پائیدار ترقی کے اہداف، اقوام متحدہ اور پاکستان

پائیدار ترقی کی چار اہم جہتیں ماحولیات‘ معاشرہ، ثقافت اور معاشیات آپس میں پیوست ہیں۔ انسانوں کی اکثریت نے ترقی کی اندھا دھند دوڑ میں بھلا دیا ہے کہ ماحولیات کو نقصان پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود نہ صرف اس سے آنے والی نسلوں کی زندگیوںکو شدید خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے بلکہ اسے خود بھی شدید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تمام تر سائنسی ترقی کے باجود انسان غربت، بھوک اور بیماری کو شکست نہیں دے پایا ہے۔ پائیدار مستقبل کے بارے میں مستقل مزاجی سے محنت، زندگی کے بہتر معیار کے حصول میں ماحولیات، سماج اور اقتصادیات کے درمیان توازن رکھنے کے لئے عالمی سطح پر ایسی پالیسی سازی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے موجودہ اور آنے والی نسلوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ 1987ء میں برنٹ لینڈ کمیشن کی رپورٹ (Bruntland Commission report) منظر عام پر آنے کے بعد اقوام عالم کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ ایک خوشحال معاشرہ وہ ہے جس میں ضرورت کے مطابق عوام کو خوراک، پینے کا صاف پانی اور صاف ہوا میسر ہو۔ پانچ سال بعد 1992ء میں برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں اقوام متحدہ نے ماحولیات اور ترقی کے موضوع پر ایک عالمی کانفرنس منعقد کی اور اس کانفرنس میں تمام ممبر ممالک نے پائیدار ترقی کیلئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے پر اتفاق رائے کیا۔
پائیدار ترقی کا مطلب ہے‘ سب انسانوں کو اپنی زندگی بہتر بنانے کیلئے مساوی مواقع میسر ہوں اور معاشرے میں امن، انصاف، صنفی مساوات کی راہ میں ہر رکاوٹ کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ کرہ ارض پر متنوع زندگی اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی کی آسائشوں کا حصول سب کیلئے تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب پائیدار زراعت وجنگلات، پائیدار پیداوار و کھپت، گڈ گورننس، تحقیق وٹیکنالوجی کی منتقلی، اور تعلیم وتربیت کی رفتار میں اور آبادی کے درمیان توازن کو برقرار رکھا جائے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی چیلنجز، حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات سے نبردآزما ہونے کیلئے اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔ اس ایکشن پلان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2015ء میں قرارداد کی صورت میں پاس کیا۔ اسے پائیدار ترقی کے اہداف 2015ء تا 2030ء کا ایجنڈا بھی کہا جاتا ہے۔ 2015ء میں طے کیے گئے 17 اہداف یعنی غربت، بھوک کا خاتمہ، طبی سہولیات، کوالٹی ایجوکیشن، صنفی مساوات، صاف پانی و سینی ٹیشن، سستی اور ماحول دوست توانائی، بہتر روزگار اور معاشی استحکام، صنعت،innovation اور انفراسٹرکچر، عدم مساوات کا خاتمہ، شہروں کی مناسب منصوبہ بندی، پیداوار اور کھپت کا مناسب انتظام، آب و ہوا، آبی حیات کا تحفظ، زمین پر موجود دیگر جانداروں کا تحفظ، امن‘ انصاف اور مضبوط ادارے، اور ان اہداف کے حصول کے لیے ہر سطح پر شراکت داری کے حصول کو 2030 تک ممکن بنانا ہے‘ لیکن ابھی تک ان اہداف کے حصول کیلئے زیادہ سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئی اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ اپنی بہت سی دوسری قراردادوں کی طرح شاید اس قرارداد پر بھی مقرر وقت کے اندرImplementation نہیں کروا سکے گی‘ لیکن عالمی برادری میں شامل تمام ممالک پائیدار ترقی کے ان اہداف کے حصول کیلئے اگر ابھی سے سنجیدگی سے کام کرنا شروع کردیں‘ جن پر کام کیے بغیر کوئی چارہ نہیں‘ تو ان کا یہ مشترکہ عمل ہماری نسلوں کی خوشحالی اور بقا کی ضمانت بن سکتا ہے‘ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ ان مسائل کا زیادہ تر سامنا تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک کو ہے‘ جہاں بیڈگورننس، کمزور اداروں اور انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے عوام گمبھیر مسائل میں گھِرے ہو ئے ہیں