امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ اپنے دوسرے صدارتی دور میں دنیا بھر سے امریکہ آنے والی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر رکھا ہے مگر ان کا اصل ٹارگٹ چین ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے نہ صرف اُن ٹاپ تھری ممالک‘ جن کا امریکہ کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں سب سے زیادہ حصہ ہے بلکہ ان خطوں میں بھی جو چند دہائیاں پیشتر امریکہ کے حلقہ ہائے اثر میں شمار کیے جاتے تھے‘ کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعلقات قائم کر کے امریکہ کیلئے عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ مثلاً جنوب مشرقی ایشیا اور آسیان کے رکن ممالک‘ جو پچھلی صدی کی آخری دہائی تک امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنرز تھے‘ اب چینی مصنوعات اور سرمایے کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیں۔ اس وقت چین اور آسیان ممالک ایک فری ٹریڈ ایریا کے ذریعے باہم منسلک ہیں۔ چین اور آسیان ممالک نے باہمی منصوبوں میں اس وقت تک جو سرمایہ کاری کی ہے اس کی کل رقم 310 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور جن شعبوں میں چین جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کی اقتصادی ا ور فنی امداد کر رہا ہے ان میں انفراسٹرکچر‘ مینو فیکچرنگ‘ زراعت‘ ہائی ٹیک‘ ڈیجیٹل اور گرین اکانومی شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا نہ صرف قدرتی اور معدنی دولت سے مالا مال ہے بلکہ بحر الکاہل اور بحر ہند کے خطوں کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے اہم جغرافیائی محل وقوع کا مالک ہے۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ قریبی معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کر کے اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھا کر بحر الکاہل اور بحر ہند میں امریکی مفادات کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ بحر ہند‘ بحر الکاہل اور جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ نے ایک طرف جاپان‘ آسٹریلیا اور بھارت کو ملا کر چار ممالک کا ایک وسیع تر اتحاد Quad تشکیل دیا ہے اور دوسری طرف چین کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز کرکے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی تعلقات کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ چین کی طرف سے دوطرفہ تعلقات اور ٹریڈنگ بلاکس مثلاً شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے کثیر الجہتی فریم ورکس کے تحت معاشی اور تجارتی تعلقات قائم کرنے کا سلسلہ صرف جنوب مشرقی ایشیا اور اپنے دیگر ہمسایہ ممالک تک محدود نہیں بلکہ خلیج فارس‘ مشرقِ وسطیٰ‘ افریقہ‘ یورپ اور لاطینی امریکہ تک پھیل چکا ہے۔ خلیج فارس میں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ چین نے نہ صرف تجارت کے شعبے میں قریبی تعلقات قائم کر رکھے ہیں بلکہ کچھ عرصہ پیشتر ایران اور سعودی عرب کے مابین مصالحت اور تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کر کے مشرقِ وسطیٰ کی ڈپلومیسی میں اہم مقام حاصل کر لیا۔
مشرق وسطیٰ‘ جسے دوسری عالمی جنگ کے بعد تقریباً پچاس برس تک امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان جاری سرد جنگ میں اہم مرکز کی حیثیت حاصل تھی‘ میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کو امریکہ اپنے نیشنل سکیورٹی مفادات کیلئے خطرہ سمجھتا ہے۔ افریقہ میں دو طرفہ تجارت‘ اقتصادی اور فنی امداد اور سرمایہ کاری کے ذریعے چین نے افریقی ممالک میں جو اہم مقام حاصل کیا ہے‘ اس نے امریکہ کو مزید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کیونکہ افریقہ کو ''سٹور ہاؤس آف ورلڈز منرلز‘‘ کہا جاتا ہے۔ مغربی ممالک کی صنعتی دولت اور خوشحالی افریقہ کے قدرتی اور معدنی وسائل کے بے دریغ استحصال کی مرہونِ منت ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ چین کی صورت میں افریقی ممالک کو ایک ایسا مخلص دوست ملک ملا ہے جو باہمی دلچسپی‘ باہمی مفاد اور برابری کی بنیاد پر ان ممالک کو اپنے پاؤں پر آپ کھڑا ہونے میں مدد دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی افریقہ میں چین کے ترقیاتی منصوبوں اور حکمت عملی کی تعریف کی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اسے اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ نوآبادیاتی دور سے چلے آنے والے تسلط سے افریقہ نجات حاصل کر رہا ہے۔ انیسویں صدی سے مغربی دنیا تاریخی تبدیلی کو ہمیشہ جیوپولیٹکل چیلنجز کی شکل میں دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ ان کے خیال میں مشرقِ وسطیٰ اور افریقہ پر جو ملک کنٹرول حاصل کر لے‘ اس کیلئے یورپ پر غلبہ حاصل کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ اور یورپ جو بحیرۂ اوقیانوس کے پورے مشرقی ساحل پر پھیلا ہوا ہے اگر کسی حریف طاقت کے قبضے میں آ جائے تو امریکہ کی عالمی بالادستی کا ڈھانچہ دھڑام سے گر جائے گا۔
