آخرکار 16 دسمبر کو لاہور میں پہلی مصنوعی بارش کا کامیاب تجربہ کر لیا گیا۔ اس بارش‘ جو انتہائی تھوڑی تھی بلکہ بارش سے زیادہ بوندا باندی کہنا مناسب ہے‘ کے نتیجے میں لاہور شہر آلودگی میں دنیا کے پہلے نمبر سے چھٹے نمبر پر چلا گیا ہے۔ اب بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ بارش بھرپور ہوتی تو کتنا زیادہ اثر ہوتا۔ چونکہ ملک میں مصنوعی بارش کا یہ پہلا تجربہ تھا‘ لہٰذا اس بارش سے متعلق بہت ساری خبریں رپورٹ ہوئیں اور اکثر خبریں قدرے عجیب طریقے سے اور حقائق سے ہٹ کر بیان کی گئیں، لہٰذا اس بارش سے متعلق ریکارڈ کی درستی کے لیے کچھ وضاحتوں کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ کہہ ایک خبر میں بتایا گیا کہ بارش کے لیے راکٹ فائر کیے گئے۔ یہ خبر ایک حد تک درست ہے‘ یہ نمک کے Flares تھے جو ایک چھوٹے جہاز کے پروں پر لگا کر چلائے گئے۔ ان فلیئرز کے نتیجے میں نمک بادلوں کے اوپر گرتا رہا۔ واضح رہے کہ جہاز کو بادلوں کے اوپر لے جایا جاتا ہے‘ اس کے بعد نمک کو بادلوں پر گرایا جاتا ہے۔ زمین سے راکٹ فائر کر کے بارش برسانا بھی منصوعی بارش کا ایک طریقہ ہوتا ہے‘ جو زیادہ تر اُس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب جہاز میسر نہ ہو یا جہاز کو استعمال میں نہ لانا ہو۔ اس صورت میں راکٹ کے ٹاپ کو نمک سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر جب راکٹ چلایا جاتا ہے تو یہ بادلوں میں جا کر پھٹتا ہے جس سے نمک کا چھڑکائو بادلوں پر ہو جاتا ہے اور بارش برسنے لگتی ہے۔ یہ طریقہ زیادہ بادلوں کی صورت میں کارگر رہتا ہے۔ چین نے 2008ء میں اسی طریقہ کار سے بیجنگ میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں کی افتتاحی تقریبات کو بارش سے بچانے کے لیے ایک دن پہلے ہی شہر سے دور بارش برسا کر بادلوں کو خالی کر دیا تھا اور افتتاحی تقریب کو بارش سے محفوظ بنا لیا تھا۔ ایک دوسری خبر میں راقم کے حوالے سے یہ کہا گیا کہ مصنوعی بارش کے لیے پانی میں نمک ڈال کر بادلوں پر چھڑکائو کیا جاتا ہے، یہ بھی ادھوری بات ہے۔ اصل بات یہ تھی کہ جب پاکستان نے بیس سال پہلے منصوعی بارش کا تجربہ کیا تھا تو اس وقت مناسب اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے نمک کو پانی میں ڈال کر چھڑکائو کیا گیا تھا۔
بارش کی مقدار اور لاگت
سب سے پہلے بات کرتے ہیں بارش کی کم مقدار کی۔ متحدہ عرب امارات کی ٹیم اس کام کے لیے لگ بھگ پندرہ دنوں سے پاکستان میں قیام پذیر تھی‘ لہٰذا اس ٹیم کو واپس جانا تھا، اس لیے جیسے ہی بادل میسر آئے‘ فوری تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اُس دن ہوا میں نمی کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم تھا‘ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ بارش کم ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود آلودگی میں اتنی زیادہ کمی واقع ہوئی ہے کہ اس بارش کے استعمال پر اعتماد بڑھ گیا ہے اور اب امید ہے کہ جلد ہی دوسرا تجربہ بھی کیا جائے گا۔ اس بارش کے نتیجے میں ایک دن کے وقفے کے بعد ہی لاہور شہر نے کئی سالوں کے بعد ''خالص دھند‘‘ کا مزہ بھی چکھ لیا جو صبح سویرے عروج پر تھی۔ اگلی بات کرتے ہیں بارش کی لاگت کے حوالے سے۔ایک خبر میں اس حوالے سے خاصے مبالغے سے کام لیا گیا۔ ایک جہاز جو اس کام کے لیے اڑتا ہے‘ وہ ایک گھنٹے کے اندر کتنافاصلہ طے کرے گا اور کتنا فیول پھونکے گا؟ رہی بات نمک کی تو وہ ایک مربع کلو میٹر پر محض آٹھ سو گرام خرچ ہوتا ہے، البتہ جو فلیئرز (راکٹ) استعمال کیے گئے‘ یہ قیمتاً قدرے مہنگے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود آپ ایک مربع کلومیٹر کے رقبے پر لگ بھگ ایک لاکھ روپے میں بارش کر سکتے ہیں۔ اس حساب سے فی ایکڑ جو پانی کھیت کو حاصل ہوگا وہ اڑھائی سو روپے سے زیادہ مہنگا نہیں ہوگا۔ اگر آپ بجلی سے ٹیوب ویل چلا کر کھیت بھریں یا ڈیزل سے جنریٹر چلائیں‘ تو بھی یہ کام مصنوعی بارش سے حاصل ہونے والے پانی سے مہنگا ہی ہو گا،کم از کم دوگنا مہنگا۔ اس بارش سے حاصل ہونا والا پانی کھیت کی زرخیزی کو بڑھاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پانی زیر زمین پانی کی سطح کو بھی بڑھاتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ دبئی اسی قسم کی بارشوں سے پینے کا پانی حاصل کرتا ہے اور اسی پانی کو زراعت کے لیے بھی استعمال میں لاتا ہے۔ کچھ یہی کام چین بھی کر رہا ہے۔ چین جتنے علاقے پر مصنوعی بارشیں کرتا ہے‘ وہ بھارت کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔ چین اپنے دریائوں اور زیرِ زمین پانی کی سطح کو بہتر کرنے کے لیے مصنوعی بارشیں کرتا ہے۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ چین سموگ پر قابو پا چکا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے بارشیں کرتا رہتا ہے۔
پاکستان پہلا یا تیسر ا ملک ؟
کچھ خبروں میں کہا گیا کہ سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش‘ جسے مرضی کی بارش کہنا زیادہ مناسب ہے‘ کرنے والا پاکستان پہلا ملک بن گیا ہے۔ حالانکہ کچھ خبروں کے مطابق چین اور تھائی لینڈ آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اس قسم کی بارش کرتے آ رہے ہیں لہٰذا آلودگی کے خاتمے کے لیے بارش کرنے والا پاکستان تیسرا ملک بن گیا ہے؛ البتہ جنوبی ایشیا کا یہ پہلا ملک ضرور ہے۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں تو ہوا۔ سموگ کے خاتمے کے لیے مصنوعی بارش کی دہلی سے صرف خبریں آ رہی ہیں، حالانکہ بھارت کا وہ تمام علاقہ‘ جو چین‘ بنگلہ دیش اور پاکستان سے لگتا ہے‘ شدید سموگ کی لپیٹ میں ہے، بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ بھارت کے جنوب مغرب کے کچھ علاقوں کے علاوہ سارا بھارت ہی اس وقت زہریلی دھند کے زیرِ اثر ہے۔ بھارت کی سموگ کی وجہ سے نیپال اور بھوٹان بھی زیرِ عتاب ہیں۔ اب امید اور گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ بھارت بھی اس سمت میں آگے بڑھے گا۔ اس وقت مودی سرکار اگلے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ کرکٹ ورلڈکپ تو بھارت جیت نہیں سکا لیکن مصنوعی بارش برسا کر بھارتی حکومت یقینا عوام کو کچھ سکھ دے سکتی ہے۔ اس سلسلے میں قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ سموگ کا دورانیہ فروری کے آخر تک برقرار رہے گا۔لہٰذا بھارتی حکومت کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ سموگ میں کمی لانے اور اپنے عوام کو صاف ہوا میں سانس لینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے فوری مصنوعی بارش کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے۔
مرضی کی بارش
اس حوالے سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ اس بارش کو مصنوعی کس حد تک کہا جا سکتا ہے اور کیوں۔ اس ضمن میں گزارش ہے کہ یہ بارش اتنی ہی خالص ہے جتنی قدرتی بارش ہوتی ہے، البتہ اس طریقۂ کار سے آپ بارش کو اپنی مرضی کے دن اور مرضی کی جگہ پر کر سکتے ہیں۔ اسی لیے اس بارش کو Alternative بھی کہا جاتا ہے یعنی یہ ایک متبادل طریقہ ہے۔ اس متبادل یا مرضی کی بارش سے حاصل پانی اتنا ہی زرخیز اور اصلی ہوتا ہے جتنا قدرتی بارش سے حاصل ہونے والا پانی۔ پانی کو خالص یا زرخیز اس لیے کہا جا رہا ہے کہ بارش کے ذریعے جو پانی زمین پر برستا ہے‘ وہ زمین کی زرخیزی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح کا پانی دیگر صورتوں میں صرف نہروں سے حاصل ہو سکتا ہے؛ البتہ نہروں کے پانی کا انحصار دریائوں کے پانی پر ہوتا ہے، جو بدستور کم ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں نہری آبپاشی میں جو علاقے نہروں کے اختتام (Tail) کی طرف ہوتے ہیں‘ وہاں پانی نہیں پہنچ پاتا بلکہ اس سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ مرضی کی اور متبادل بارشوں کی مدد سے ان علاقوں میں بھی پانی میسر کیا جا سکتا ہے۔ بشمول پنجاب‘ ملک کے متعدد علاقوں میں زمین کا پانی اس قدر کھارا ہو چکا ہے کہ اگر کسان اس پانی سے زمین کو سیراب کریں تو زمین خراب ہو جاتی ہے۔ ایسے علاقوں میں اس متبادل بارشوں کا نظام مستقل بنیادوں پر نصب ہونا چاہیے‘ وہ بھی ترجیحی بنیادوں پر۔ اس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقصان یا بھاری خرچہ شامل نہیں۔ آگے بڑھو پاکستان! بارش کے اس کامیاب تجربے پر تمام پاکستان بالخصوص اہالیانِ لاہور خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں، تمام متعلقہ افراد کا شکریہ ادا کیا جانا چاہیے ۔ یقینا اس سے خلقِ خدا اور دنیا کا بھلا ہوا، جس میں 'روز نامہ دنیا‘ کا ساتھ اور حصہ بھی سب سے زیادہ اور تاریخی رہا۔ اس لیے روزنامہ دنیا کا بھی بہت شکریہ۔