بات چل رہی ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک اب بیرونی حملوں کے بجائے ایسے اندرونی حملوں کا شکار ہو چکے ہیں جن کی وجہ سے وہ معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ نفسیاتی و سماجی شکست و ریخت کا اتنی تیزی اور گہرائی سے شکار ہو رہے ہیں کہ یہ حملے اُن ممالک کو باقاعدہ جنگوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس طرز کی جنگی کشمکش میں چونکہ کوئی بیرونی ملک شامل نہیں ہوتا‘اس لیے اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو شمار میں نہیں لایا جاتا اور نہ ہی اس کا کوئی تدارک کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سالانہ 50ہزار کے قریب لوگ صرف خود کشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ شعبۂ طب اس خدشے کا متعدد بار اظہار کر چکا ہے کہ ذہنی تناؤ‘ انتشار اور ہیجان اب ایک وبائی مرض کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ذہنی خلفشار کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اب ایک حالت سے زیادہ عادت بن چکی ہے۔ اب بچے بھی اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں جو سب سے زیادہ تشویشناک امر ہے۔ اس بیماری کی وجوہات میں شہری طرزِ زندگی‘ جو ایک تیز رفتار طرزِ زندگی ہے‘ ایک وقت میں ایک سے زیادہ امور پر دھیان دینا اور بہت زیادہ سوچنا شامل ہے۔ اسی کے ساتھ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی بھی اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
برتری سے زیادہ بقا کی جنگ
اس طرح کی جنگی کیفیت میں زندگی گزارنے والا کوئی بھی شخص اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے بس زندگی کی بقا کیلئے سرگرداں نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے پہلی مثال مغربی ممالک کی ہے جہاں آج کل سردی بہت زیادہ ہے لیکن توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے وہاں یہ فقرہ بہت مشہور ہے کہ Eat or Heat۔ یعنی ان ممالک میں توانائی کی اتنی قلت ہے کہ وہاں کے شہری یا تو محدود توانائی سے کھانا پکا لیں یا سردی سے بچنے کیلئے اپنے گھروں کو گرم رکھ لیں‘ لیکن وہ یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ یہاں توانائی کی قلت سے مراد توانائی کا مقدار میں کم ہونا نہیں بلکہ مہنگا ہونا ہے۔ توانائی کی بات کریں تو اس دکھ کو پاکستانیوں سے زیادہ کوئی نہیں سمجھ سکتا جہاں پٹرول‘ بجلی اور گیس کے نرخ اتنے زیادہ ہیں کہ اپنی محدود آمدن میں لوگ یا صرف اپنے یوٹیلیٹی بل ادا کر سکتے ہیں یا مہینے کا راشن پورا کر سکتے ہیں۔ اپنی محدود معاشی سکت کے پیشِ نظر وہ یہ دونوں کام ایک ساتھ نہیں کر سکتے۔ مزدور طبقہ دن میں ایک وقت کا کھانا چھوڑ چکا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کم ہو چکی ہے۔ عید جیسے تہواروں پر بھی خریداری میں 40سے 50فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ 2023ء میں روپے کی مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک چوتھائی اضافے نے ہر کاروبارِ زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ عالمی طاقتوں اور آئی ایم ایف نے اپنی سخت شرائط سے پاکستان کو ایک معاشی جنگ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مغرب نے چین کو نیچا دکھانے کیلئے یا چین کیساتھ حساب برابر کرنے کیلئے اس کی معیشت کیلئے ناگزیر شاہراہ (سی پیک) والے ملک کو جان بوجھ کر معاشی بحران کا شکار کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے جو کسر باقی ہے وہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے کر پوری کر رہا ہے۔
امریکہ کے بعد بھارت کی مثال اس لیے انتہائی انوکھی ہے کیونکہ بھارت پہلے سے ہی بہت زیادہ اندرونی مسائل کا شکار ہے لیکن پھر بھی اپنے ہمسایہ ممالک میں کوئی نہ کوئی منفی سرگرمی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کا سب سے انوکھا اور بھیانک محاذ چین کے ساتھ لگنے والی سرحد ہے جہاں چین بدستور نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ بھارت کا نقصان بھی کرتا رہتا ہے۔ لیکن بھارت اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل چھوڑ کر امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں سکھوں کو قتل کروانے میں مصروف ہے۔ امریکہ کے بعد بھارت دوسرا بڑا ملک ہے جو اپنے اندرونی محاذوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پوری شدت کیساتھ بیرونی محاذوں میں غرق ہے۔ یہاں چار سال پہلے بھارت کے آرمی چیف کا دیا ہوا وہ بیان یاد آرہا ہے جو بھارت کی محدود سکت کی نشاندہی کرتا ہے‘ تب کے بھارتی آرمی چیف نے کہا تھا کہ بھارت ایک ساتھ اڑھائی محاذوں پر جنگ نہیں لڑ سکتا۔ بھارتی آرمی چیف کی اڑھائی محاذوں سے مراد ایک ایک محاذ چین اور پاکستان تھا جبکہ آدھا محاذ بھارت کی اندرونی علیحدگی پسند تحریکیں تھیں۔ اب حالات اس سے کہیں آگے جا چکے ہیں۔ اب تو خالصتان کی تحریک پر ہی بھارت اتنا کچھ لگا چکا ہے اور لگا رہا ہے کہ یہ ایک تحریک ہی بھارت کیلئے پورا محاذ بن چکی ہے۔ اس محاذ کی وجہ بھارت کو کینیڈا جیسے ملک کی طرف سے دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے۔ اب توبھارت کو امریکہ جیسے اتحادی ملک کی طرف سے بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا ہے۔ اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے دنیا میں جو ملک کسی بڑے سانحے کا شکار ہو سکتا ہے‘ وہ بھارت ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت بھوٹان‘ نیپال‘ سری لنکا اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک سے بھی اپنے معاملات طے نہیں کر پا رہا۔ یاد رہے کہ مالدیپ کے نئے سربراہ نے اپنے ملک سے بھارتی فوج کو چلے جانا کا حکم دیا ہوا ہے۔
عالمی کشمکش بھی اندرون خانہ طے ہو گی
اب دوبارہ امریکہ کی بات کرتے ہیں جو اس وقت بھی دنیا کی سب سے بڑی عسکری و معاشی طاقت ہے۔ لیکن انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ پیسہ جنگی بجٹ پر خرچ کرتا ہے۔ اس کا جنگی بجٹ ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ اندرون ملک سکیورٹی کے نام پر جو خرچ ہو رہا ہے وہ اس کے علاوہ ہے۔ اس وقت امریکہ کی فوج اور بحری بیڑے پوری دنیا میں موجود ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنی حاکمیت برقرا رکھنا اور چین کی پیش قدمی کو روکے رکھنا ہے۔ جبکہ چین نے تاحال ایک بھی جنگی محاذ دنیا میں نہیں کھولا ہے۔ اب جنگ کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ جب کوئی طاقت کسی دوسری طاقت کو اُلجھانا چاہتی ہے تو وہ اُس سے براہِ راست جنگ نہیں کرتی بلکہ اُس کیلئے مسائل کا ایسا جال بُن دیتی ہے جس سے وہ دوسری طاقت نکل ہی نہیں پاتی۔ امریکہ کو اتنے زیادہ جنگی بجٹ کی اپنے دفاع کیلئے نہیں بلکہ چین کی بڑھتی پیش قدمی روکنے کیلئے ضرورت ہے۔ امریکہ اپنا یہ بجٹ تائیوان‘ پاکستان‘ مشرقِ وسطیٰ‘ جنوبی کوریا‘ یوکرین جیسے محاذوں پر کسی نہ کسی طور خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے معاملے پر اپنی ساکھ مکمل طور پر گنوا بیٹھا ہے۔ اسی طرح اپنے عوام میں بھی امریکی انتظامیہ اپنی ساکھ کھو رہی ہے۔ امریکہ دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر فلسطین کے حق میں سب سے زیادہ بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔ امریکہ جو پیسہ ان محاذوں پر خرچ کر رہا ہے وہی وہ اپنے عوام کی بہبود پر خرچ کر سکتا ہے لیکن ایسا نہ کرنے کی وجہ سے وہاں اندرونی مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جب کوئی حکومت اپنے عوام کی بہبود کے بجائے غیرترقیاتی سرگرمیوں پر وسائل خرچ کرتی ہے تو ایسے میں عوام میں اپنے ملک کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ سماجیات کے ماہر اسے اندرونی طاقت اور یگانگت کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس کیلئے جو انڈیکس استعمال ہوتا ہے اسے سماجی یگانگت کا انڈیکس کہتے ہیں۔ موجودہ حالات میں امریکہ کا یہ انڈیکس تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ ہمارا موضوع بھی یہی ہے کہ اب دنیا کے بیشتر ممالک کو بیرونی سے کہیں زیادہ اندرونی محاذوں سے خطرہ لاحق ہے۔
آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ ایک برس قبل امریکہ کے اندرونی سکیورٹی کے اداروں نے خبردار کیا تھا کہ امریکہ کے اندر جاری کشمکش کو کوئی بھی بیرونی طاقت امریکہ کو کسی نقصان سے دوچار کرنے کیلئے استعمال کر سکتی ہے۔ یہاں روس کا ذکر بھی آ جاتا ہے جس کے متعلق امریکی اداروں اور عالمی تجزیہ کاروں نے یہ ثابت کیا تھا کہ روس نے امریکہ کا الیکشن ہائی جیک کرکے ہلیری کلنٹن کے بجائے ٹرمپ کو جتوایا تھا۔ اس کے بعد روس نے یوکرین کا محاذ کھول کر مغربی ممالک اور امریکہ کو اپنے ناقابلِ تسخیر ہونے کے تصور سے جھنجھوڑ کر نکال دیا۔ یہ جنگی طرز کا مشن اب بھی جاری ہے۔ یہاں بجا طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روس اس وقت چین کیلئے پروکسی جنگیں لڑ رہا ہے۔ اس سارے عمل میں چین کا کچھ بھی نہیں جا رہا لیکن امریکہ بدستور اپنی عالمی ساکھ اور حاکمیت گنوا رہا ہے۔ لیکن امریکہ کسی بھی صورت کوئی درمیانی راستہ اپنانے کو بھی تیار نہیں۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت یعنی امریکہ اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک یعنی بھارت ایک خطرناک داؤ کھیل رہے ہیں۔ اب ان کا سامنا چین کے علاوہ روس سے بھی ہے۔ روس کے سربراہ پوتن کو یورپ ایک نئے ہٹلر کے طور پر دیکھتا ہے کیونکہ ہٹلر نے بھی اپنے ملک کیلئے پہلی جنگِ عظیم کا بدلہ لیتے ہوئے دوسری عالمی جنگ چھیڑی تھی جبکہ پوتن نے سرد جنگ میں امریکہ کے ہاتھوں اپنے ملک کو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے دیکھا تھا۔ اب کہا جاتا ہے کہ پوتن بھی بدلہ لے رہے ہیں۔ یاد رہے اگر روس امریکہ کا الیکشن چرا سکتا ہے تو کچھ بھی کر سکتا ہے‘ جبکہ اس کا سارا فائدہ چین کو ہو رہا ہے۔ چین کے عظیم سکالر نے کہا تھا کہ بہترین فتح وہ ہوتی ہے جو خود لڑے بغیر حاصل کی جائے۔ چین تاحال یہ فتح حاصل کرتا نظر آرہا ہے۔