افریقہ کے بعد لاطینی امریکہ کے ممالک کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور تجارتی روابط امریکہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو رہے ہیں۔ برکس‘ جس کا چین ایک بانی اور اہم رکن ملک ہے‘ حال ہی میں کیوبا اور بولیویا کی اس میں شمولیت نے امریکہ کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاناما نہر کے دونوں کناروں پر بندرگاہوں میں چینی انجینئرز کی موجودگی کا بہانہ بنا کر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہر پر دوبارہ قبضہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کی روشنی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقرر کردہ سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو بوریو نے سینیٹ میں اپنی نامزدگی کا دفاع کرتے ہوئے چین کو امریکہ کا روس سے بھی زیادہ خطرناک حریف ملک قرار دیا ہے اور صدر ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد سب سے پہلے جن غیرملکی حکام کے ساتھ ملاقات کی وہ بحر الکاہل اور بحر ہند کے خطوں میں چین کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف قائم کیے گئے جیو سٹرٹیجک اتحاد کوآڈ کے وزرائے خارجہ تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دوسری مدت کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا فوکس کیا ہوگا۔
اپنی پہلی ٹرم میں ٹرمپ نے نیٹو کے رکن یورپی ممالک سے دفاعی معاہدے کے اخراجات میں اپنے حصے میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری ٹرم کے آغاز سے پہلے ہی انہوں نے یورپی ممالک سے اس حصے کو مزید بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ نیٹو سے امریکہ کی علیحدگی کا بھی اشارہ دے دیا ہے۔ انہوں نے یورپی ممالک پر واضح کیا ہے کہ روس کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر یورپی ممالک کی ہے اور امریکہ اس کا مکمل بوجھ برداشت نہیں کر سکتا مگر کوآڈ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا یہ مؤقف نہیں بلکہ 2007ء میں قائم ہونے والے اس اتحاد میں 2017ء میں ٹرمپ نے دوبارہ جان ڈالی۔یہ چین ہی ہے جس کی برآمدات پر ٹرمپ نے 60 اور باقی دنیا پر لگ بھگ 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا مگر حلف اٹھانے کے اگلے روز کینیڈا اور میکسیکو پر 25 اور چین پر 10 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کر دیا۔ دنیا اس پر حیران ہے لیکن اگر ٹرمپ کی شخصیت اور طرزِحکومت ‘ خاص طور پر خارجہ پالیسی کے میدان میں ان کے سابقہ ریکارڈ کو پیش نظر رکھا جائے تو حیرانی باقی نہیں رہتی۔ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک کاروباری دہنیت کے حامل ہیں اور سودے بازی (ڈیل) سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ٹرمپ سیاست کو بھی ایک کاروبار سمجھتے ہیں اور اس میں ان کی پہلی ترجیح ایک ایسی ڈیل ہے جس کے ذریعے وہ امریکہ کو ایک دفعہ پھر عظیم بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔ امریکہ کو چین سے سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ اس نے روس سے تیل اور گیس خریدنے کے سودے کرکے روسی معیشت کو امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچایا ہے اور روس کو یوکرین جنگ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے میں مدد دی ہے۔ امریکہ کا چین سے سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ وہ یوکرین کے خلاف روس کا ساتھ نہ دے۔ چین کو راضی کرنے کیلئے صدر ٹرمپ چینی مصنوعات پر 60 فیصد کے بجائے اب 10فیصد ٹیرف عائد کرنے پر آ گئے ہیں۔ شنید ہے کہ ٹرمپ اس سے بھی شاید پیچھے ہٹنے والے ہیں مگر یہ سب ایک ڈیل کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اگر چین کسی ڈیل پر راضی نہ ہوا تو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