کائنات مختلف رنگوں، خوشبوئوں، نظاروں، موسموں، جمادات، نباتات و حیوانات سے معمور ہے اس لیے ہر خطے کی ثقافت و زبان بھی مختلف ہے۔ ہر ثقافت کی اپنی اہمیت اور اپنے خدوخال ہوتے ہیں اور اس ثقافتی تنوع نے ہماری دنیا کو بہت خوبصورت اور رنگا رنگ بنا دیا ہے۔ انسان کا طرز زندگی کلچر ہے۔ کسی بھی معاشرے کی حقیقی پہچان اس کے کلچر کی دریافت کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ کلچر ہی ہے جو معاشرے کے افراد کے تمدنی مظاہر میں اختلاف کے ساتھ طرز فکر و احساس کی مخصوص وحدت میں پرو دیتا ہے۔ زندگی میں جب بھی کلچر پر عمل ہوتا ہے تو یہ درحقیقت شراکت ہی ہوتی ہے‘ اس لئے کلچر اپنے بنیادی ڈھانچے میں متغیر اور ضم ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے اجزائے ترکیبی میں انسانی رویوں کے مجموعی اثرات بھی شامل ہوتے ہیں‘ اور انہی کو معاشرہ آئندہ نسلوں کے حوالے کرتا ہے۔ یوں کسی قوم کا مخصوص رجحان‘ اس کی اقدار اور علمی سرمایہ تشکیل پاتا ہے۔
ٹیکنالوجی کی مسلسل ترقی سے دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور بظاہر موجودہ نسلِ انسانی کیلئے بیشمار آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں اور ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ ہر انسان بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہتا ہے جو کہ ایک فطری بات ہے، لیکن اس فطری صلاحیت کی وجہ سے انسان سے انجانے میں کچھ ایسی اجتماعی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں جن کے نتائج سے وقتی فائدے و سکون سے زیادہ انسان اور کرۂ ارض کی دیگر مخلوقات کے وجود کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں، جس کی واضح مثال انڈسٹریز سے نکلنے والی گیسز سے اوزون لیئر میں شگاف کا پیدا ہو جانا، مسلسل جنگلات کی کٹائی سے ایکو سسٹم کا غیر متوازن ہو جانا‘ ہے۔ موسموں میں شدید قسم کے تغیرات نے انسان کی آنکھیں کسی حد تک کھول دی ہیں اور اب عالمی ادارے اور ترقی یافتہ ممالک اس دھرتی اور اس کے ایکو سسٹم کو بحال رکھنے کے لیے کسی حد تک سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں ہزارہا ثقافتیں موجود ہیں جنہوں نے ہماری دنیا کی فطری خوبصورتی کو مزید دلفریب بنا رکھا ہے‘ لیکن اب اکیسویں صدی میں غیر محسوس طریقے سے دنیا کی کئی ثقافتیں بڑی ثقافتوں میں ضم ہو کر اپنا وجود کھونے کے خطرات سے دوچار ہیں، جس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ معاشی مسائل ہیں۔ وسائل کی تلاش میں لوگ اپنے علاقوں سے ہجرت کر کے، ترقی یافتہ علاقوں کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس عمل سے وہ اپنی ثقافت سے نہ صرف دور ہو جاتے ہیں بلکہ آنے والی نسلیں ترقی یافتہ شہروں کی چکا چوند کر دینے والی روشنیوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ دنیاوی ثقافتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکنالوجی کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو ان کے اپنے علاقوں میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ یہ ہجرت کا سلسلہ رک سکے۔ ضرورت اس امر کی ہے دنیا کی تمام ثقافتوں کو مساوی اہمیت و درجہ دیا جائے اور ان میں سے کسی (ثقافت) کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے پر اپنی Terms & Conditions کے حوالے سے فیصلہ صادر کرے۔ تہذیبی، نسلی اور مذہبی بنیادوں پر مختلف معاشروں نے جو اخلاقی اقدار اپنائی ہیں‘ ان کا احترام کرنا چاہیے۔ یونیسکو نے 2001ء میں ثقافتی تنوع کو انسانیت کا مشترکہ ورثہ قرار دیا اور اسی سال اقوام متحدہ نے 21 مئی کو ثقافتی تنوع کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ زبان کلچر کا بنیادی جزو ہے۔ ماں بولی کا عالمی دن 21 فروری کو منایا جاتا ہے۔ دنیا میں اس وقت 6 ہزار سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان میں سے تقریباً آدھی زبانیں قریب المرگ ہیں۔ کسی زبان کے مرنے کا مطلب ہے کہ اس میں موجود تہذیب، روایات، لوک ادب و ورثہ سب ختم ہو جائیں گے۔ یونیسکو نے 2022ء تا 2032ء کی دہائی کو مقامی زبانوں کی دہائی قرار دیا ہے تاکہ مقامی زبانوں اور ان سے وابستہ ثقافتوں اور ادب کو محفوظ کرنے کے لئے اقدامات کئے جا سکیں۔
تاریخی طور پر پاکستان دنیا کی چند بڑی تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ اس خطے کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے اور ہمارا کلچر اس خطے کی معلوم تاریخ جتنا پرانا ہے۔ ہماری مقامی ثقافتیں وسط ایشیائی اور ہند ایرانی تہذیبوں کے ملاپ سے مزید خوبصورت اور رنگا رنگ ہو گئی ہیں۔ ہمیں ان کے ہر رنگ کو فخریہ طور پر اپنانا چاہئے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ خطے جو آج پاکستان میں شامل ہیں ان کے مختلف لسانی حلقوں کی اپنی اپنی انفرادی ثقافتیں ہیں‘ یہاں کے باشندے آپس میں موجود اس ثقافتی فرق کو نظر انداز کر کے ان نکات پر اکٹھے ہوئے تھے‘ جو ان میں مشترک ہیں‘ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ارباب اختیار اس diversity کو‘ جو تحریک پاکستان کے دوران ہماری طاقت تھی‘ ایک رنگ میں بدلنے کی لاحاصل کوششوں میں الجھ گئے (ثقافت صدیوں کے عمل سے وجود میں آتی ہے)۔ ملک میں جمہوری قدروں کو پروان چڑھے نہ دیا گیا۔ آمروں نے اپنی حکومتوں کو طول دینے کیلئے صوبائیت اور لسانی و مذہبی منافرت کو ہوا دی جس کی وجہ سے ملک میں عدم استحکام بڑھا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ایک قومی کلچر تو نہیں بنایا جا سکا؛ البتہ وطن عزیز کا مشرقی حصہ تلخ یادوں کے ساتھ الگ ہو گیا‘ لیکن پالیسی سازوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ ہیگل کے بقول ''ہم نے تاریخ سے صرف اتنا سیکھا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘ انہی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بسنے والی قوموں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم نہ ہو سکی۔ غربت، ناخواندگی، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی، مذہبی شدت پسندی، تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے روزگاری جیسے مسائل نے کلچرل مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ملک میں موجود متنوع ثقافتوں کے درمیان برداشت اور مکالمے کے لئے حکومتی سطح پر بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے۔
آزاد جمہوری اور متنوع ثقافتی معاشروں میں یہ مانا جاتا ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے سے اختلاف کر سکتے ہیں اور ان کی سوچ، طرز زندگی‘ زبان، مذہب مختلف ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ نسلی و تہذیبی اختلافات کے باوجود جمہوری معاشرے میں مکالمے کی راہیں کھلی ہوتی ہیں۔ مکالمے سے مراد ایک کی ہار اور دوسرے کی جیت نہیں بلکہ اپنے اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتے ہوئے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنا‘ اس کو برداشت کرنا اور اس کا احترام کرنا ہے۔ اس سوچ کی ہمارے معاشرے میں کمی ہے اور اس کمی کی وجہ سے معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہا ہے۔ مشال خان کا قتل اور سیالکوٹ میں ہونے والے دلخراش واقعات اس عدم برداشت کی تازہ مثالیں ہیں۔ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے پریشر گروپوں کے سامنے ریاست کی رٹ ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ عدم برداشت اور شدت پسندی ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دے۔ آج آزادی کے 75 سال بعد بھی ہمارے ملک کو سیاسی، معاشی، معاشرتی استحکام و یکجہتی کی سخت ضرورت ہے ۔ یہ استحکام ، یک جہتی اور اقتصادی ترقی اسی صورت زیادہ آسان ہوگی کہ ملک میں موجود ثقافتوں سے وابستہ افراد کو معاشی وسائل کے برابر مواقع ان کے اپنے علاقوں میں فراہم کیے جائیں تو یوں ملک میں خوشحالی بڑھے گی، برین ڈرین میں کمی آئے گی اور قومی تشخص کی پہچان یہ ثقافتیں بھی مزید محفوظ ہو جائیں گی اور قومی طاقت میں لازوال اضافہ ہو گا۔