اور انہیں بنیادی انسانی ضروریات تک میسر نہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے معاشروں میں غربت، صحت، بہتر تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی اور sanitation، سستی و صاف توانائی، معاشی ترقی، صنعت، اختراع اور بہترین انفراسٹرکچر کو بنیادی سماجی ضروریات بناکر اپنے عوام کی بہتری کیلئے کافی کچھ کر چکے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے پالیسی سازی اور اداروں کو مضبوط کرنے کے علاوہ اپنے عوام کو تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرنے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح وہ اپنی افرادی قوت کو مثبت انداز میں بروئے کار لاکر اپنے مسائل کو حل کر سکیں گے اپنے وسائل پر انحصار کرکے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکیں گے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس کے باوجود ہم غذائی اجناس درآمد کرتے ہیں جبکہ عالمی مارکیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ مقدار میں غذائی اجناس پیدا کرکے ان سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے یہاں وسیع امکان موجود ہیں‘ لیکن مستقبل میں یہ صورتحال شاید نہ رہے کیونکہ ایک طرف ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف زرعی زمین کم ہوتی جارہی ہے۔ آبادی پر کنٹرول کیلئے لائحہ عمل نہ بنایا گیا تو ایک طرف زیرکاشت رقبہ مزید کم ہوتا جائے گا تو دوسری طرف ہمیں غذائی قلت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ زراعت کے شعبہ کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے اور زمین کی زرخیزی کو برقرار رکھنے کیلئے روایتی طریقوں کے ساتھ جدید طریقوں کو اپنایا جائے تاکہ مستقبل میں ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ آبپاشی کے جدید طریقے جیسے ڈریپ سسٹم اور sprinkler system وغیرہ اپنانے کے ساتھ ہمیں ماضی کی طرح ایک یا دو پانی پر تیار ہونے والی فصلوں کو بحال کرنے کی سخت ضرورت ہے تاکہ پانی کے کم استعمال سے زیادہ غذائی اجناس حاصل کی جا سکیں۔ وطن عزیزکو اگلے پانچ سالوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بحثییتِ قوم ہمیں شعوری طور پانی کے اسراف سے بچنا اور شہری منصوبہ بندی کے فقدان‘ جو صاف پانی کے ذخائر کو آلودہ کرنے کی ایک وجہ ہے، پر فوری توجہ دینا ہوگی۔ اس لیے حکومتی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر پانی کو محفوظ کرنے اور صاف رکھنے کیلئے باقاعدہ نتائج پر مبنی عملی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے اور پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے آگہی مہم چلائی جانی چاہئے تاکہ عوام الناس میں پانی اور دیگر قدرتی وسائل کے استعمال کے حوالے سے حساسیت پیدا کی جا سکے۔ پینے کا صاف پانی اور طبی سہولیات ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ موجودہ حکومت نے صحت کارڈ کا اجرا کیا ہے جو درست سمت میں اہم قدم ہے۔ اس سکیم کا دائرہ وسیع کرکے ملک میں صحت کے شعبے میں مزید اصلاحات کی جانی چاہئیں۔ ہسپتالوں میں موجود سہولیات میں اضافہ اور ہسپتالوں کی تعداد بڑھانے کے ساتھ تربیت یافتہ عملے کی تقرری اہم ہے کیونکہ صحت کا موجودہ نظام بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
ملک میں معدنی ایندھن کی روزبروز بڑھتی ہوئی کھپت اور عالمی مارکیٹ میں ان کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ انرجی کرائسز‘ جو ملکی معیشت کو کمزور کرنے کا بنیادی سبب ہے‘ مثلاً ایل پی جی کے نئے معاہدے اور ایران و روس سے گیس پائپ لائن ناگزیر ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ہمیں رینیوایبل انرجی میں بایو ماس جیسے ایتھنول، سولر پاور، جیوتھرمل پاور، ہائیڈرو پاور، بایوگیس اور ونڈ انرجی وغیرہ جیسے ماحول دوست منصوبوں پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے‘ جس سے ہم زر مبادلہ بچا سکیں گے اور خود کفالت کی طرف جانے کے ساتھ ساتھ ماحول دوست انرجی کے یہ منصوبے ہمارے ماحولیات مسائل میں کمی کا سبب بھی بنیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں