
موت کو زندگی کیسے کہا جا سکتا ہے؟
دنیا کی ہوشمند قومیں سب سے پہلے اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا احاطہ کرتی ہیں لیکن اگر بقا ہی کو خطرات لاحق ہو جائیں تو سب سے پہلے ان اسباب کی نشاندہی اور ان کا تدارک کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر حالات جان لیوا نہج کو پہنچ جائیں تو سب کام چھوڑ کر اس جانب متوجہ ہوا جاتا ہے مگر جنوبی ایشیا کے خطے میں ایک ایسی مخلوق پائی جاتی ہے جو اپنی تباہی کے اسباب دیکھنے کے باوجود حالات کو ''سب اچھا‘‘ قرار دے رہی ہے۔ اس مخلوق کو عرفِ عام میں افسر شاہی کہا جاتا ہے۔ ''سب اچھا ہے‘ حالات بہتر ہو رہے ہیں‘ سخت احکامات جاری کر دیے گئے وغیرہ وغیرہ‘‘ یہ اس کلاس کے پسندیدہ اور خاص جملے ہیں جو یہ اپنے سے اوپر والوں کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کو فائل کا پیٹ بھرنا کہتے ہیں۔ چونکہ بیشتر صاحبانِ اختیار دہری شہریت رکھتے ہیں اور اگر ایسا نہ بھی ہو تو ریٹائر ہونے کے بعد زیادہ تر افراد مغربی ممالک میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں‘ لہٰذا انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مستقبل قریب میں یہ خطہ رہنے کے بالکل قابل نہیں رہے گا۔ واضح رہے کہ پورے جنوبی ایشیا کے وسائل پر یہی مخلوق قابض ہے۔
افسر شاہی کا ذکر اس لیے ناگزیر ہے کہ اس وقت بھی سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں کی بھرمار نظر آتی ہیں۔ انٹر سٹی چلنے والی ہیوی ٹریفک، بسیں اور ٹرک سب سے زیادہ ماحولیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر متعدد دعووں کے باوجود صورتحال میں ذرہ برابر بہتری نہیں آئی۔ سموگ کے آغاز پر چاول کی فصل کی باقیات جلانے کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا‘ سوال یہ ہے کہ اب تو وہ عمل ختم ہو چکا بلکہ اگلی فصل کی بوائی بھی ہو چکی‘ پھر سموگ کا جان لیوا وبال اب تک باقی کیوں ہے؟ یہاں پڑوسی ملک کے ایک صحافی سے ہوئی بات چیت بھی آپ تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ صاحب دہلی میں مقیم ہیں‘ ان سے راقم نے دہلی میں مصنوعی بارش کے منصوبے سے متعلق آگاہی چاہی تو کہنے لگے: بھائی! سارے معاملات افسر شاہی کے ہاتھ میں ہیں لہٰذا مصنوعی بارش کا منصوبہ پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کہ اب تک کیا اقدامات کیے ہیں؟ کہنے لگے: کچھ ٹرک نما مشینیں شہر میں گھومتی نظر آتی ہیں جو پانی کا چھڑکائو کرتی ہیں۔ عرض کی کہ اس طرح تو پانی اور پٹرول‘ دونوں ضائع کر رہے ہیں‘ اگر اسی پیسے سے بارش کر لیں تو فضائی آلودگی میں کمی کے علاوہ زیرِ زمین پانی کی سطح بھی بلند ہو گی۔ کہنے لگے: آپ پروفیسروں والی بات کرتے ہیں‘ آپ کو چاہیے کہ افسروں کی طرح سوچیں۔
اب بات اس وارننگ کی جو راقم نے ڈھائی‘ تین سال پہلے اپنی تحریروں اور انٹرویوز میں دی تھی کہ لاہور شہر کی ماحولیاتی زندگی زیادہ سے زیادہ پانچ سال باقی بچی ہے۔ ڈھائی‘ تین سال بعد منظر کیا ہو گا‘ یہ آپ خود تصور کر سکتے ہیں۔ باقی سب باتیں چھوڑیں‘ اپنی گاڑی کی ٹیوننگ ضرور کرائیں اور زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں۔ بصورتِ دیگر لاہور جیسے تمام شہروں کا وقتِ نزع نزدیک ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں