بات ہوئی تھی چین کی ترقی کی جس کی بدولت وہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا اور تیزی سے پہلے نمبر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر ترقی سے متعلق دنیا کے نظریات اور ماڈلز کی بات کی جائے تو گزرے وقتوں میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ سارا کھیل قدرتی وسائل کا ہوتا تھا۔ آپ اس کو زرعی دور بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت زرخیز زمین، پانی کی دستیابی اور سب سے بڑھ کر موافق موسمی حالات یہ طے کرتے تھے کہ کوئی علاقہ یا ملک کتنی ترقی کرے گا۔ اس دور میں کلیدی کردار دریائی علاقوں کا تھا جہاں پانی کی وجہ سے زمینیں زرخیز تھیں جبکہ آبپاشی کا مناسب انتظام بھی ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ ماضی کی تمام تہذیبیں دریائوں کے کناروں پر آباد تھیں۔ دریائوں کی اہمیت آج تک کم نہیں ہوئی ہے اور یہ آج بھی اتنے اہم ہیں کہ ان کو ''زندگی کی لکیر‘‘ کہا جاتا ہے۔
صنعتی دور کے کمالات
اس کے بعد دنیا نے کروٹ لی اور ایک دوسرے دور کا آغاز ہوا۔ اسے صنعتی دور سے موسوم کیا جاتا ہے جو‘ اٹھارہویں صدی کے وسط میں شروع ہوا۔ اس دور کا آغاز مشینوں کی ایجاد سے ہوا۔ سب سے پہلے کپڑا بُننے والی مشین بنائی گئی جس نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو جنم دیا۔ اس میں کپاس یعنی کاٹن ٹیکسٹائل سب سے اہم تھی۔ جہاں جہاں مشینیں لگ رہی تھیں‘ وہاں روزگار کے سلسلے میں آنے والے لوگ بھی آباد ہونے لگے۔ اس طرح دیگر سہولتیں بھی ان علاقوں میں میسر ہونے لگیں، اس طرح جدید شہری زندگی کا آغاز ہو گیا۔ شہر بنیادی طور پر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے، جہاں تھوڑی جگہ پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ان کی معاشی سرگرمی صنعت سے وابستہ ہوتی ہے۔ نئے شہر بننے کے بعد انسان کی سماجیات اور سیاست پر بہت زیادہ اور گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ یہ اگرچہ ایک دلچسپ پہلو ہے لیکن اس پر زیادہ بات نہیں کی گئی، مثال کے طور پر جمہوریت کا جنم شہروں ہی کی بدولت ہوا تھا۔ باضابطہ تعلیم کے ادارے بھی اسی دور میں وجود میں آئے تھے اور سب سے بڑھ کر جو تبدیلی دنیا نے دیکھی وہ مڈل کلاس کا جنم تھا۔ اسی دور کا ایک بہت بڑا اثر خواتین کا مردوں کے برابر کام کرنے کی صورت میں نظر آیا۔ زرعی دور میں ہاتھوں سے کام کیا جاتا تھا اور جو زیادہ جسمانی طاقت کا حامل ہوتا تھا‘ وہ زیادہ کام کر سکتا تھا مگر صنعتی دور میں متعدد ایسے شعبے متعارف ہوئے جن میں دماغ کا استعمال ناگزیر تھا،جیسے انجینئرز، ڈاکٹرز، استاد وغیرہ، اگرچہ یہ شعبے پہلے بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے مگر ان کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا جب روایتی تعلیمی اداروں کا جنم ہوا۔ اسی طرح اس دور میں عورت کو مرد کی برابری بھی حاصل ہو گئی۔ اس سے قبل تک زرعی دور میں چونکہ جسمانی طاقت کا استعمال نمایاں تھا لہٰذا عورت کو مرد کے مقابلے میں کمترسمجھا گیا۔ حتیٰ کہ صنعتی انقلاب کے بعد بھی اگر عورت مزدوری کرتی تھی تو اس کی جسمانی طاقت کی قدرتی کمی کی وجہ سے اسے تخصیصی رویے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مثلاً اگر ایک جگہ عمارت بن رہی ہوتی تو ایک مزدور عورت، ایک مرد مزدور کے مقابلے میں کم وزن اٹھا پاتی تھی، اسی وجہ سے اسے اجرت بھی کم ملتی تھی۔ عورت کو مرد کے برابر لانے والی چیز کا نام علم و ہنر ہے۔ اس فلسفے کو ''Manual to Mental‘‘کہا جاتا ہے، یعنی ہاتھوں کی جگہ دماغوں کی کاشت۔دماغوں کی کاشت گزشتہ کالم کا بھی موضوع تھا۔ اس سے مراد ہے ایسی ایجادات کرنا جو کسی بھی قوم کی بقا اور برتری کا تعین کرتی ہیں اور یہ فلسفہ آج بھی پوری طرح کارفرما ہے۔
نظاموں کی بحث
ذکر ہوا کہ صنعتی انقلاب کی بدولت دنیا نے جمہوریت کا سبق پڑھا مگر یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ انقلاب صرف یورپ میں آیا تھا، لہٰذا وہاں پر جمہوریت بھی آ گئی لیکن اپنی صنعتی و مشینی طاقت کے بل بوتے پر یورپی قوموں نے پسماندہ اور زرعی وسائل سے بھرپور علاقوں پر قبضہ کرکے ایک نئی طرز کی بادشاہت ان پر مسلط کردی۔ اس کو استعماریت کا نام دیا گیا۔ اس استعماریت کے ساتھ سامراجیت(معاشی استحصال) بھی ایک عالمی نظام کی طرز پر کم ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقوں پر مسلط ہو گئی۔ یہی وہ تاریخی موڑ تھا‘ آج بھی تیسری دنیا کے ممالک جس سے نکل نہیں سکے ہیں۔ یہاں یہ نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے کہ استعماریت اور سامراجیت کے تحت سب سے بڑا اور گہرا قبضہ جنوبی ایشیا ہی پر کیا گیا تھا۔ اس وقت جنوبی ایشیا معاشی پیداوار میں دنیا کا نمبرون خطہ تھا۔ پوری دنیا کی لگ بھگ ایک چوتھائی پیداوار اس ایک خطے میں ہو رہی تھی۔ علاوہ ازیں جنوبی ایشیا میں تنوع کے باوجود مذہب، زبان اور دیگر بنیادوں پر کوئی جھگڑے نہیں ہوتے تھے۔ یہ سب فساد و انتشار یورپی اقوام اور استعماری دور کا تحفہ ہے جو آج بھی اس علاقے کو کھا رہا ہے۔ اس بھیانک پہلو کو ایک سطر میں کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ انگریز کے جانے کے بعد برہمن سوچ نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اس حوالے سے بھارت کی مثال کافی ہے جو اس خطے کا سب سے بڑا ملک ہے، مگر یہ غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے تمام پڑوسی ممالک کو ''اکھنڈ بھارت‘‘ کے نظریے کے تحت اپنے اندر ضم کرنا چاہتا ہے اور اسی لیے پورے خطے میں ایک جنگی کشمکش جاری رکھے ہوئے ہے۔
دنیا میں سب سے پہلے مغربی ممالک نے جمہوریت کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام لاگو کیا۔ اس نظام کے تحت لوگوں کو سیاسی جمہوریت تو مل گئی لیکن معاشی طور پر امیر اور غریب کا فرق ایک خلیج بن کر سامنے آیا۔ انیسویں صدی میں کارل مارکس نے اس نظام کی ضد میں اشتراکیت کے نام سے ایک نیا نظام نے پیش کرکے ایک بھونچال برپا کر دیا۔ دنیا کا سب سے پہلا اشتراکی نظام‘ سرخ انقلاب کے نتیجے میں 1917ء میں روس میں سامنے آیا۔ سرخ انقلاب نے ترقی کا ایک نیا ماڈل دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس انقلاب کے نتیجے میں روس نے انتہائی تیز ترقی کی۔ حتیٰ کہ روس دوسری عالمی جنگ سے پہلے ہی ایک عالمی طاقت بن چکا تھا۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ روس ہی وہ طاقت تھا جس نے جرمنی جیسی طاقت کو شکست سے دو چار کیا، حالانکہ اس وقت جرمنی تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا اور لگ بھگ پورے یورپ پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں آچکا تھا۔ اپنے ہاں اشتراکیت کو رائج کرنے کے بعد روس نے دنیا کو یہ ترغیب دینا شروع کر دی کہ اپنے ہاں اشتراکی نظام یعنی سرخ انقلاب لائیں۔ اسی نظام کے تحت غریب کی بات سنی جائے گی اور وہ محض زندہ رہنے کے بجائے زندگی کو بہتر طور پر بسر کرنے کے قابل ہو سکے گا۔ وسائل پر مزدوروں کا حق ہو گا اور سرمائے کو تقسیم کیا جائے گا۔ یہ ایک انتہائی طاقتور اور پُر کشش نظریہ تھا۔ اشتراکیت کو سادہ لفظوں میں ''معاشی جمہوریت‘‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے لیکن اس نظام میں سیاسی طور پر صرف ایک جماعت کی اجازت ہے جس کا ممبر بننے کے لیے بنیادی شرط کسی صلاحیت کا حامل ہونا ہے۔ مطلب ہر کوئی اس جماعت کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اس اشتراکی نظام نے مزدوروں کے علاوہ عورتوں کو بھی برابری کا حق دیا۔ اس برابری کو حقوقِ نسواں کا حقیقی داعی قرار دیا گیا۔ اس انقلاب کے بعد ہی مغربی ممالک نے اپنے ہاں عورتوں کو ووٹ کا حق دیا تھا۔ جی ہاں ! لہٰذا یہ کہنا غلط نہیں کہ مغربی ممالک میں عورتوں کے لیے جمہوریت اشتراکی انقلاب کے بعد ہی آئی تھی۔ اشتراکی نظام کے علمبردار روس نے اس کو پوری دنیا میں پھیلانے کی ٹھانی مگر خود شکست و ریخت کا شکا ہوگیا۔
چین کا اشتراکی نظام
دوسری عالمی جنگ کے چند سال بعد‘ 1949ء میں چین میں بھی اشتراکی انقلاب آگیا تھا مگر چین کا رویہ قدرے محتاط رہا۔ چین نے روس کے برعکس اس انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے سے گریز کیا۔ اسی طرح 1990ء میں جب سوویت یونین بکھرنا شروع ہوا تو چین نے اس سے سبق سیکھا اور اپنے ہاں اشتراکیت میں متعدد تبدیلیاں کرکے جمہوری طرز کی آزادیاں بھی متعارف کرا دیں۔ اس تمام عرصے میں چین نے تعلیم و تحقیق کو اپنا کلچر بنایا اور یہی وجہ ہے کہ آج وہ دنیا کی حکمرانی میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔ بات وہی ہے کہ جمہوریت ہو، بادشاہت ہو یا اشتراکیت‘ بقا و برتری کے لیے دماغوں کی کاشت ہی فائدہ مند رہتی ہے۔ وگرنہ پرانے دور کی خواتین مزدوروں کی طرح کم اجرت کے ساتھ ہمہ وقت بقا کے خطرات ہی لاحق رہتے ہیں۔