قازقستان میں امن کیسے بحال ہوا؟

2022 کا آغاز قازقستان میں احتجاجی مظاہروں سے ہوا۔ اس احتجاج کی بظاہر وجہ لیکویفائیڈ پٹرولیم گیس (LPG) کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں آزادی حاصل کرنے والی وسطی ایشیا کی ریاستوں میں رقبے کے لحاظ سے بڑا اور امیر ترین ملک قازقستان ہی ہے۔ یہاں تیل، گیس، تانبے، لوہے، زنک کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ قازقستان دنیا کا سب سے بڑا یورینیم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ قدرتی وسائل کی وجہ سے ملک میں متوسط طبقہ مستحکم ہے لیکن بیشتر قدرتی وسائل کے باوجود ملک کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ بینکاری کا نظام غیرمنافع بخش قرضوں کے باعث بحران کا شکار ہے۔ کرپشن بھی ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے Class Difference بہت بڑھ گیا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کے اثرات ملک اور خطے کے دیگر ممالک پر کیا ہوں گے؟ اس پر غور کرنے سے قبل ان واقعات کے پس منظر میں موجود محرکات کا جائزہ لیں تو حقیقت واضح ہوگی:
1۔ قازقستان کے مغربی حصے میں تیل وگیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ اس حصے کو مرکزی حکومت نے طویل عرصے سے نظر انداز کیا ہوا ہے جبکہ ملک کے بجٹ کے بڑے حصے کا دارومدار اس مغربی حصے سے نکالے جانے والے تیل وگیس کی آمدن پر ہے۔ اس کے باوجود مغربی خطے میں غربت اور بیروزگاری کی شرح بلند ہے۔ یہاں کے عوام کا گلہ ہے کہ مرکز ان سے دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہا ں اکثر ایسے احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر دسمبر 2011 میں بھی مغربی خطے زناوزین (Zhanaozen) میں اقتصادی مشکلات اور تیل کے کارکنوں کو واجبات کی عدم ادائیگی کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا۔ اس وقت پولیس نے مظاہرین پر وحشیانہ کریک ڈائون کیا‘ جس میں ایک درجن سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔ 2018 میں2011 کے مظاہروں میں مارے جانے والوں کی برسی کے موقع پر مظاہرے کے دوران بھی پولیس نے مظاہرین کے ساتھ برا سلوک کیا۔
2۔2016 میں حکومت نے زرعی اراضی سے متعلق نئے قوانین نافذ کیے تو اس کے خلاف بھی ملک میں احتجاج کیا گیا۔ اسی طرح 2019 میں متنازع انتخابات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عوام سڑکوں پر آگئے تھے۔
3۔ملک قدرتی دولت سے مالامال ہے لیکن عوام کا معیارِ زندگی تیزی سے گرتا جا رہا ہے۔ کورونا کی وبا نے عام لوگوں کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ قازقستان میں اوسط ماہانہ تنخواہ 450 یورو سے کم ہے جبکہ KPMG2019 کی رپورٹ کے مطابق 162 افراد ملک کے 50 فیصد سے زیادہ اثاثوں کے مالک ہیں۔
4۔قازقستان کی حالیہ تاریخ میں بیشتر عرصہ سابق صدر نور سلطان نذر بایوف برسر اقتدار رہے۔ انہیں الباسی (Elbasy) یعنی قوم کا سربراہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے 2019 میں اقتدار اپنے دیرینہ ساتھی قاسم جومارت توکایوف کے حوالے کر دیا تھا؛ تاہم خود وہ سکیورٹی کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے امور مملکت کی نگرانی کرتے رہے۔ 5 جنوری 2022 تک ملک کے دفاعی اور سکیورٹی ادارے اس کونسل کے ماتحت ہیں۔
5۔روس کے قریب ہونے کے باوجود قازقستان نے اپنی خارجہ پالیسی اس طرح ترتیب دی ہے کہ اس کے چین، امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ چین قازقستان کے تیل کا بڑا خریدار ہے۔ یورپ اور امریکہ نے قازقستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ رواں ماہ ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر ان سب ممالک کو تشویش ہے لیکن امریکی مفادات کو دھچکا لگنے کے امکانات زیادہ ہیں (روس کی جانب سے فوجی دستوں کو سرعت کے ساتھ قازقستان روانہ کرنا بہت معنی خیز ہے )۔
6۔حالیہ احتجاجی مظاہروں پر حکومت کا اولین ردعمل دو دن بعد سامنے آیا تھا۔ 4 جنوری کو قازق صدر توکایوف نے بیان دیا ''پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور ملک میں مہنگائی اب بھی خطے کے دوسرے ملکوں سے کم ہے۔ مظاہروں میں شامل نوجوان اپنا مستقبل تباہ نہ کریں‘‘۔ اس بیان نے عوامی غصے کو مزید بھڑکا دیا اور مظاہرین کے اقتصادی مطالبات سیاسی مطالبات میں بدل گئے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مستعفی ہو جائے۔ علاقائی گورنروں کو براہ راست انتخابات کے ذریعے منتخب کیا جائے ملک میں آزادیٔ رائے اور سیاسی وابستگی کی اجازت دی جائے وغیرہ وغیرہ۔
اس طرح مغربی حصے سے شروع ہونے والا احتجاج پورے ملک میں پھیل گیا۔ 200 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچا۔ ملک میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا گیا۔ دس ہزار لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان حالات میں نذربایوف (الباسی) کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا (سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ الباسی چینی ریزورٹ ہینان(Hainan) میں تھے۔)
حالات نے 5 جنوری کو اس وقت ڈرامائی صورت اختیار کر لی جب صدر توکایوف نے حکومت کو برطرف کرکے سکیورٹی کونسل کے سب اختیار اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد خفیہ ایجنسی کے سربراہ کریم سیموف (Karim Massimov) کو گرفتار کر لیا۔ سابق صدر کے بھتیجے اور خفیہ ایجنسی کے نائب سامت ابیش (Samat Abish) کو بھی ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔ توکایوف کے ان اقدامات اور اقتدار پر مکمل قبضے کی اس کوشش کو ناکام بنانے کیلئے نذربایوف کا قبیلہ بھی تیزی سے متحرک ہوگیا۔ اس کے ترتیب یافتہ جنگجو‘ جنہوں نے تقریباً کسی مزاحمت کے بغیر خفیہ سروسز (KND) کی عمارت، صدارتی محل اور الماتی ایئرپورٹ پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ طاقت (Absolute Power) کے حصول کی پس پردہ کشمکش کی وجہ سے آخر کار صدر قاسم جومارت توکایوف کو کہنا پڑا کہ ریاستی اداروں اور بنیادی انتظامی ڈھانچے کی تباہی کے ذمہ دار دہشت گرد گروہ ہیں جنہیں بیرون ملک تربیت دی گئی ہے‘ اس لئے ان دہشت گردوں سے مقابلے کیلئے انہوں نے اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (Collective Security Treaty Organization) (CSTO) جس کی قیادت روس کے پاس ہے، سے مدد کی اپیل کی۔ مدد کی درخواست کے چند ہی گھنٹوں کے اندر روسی فوجی دستے قازقستان پہنچ گئے۔ تنطیم کے دیگر رکن ممالک آرمینیا، تاجکستان، کرغزستان اور بیلارس کے بھی چھوٹے فوجی دستے قازقستان کی مدد کو پہنچے۔ CSTOکے فوجیوں نے جلد ہی الماتی ایئرپورٹ اور دیگر سرکاری عمارتوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد امن بحال کر دیا۔ اس سب سے نذربایوف کے خاندان اور ان کے قبیلے کو بڑا دھچکا لگا تو دوسری جانب موجودہ صدر نے خود کو ان تمام سیاسی مجبوریوں سے آزاد کرا لیا جو ان کو ملک میں معاشی و سیاسی اصلاحات سے روک رہی تھیں۔ سامت ابیش کو ان کے عہد ہ پر بحال کرکے بغاوت کی تمام تر ذمہ داری کریم ماسیموف پر ڈال دی گئی، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں کسی قسم کا سمجھوتہ ہو چکا ہے۔ اپنے اختیارات کو مضبوط کرنے کے بعد توکایوف نے CSTO کا مشن مکمل ہونے کا اعلان کیا، کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ غیرملکی فوجیوں کی ملک میں طویل موجودگی کو عوام پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اور توکایوف کو اب اپنی قانونی حیثیت کو مضبوط کرنے کیلئے زیادہ عوامی حمایت کی ضرورت ہو گی۔ قازقستان سے CSTO کے فوجی دستوں کا انخلا 19 جنوری کو مکمل ہو گیا لیکن ان واقعات کے اثرات روس سمیت خطے کے دیگر ممالک کی سیاسی صورتحال کو بھی پیچیدہ کر سکتے ہیں، جہاں اقتدار لمبے عرصے سے چند مخصوص افراد کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے پڑوس کی بدامنی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اقتدار کی منتقلی کا کوئی بھی منظرنامہ حکومت اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کو بڑے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ بہرحال روس نے اس مشن کی کامیابی سے یہ ثابت کیا کہ CSTO صرف کاغذ ی ا تحاد نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں