کھوجِ حیات (زندگی کی تلاش و تحقیق) بتاتی ہے کہ حیاتِ کھوج (تلاش و تحقیق کی زندگی) ہی میں انسان اور اس کے علوم و افکار کی بقا ہوتی ہے۔ بات تعلیم و تحقیق کی اگر کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی مصنف اپنی زندگی کی پوری کھوج کو ایک کتاب کی شکل میں سامنے لاتا ہے۔ کتاب کا نچوڑ اگر مختصر ترین طریقے سے بیان کرنا ہو تو کوئی ایک شعر بھی اس کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ یہ کمال شاعری کے علاوہ کسی اور صنفِ ادب میں نہیں پایا جاتا۔ آپ مرشِد اقبالؔ ہی کو لے لیں‘ جنہوں نے بے شمار ایسے اشعار کہے کہ جو اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک مکمل نظریہ یا فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض دیگر بڑے شعرا کرام بھی یہی کام بلکہ کمال دکھا چکے ہیں۔ اس تناطر میں بے شمار اشعار ایسے ہیں جو بہت زیادہ مشہور ہیں، یعنی ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان اشعار کا ایک کمال یہ ہوتا ہے کہ ان کے بغیر آپ کی تقریر ہو یا تحریر‘ ادھوری نہ بھی ہو تو پھیکی پھیکی ضرور معلوم ہوتی ہے۔ اگر تقریر و تحریر کا اختتام کسی شعر پہ کیا جائے تو مضمون کا حاصل دو مصروں میں بیان ہو جاتا ہے اور قارئین کو یاد بھی رہ جاتا ہے۔
غلط العام اردو اشعار
آپ کو لیے چلتے ہیں ایک دلچسپ دنیا میں‘ جہاں پر 'حیات‘ نامی مصنف نے اردو کے ایسے اشعار‘ جو مختلف تحریروں میں کسی غلطی کا شکار ہو گئے‘ اور اسی غلطی کے ساتھ ہی مشہور بھی ہو گئے‘ ان کی تصحیح کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کمال طریقے سے ایسے اشعار پر کھوج کرتے ہوئے‘ جب اور جہاں‘ جس بھی بڑے لکھاری نے اپنے کالموں میں کوئی غلطی کی‘ اس کی تاریخ و مقام اشاعت (کالم)کا حوالہ دے کر تصحیح کرتے ہوئے پوری کتاب لکھی دی۔ مجھے یہاں مرحوم پروفیسر اختر جعفری یاد آگئے جنہوں نے مشہور پنجابی صوفی شاعر میاں محمد بخش کے کلام سے متعلق یہ انکشاف فرمایاتھا کہ میاں محمد بخش صاحب کا اکثر کلام جو عوام میں مشہور ہے‘ وہ ان کا کلام نہیں ہے، مثلاً
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندیاں دا دل نہ ڈھاویں‘ رب دلا وچ رہندا
پروفیسر صاحب نے تصحیح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ شعر میاں محمد بخش صاحب کا نہیں ہے۔ واضح رہے کہ پروفیسر صاحب نے میاں محمد بخش صاحب کی شاعری ہی پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا تھا۔ اب چلتے ہیں حیات صاحب کی کھوج کی طرف‘ جنہوں نے سب سے پہلے کچھ یو ں درستی کی ہے کہ
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
عمومی طور پر پہ شعر ہمیں مختلف تحریروں میں نظر آتا ہے مگر حیات صاحب کا کہنا ہے کہ یہ دو الگ الگ اشعار کے مصرعے ہیں‘ جنہیں یکجا کر کے ایک شعر کی شکل دی گئی ہے۔ پہلا مصرع امیر قز لباش کے ایک شعر کا ہے اور یہ 1974ء میں شائع ہوا۔ مکمل شعر کچھ یوں ہے کہ
اسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا
دوسرا مصرع فیض احمد فیضؔ کی ایک مشہور نظم کا ہے اور یہ نظم 1950ء کی دہائی میں پہلی بار شائع ہوئی تھی، یعنی فیض صاحب کا شعر امیر قز لباش کے شعر سے قریب پچیس بر س پرانا ہے۔مکمل شعر ہے:
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
اس کے بعد حیات صاحب کی کھوج لیے چلتی ہے 1930ء کی دہائی میں شائع ہونے والی کتاب ''کلیاتِ سودا‘‘کی طرف جس کے خالق محمد رفیع سودا ہیں۔ ان کے جس شعر کی درستی کرائی گئی ہے‘ وہ کچھ یوں ہے:
وہ صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں
اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستیاں ہیں
یہ شعر بھی بہت مشہور ہے، لیکن اس کے پہلے مصرعے میں کچھ غلطی ہے، درست مصرع ہے
وے صورتیں الٰہی کس ملک بستیاں ہیں
واضح رہے کہ ''وے‘‘ وہ کی جمع ہے، آج کل یہ لفظ متروک ہو چکا ہے اور ''وہ‘‘ واحد و جمع‘ دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر اشعار میں اس قسم کی تبدیلی تحریف کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ شعر عابدہ پروین صاحبہ نے بھی ایک کلام میں گایا ہے ، مگر انہوں نے بھی ''ملک‘‘ کی جگہ دیس ہی گایا ہے جس سے دوسرے مصرعے میں کچھ گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔
اب بات کا رخ مڑتا ہے مرشد اقبال کی طرف‘ ہم جن کی تعلیمات پر ہی عمل نہیں کرتے بلکہ ان کے اشعار کو بھی غلط لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ سب سے پہلے ذکر اس شعر کا جس میں حضرت اقبال نے سماجی، معاشی اور سیاسی تاریخ کو ایک نئی جہت دینے والے مفکر کارل مارکس کو نظریۂ اشتراکیت پیش کرنے پر ایک شعر میں اس طرح خراجِ تحسین پیش کیا کہ دریا ہی نہیں بلکہ سمندر کو کوزے میں بند کردیا۔
وہ کلیمِ بے تجلی‘ وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
حیات صاحب کا کہنا ہے کہ یہ شعر چونکہ فارسی زبان میں ہے لہٰذا ''وہ‘‘ کی جگہ لفظ ''آں‘‘آنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سرد جنگ کے دوران امریکی ایما پر اشتراکیت کی اس شدت سے مخالفت کی گئی کہ اشتراکیت کو کفر تک کا درجہ دے دیا؛ تاہم اب چین کے نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے اور ایشیا کا ساتھ دینے کی وجہ سے سبھی اسی ملک کے گن گاتے نظر آتے ہیں اور اب دنیا بھی اشتراکیت کی مخالفت سے نہ صرف باز آچکی ہے بلکہ چین کے نظام کے گن بھی گاتی ہے، اس لیے اب اس شعر کو بھی درست کر لینا چاہیے۔
علامہ اقبال کا ایک اور شعر بھی غلط طریقے سے بیان ہوتا ہے۔ وہ شعر ہے :
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ شعر ضربِ کلیم میں کچھ یوں موجود ہے :
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزارسجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اس شعر میں زیادہ تر ہونے والی غلطی ''سجدے‘‘ کو سجدوں لکھنا ہے۔
اسی طرح علامہ کا ایک اور شعر ہے‘ جو بہت زیادہ مشہور ہے اور اکثر تعلیمی اداروں کی دیواروں پر بھی لکھا ہوتا ہے:
سبق پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اس شعر میں ایک لفظ کی کمی کی جاتی ہے، اور ایسا کرنے سے سار مفہوم کمزور پڑ جاتا ہے۔ یہ لفظ ''پھر‘‘ ہے، جو پہلے مصرعے میں کچھ یوں آیا :
سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا
ویسے تو کسی بھی شعر میں کمی پیشی بے ادبی مانا جاتا ہے لیکن مرشد اقبال جیسے شاعر کے اشعار میں غلطی کو گناہ مانا جاتا ہے۔
''کھوج‘‘ نام کی کتاب لکھنے سے حیات صاحب نے اردو شاعری کو ایک نئی حیات بخشی ہے۔ اس کتاب کی مدد سے بہت سے اشعار کی نہ صرف تصحیح ہو گئی بلکہ یہ سب ایک ہی جگہ پر یکجا بھی ہو گئے۔یاد رہے کہ مصنف نے جن تمام اشعار کی تصحیح کی ہے جو نامور لکھاریوں نے اپنے مضامین، آرٹیکلز اور کالموں میں لکھے تھے۔