حال ہی میں ایک وڈیو سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملی جس میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن چین کے صدر شی جن پنگ کے سامنے ایک میز پر بیٹھے نظر آ رہے ہیں۔ اس وڈیو میں دکھائی دیتا ہے کہ چین کے صدر کیساتھ ان کے وفد کا کوئی رکن موجود نہیں ہے لیکن روس کے صدر کیساتھ ان کی اعانت کرنے والے لوگ موجود تھے۔ اس موقع پر روس کے صدر نے چین کے صدر کی جانب دیکھ کر کہا کہ He is a Sole Warrior۔ مطلب یہ کہ یہ اکیلے ہی جنگجو ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ فرانس کے عظیم رہنما اور جرنیل نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا کہ ''چین ایک سویا ہوا دیو ہے، یہ جب بھی جاگے گا، دنیا کو ازسر نو تر تیب دے گا‘‘۔ 18ویں صدی کے اس رہنما کی سیاسی بصیرت اور پیش گوئی کا آج ہر کسی کو اقرار کرنا پڑتا ہے حالانکہ چین کی ترقی سے دنیا کے بہت سے ممالک بشمول بھارت ناخوش ہیں اور چین کو ایک دشمن نہ سہی‘ مخالف کے طور پر ضرور دیکھا جاتا ہے اور یہ حسبِ استطاعت اپنی مخالفت کا اظہار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس کا سب سے بڑا مظہر پاکستان سے گزرنے والے CPEC کی انتہا درجے کی مخالفت ہے۔ واضح رہے کہ چین کے معاشی منصوبوں کو ایک سو بیس کے قریب ممالک جوائن کر چکے ہیں، لیکن بھارت نہ صرف ان میں شامل نہیں بلکہ سی پیک منصوبے کی مخالفت کیساتھ ساتھ اسے سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں بھی ملوث ہے۔
چین ایک براعظم ہے
رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک روس ہے، دوسرے نمبر پر کینیڈا اور تیسرے پر چین، چوتھے پر امریکہ، پانچویں پر برازیل اور چھٹے پر آسٹریلیا ہے۔ چین اور امریکہ میں تیسرے نمبر کی پوزیشن کا ایشو سمندری احاطے کی وجہ رہتا ہے؛ البتہ مذکورہ تمام ممالک کو زیادہ رقبے کی وجہ سے ''براعظمی ممالک‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 75 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر مشتمل زمینی ٹکڑے کو براعظم کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس اصطلاح کو سمجھنے کے لیے ''برصغیر‘‘ کی اصطلاح پر غور کریں۔ جب تک پاکستان اور دیگر ممالک متحدہ ہندوستان سے علیحدہ اور آزاد نہیں ہوئے تھے‘ اس خطے کو برصغیر یعنی ایک چھوٹا براعظم کہا جاتا تھا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، بھوٹان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ کی علیحدگی کے بعد اب بھارت تقریباً 32لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کا حامل ہے جبکہ اس پورے خطے کو اب برصغیر کے بجائے جنوبی ایشیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بات چین کی ہو رہی تھی جو آبادی کے لحاظ سے اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ واضح رہے کہ رواں سال بھارت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ چین کی آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد ہے اس لیے رقبہ اور آبادی‘ ان دونوں عوامل کو اکٹھا کرنے کی بنیاد پر چین کا در جہ محض ایک ملک کا نہیں بلکہ ایک مکمل براعظم کا ہے۔ ''بر‘‘ کا مطلب زمین کا ٹکڑا ہے اور ''اعظم‘‘ سے مراد بڑا۔
امریکہ کے مقابلے میں کبھی سوویت یونین کو دوسری بڑی عالمی طاقت سمجھا جاتا تھا مگر معاشی طور پر کمزور ہونے اور 14 مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو جانے کے بعد سوویت یونین سپر پاور کے درجے سے محروم ہو گیا۔ اب دنیا کی سیاست کی بساط پر اس کی جگہ چین ابھر آیا ہے۔ معاشی طور پر چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے مگر یہ مستقبل قریب میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت اور امریکہ کے مقابل ایک بڑی ملٹری پاور بن جائے گا۔ یوں دنیا دوبارہ کثیر قطبی (Bipolar) ہونے جا رہی ہے۔ سوویت یونین کے کمزور ہونے اور ٹوٹنے کے بعد 1990ء میں Unipolar نظام میں امریکہ واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ بات ہوئی چین کی مخالفت کی‘ تو مغربی دنیا کے ممالک بالخصوص امریکہ اور برطانیہ چین سے خائف نظر آتے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ چین کا کمیونسٹ ملک ہونا ہے۔ واضح رہے کہ کمیونسٹ ممالک کی سیاست میں ایک ہی سیاسی جماعت ہوتی ہے، اسی سیاسی جماعت میں الیکشن ہوتا ہے اور ملک کی نئی قیادت کا انتخاب ہو جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں اس وقت ایک تعجب خیز ہیجان برپا ہے کہ ایک غیر جمہوری ملک ان کے طے کردہ معیار کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی طاقت بننے جا رہا ہے اور یہ روس کے بعد دوسری بڑی مثال ہو گی۔ اسی تناظر میں Revival of the Cold War یا نیو کولڈ وار کی اصطلاحات استعمال ہو رہی ہیں۔
مغربی دنیا میں ترقی یافتہ ہونے کے لیے ماڈرنائزڈ ہونا ایک بنیادی شرط سمجھی جاتی ہے۔ ماڈرن ہونے کے لیے جمہوریت، سیکولر ازم، کیپٹل ازم اور شخصی آزادی کے پیمانے سامنے رکھتے ہیں۔ Individual Liberty کا معیار مغرب میں بہت زور پکڑ چکا ہے بلکہ یوں کہہ لیں کہ اس آزادی کے نام پر اتنا زیادہ زور دیا گیا کہ اسے اب ''Over Doing‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس شخصی آزادی کے چکر میں لوگ تنہائی کا شکار ہو کر ذہنی ہیجان میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اسی اثرکے تحت Feminism کے فلسفے کا پرچار پوری دنیا میں کیا جا رہا ہے اور اب اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جنس تبدیل کرنے کے قانون اور اس حوالے سے پالیسی سازی کے حق میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے ان تحریکوں کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ مغربی ممالک میں خاندان اور مذہب‘ یہ دونوں سماجی ادارے سرے سے ناپید ہو چکے ہیں۔ مذہب نہ صرف سیاست بلکہ ذاتی زندگیوں میں بھی ایک لاتعلق چیز کا درجہ پا چکا ہے۔ مغربی ممالک کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وہاں کے لوگوں کی اکثریت مذہب کے حوالے سے خود کو سیکولر کہلاتی ہے۔ اسی طرح خاندانی نظام اور شادی کی مذہبی اور قانونی حیثیت بھی ختم ہو چکی ہے۔ مگر دوسری طرف چین مغرب کے اس ماڈرنزم کے معیار کو تسلیم نہیں کرتا۔ شخصی آزادی کے نام پر ماں باپ سے علیحدگی اور شادی کے بغیر اولاد جیسے تصورات کا وہ سخت مخالف ہے۔ چین میں یہ قانون موجود ہے کہ اگر بوڑھے والدین میں سے کوئی ایک اپنی جوان اولاد کی شکایت کردے تو اس اولاد کو حوالات جانا پڑ سکتا ہے۔ سوویت‘ امریکہ سرد جنگ کے دوران برطانوی وزیراعظم چرچل نے ''لوہے کا پردہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی یعنی یورپی ممالک کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ وہ کمیونسٹ ملک روس کے اشتراکی نظریات کو یورپ نہیں آنے دیں گے۔ عین اسی طرح چین والے بانسوں کا پردہ استعمال کرتے ہیں۔ بانس چونکہ سب سے اونچا درخت ہوتا ہے اس لیے یہ واضح کرتا ہے کہ مغرب کی طے کردہ جدیدیت کو چین اپنے ملک میں نہیں آنے دے گا۔ جنگی طاقت اور معاشی خوشحالی کیساتھ ساتھ وہ مشرقی کلچر (Oriental Culture) کا بھی علمبردار ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ چین نے اگرچہ اپنے ہاں رائج کمیونزم میں بہت ساری معاشی تبدیلیاں کر رکھی ہیں لیکن سیاسی و نظریاتی طور پر اب بھی وہ اپنے آپ کو چینی طرز کا کمیونسٹ ملک ہی کہتا ہے۔ دو سال پہلے کمیونسٹ پارٹی کی سو سالہ تقریبات کے موقع پر اس بات کا تواتر سے اظہار کیا گیا تھا۔
چین کے معاشی منصوبے
چین نے دنیا میں عالمی حکمرانی یا سپر پاور کا ایک نیا تصور دیا ہے، وہ یہ کہ چین عسکری طاقت اور جنگوں کے بجائے تجارت و معیشت کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ قائم کر رہا ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چین ایشیا کے ممالک کے جھگڑوں کو ختم کرکے ان ممالک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے اردگرد کے خطے اور پھر براعظم ایشیا کو ساتھ ملا کر طاقت کا ایک نیا توازن قائم کر سکے۔ ''ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اور سی پیک منصوبہ اس کا بڑا مظہر ہیں۔ اگر بات کریں سی پیک کی تو یہ ''شاہراہِ معیشت‘‘ نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ قازقستان، ترکمانستان، منگولیا اور افغانستان کیلئے بھی خاصی اہم ہے۔ واضح رہے سینٹرل ایشیا کے ممالک اور منگولیاLand Locked ہیں، یعنی یہ ممالک سمندری سرحد سے محروم ہیں اور دنیا کی بیشتر تجارت چونکہ بحری راستے سے ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ اپنے ہمسایہ ممالک کے محتاج ہیں۔ جس طرح چین ملک نہیں‘ ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے‘ اسی طرح سی پیک براعظمی سطح کی معاشی شاہراہ ہے۔ اس سلسلے کی ایک اہم پیش رفت رواں سال ازبکستان سے افغانستان اور پھر پاکستان میں گوادر تک بچھائی جانے والی ریلوے لائن کا افتتاح ہے۔ اس ریلوے ٹریک کے ذریعے افغانستان اور ازبکستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے یہ دونوں ممالک لینڈ لاکڈ کی محرومی سے عملی طور پر باہر نکل آئیں گے تو غلط نہ ہو گا۔ اس منصوبے سے ان دونوں ممالک کے علاوہ سینٹرل ایشیا کے دیگر ممالک بھی منسلک ہوں گے جو ایک بہت اہم پیش رفت ہو گی۔
یہ معاشی منصوبے صرف براعظمی ملک چین ہی نہیں بلکہ پورے براعظم ایشیا کیلئے لائف لائن کا درجہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ کیمونسٹ ملک‘ جو مغرب کے معیار کے مطابق غیر جمہوری ہونے کے باوجود ترقی یافتہ بنے‘ کی ترقی کا راز تعلیم و تحقیق اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی اور کرپشن کا نہ ہونا ہے۔ گویا ثابت ہوتا ہے کہ ترقی کیلئے جمہوریت سے زیادہ کرپشن سے نجات اور اپنے بل بوتے پر سائنسی ایجادات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایجادات اسی وقت ہو سکتی ہیں جب تحقیق کو ایک معاشرتی اور تعلیمی کلچر بنایا جائے۔ اب دنیا آگے بڑھ چکی ہے، اب محض کھیت کاشت کرنا کافی نہیں بلکہ دماغ کاشت کرنا پڑتے ہیں۔ ایجادات کا پودا پُرمغز دماغوں ہی میں اُگتا ہے۔ اس کیلئے چاہیں تو اسرائیل کی مثال لے لیں یا پھر چین کی، لیکن خدارا! پہیے کو دوبارہ ایجاد مت کریں۔ اب Magicکا راستہ چھوڑ کر Logic کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہوگا۔ یہ معجزوں کا نہیں‘ ایجادات کا دور ہے اور اس ریس میں ہم پہلے ہی کئی دہائیاں پیچھے رہ چکے ہیں۔