صارفین کے حقوق کا تحفظ

صارفین کے حقوق کا مطلب ہے کہ ہر وہ شخص جو بازار سے مختلف مصنوعات، سامان یا سروسز خریدتا ہے اسے ان مصنوعات، سامان‘ معیار‘ وزن و سروسز میں وہی چیز دی گئی ہے جس کی اس نے قیمت ادا کی ہے۔ مہذب معاشروں میں کاروبار کے اخلاقی اصول ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتیں ایسے قوانین بھی نافذ کرتی ہیں جو ان کاروباری حلقوں اور بڑی کمپنیوں کے استحصال سے صارفین کو محفوظ رکھتے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں، لیکن ترقی پذیر ممالک کے عوام آج اکیسویں صدی میں بھی کاروباری حلقوں اور بڑی کمپنیوں کے استحصال سے محفوظ نہیں ہیں۔
اس استحصال کی شدت کے پیش نظر پہلی بار اقوامِ متحدہ نے 1953ء میں گائیڈلائنز فار کنزیومرز پروٹیکشن (صارفین کے تحفظ کے لیے رہنما اصول) کی قرارداد پاس کرکے صارفین کے حقوق کا اعتراف کیا۔ اس قرارداد میں صارف کے آٹھ حقوق کو تسلیم کیا گیا: (1) بنیادی ضروریات کی تسکین کا حق: صارف کو اس کی بنیادی ضروریات کے مطابق مصنوعات تک رسائی ہو، (2) حفاظت کا حق: جان و مال کے لیے خطرناک اشیا سے مارکیٹس محفوظ ہوں، خریدی گئی اشیا اس کے فوری اور طویل مدتی مفادات کو پورا کریں، (3) مطلع کرنے کا حق: دھوکہ دہی یا گمراہ کن معلومات نہیں بلکہ، اشتہارات یا دیگر طریقوں سے صارف کو درست معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانا اور باخبر انتخاب کے لیے درکار معلومات تک رسائی صارف کا حق ہے، (4) انتخاب کرنے کا حق: کسی صارف کو ایسی مصنوعات و سروسز خریدنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کی اسے ضرورت نہیں۔ (5) شنوائی کا حق: صارفین کی فلاح و بہبود کے لیے بنائے گئے فورمز میں ان کی نمائندگی ہونی چاہیے، (6) ازالے کا حق: مصنوع کی خریداری کے بعد غیر مطمئن صارف کو رقم کی واپسی، مصنوع کی تبدیلی یا مرمت کا حق حاصل ہے، (7) کنزیومر ایجوکیشن کا حق: مصنوعات کی خریداری کے وقت صارف باخبر فیصلہ کرنے کے قابل ہو، (8) صحت مند ماحول کا حق: صارفین کو ایسے ماحول میں رہنے اور کام کرنے کا حق ہے جس سے موجودہ اور آنے والے نسلوں کی بھلائی کو خطرہ نہ ہو۔
اس قرارداد پر عمل درآمد کا پہلا مرحلہ طے ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے صارفین کی حقوق کی آگہی کو حکومتی سطح سے عوامی سطح تک پہنچانے کیلئے تقریباً تیس سال بعد 15مارچ 1983ء کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے عالمی سطح پر صارفین کے حقوق کے تحفظ کا دن منانے کی منظوری دی‘ جس کے بعد ہر سال اسی تاریخ کو عالمی یوم حقوق صارفین منایا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر اس دن کو منانے کا مقصد صارفین کو اپنے حقوق کے متعلق آگہی فراہم کرنا اور شعور اجاگر کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معیار کے متعلق اپنی آواز اٹھا سکتے ہیں‘ اور کسی بھی پروڈکٹ یا سروس کی خریداری کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتے ہیں جو ان کے حقوق کے خلاف ہوں۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں بڑی بڑی کاروباری کمپنیاں صارفین کا استحصال کرتی ہیں‘ یوں صارفین پر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کیلئے باقاعدہ ایسی پالیسیاں تیار کرنے کی ضرورت ہے جو صارفین کے مفادات کا تحفظ کریں‘ جو عوام کو بازار میں غیر منصفانہ طریقوں کے خلاف قانون کے ذریعے تحفظ فراہم کریں۔ اسی طرح عام صارف کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل مالیاتی سروسز اور مالیاتی ٹیکنالوجیز نے دنیا کو بدل دیا ہے۔ ڈیجیٹل فنانس کے ذریعے ادائیگیوں، قرضوں، بیمہ، دولت کے انتظام کو نئی شکل دی گئی ہے جو صارفین کے لیے کلیدی معاون ثابت ہورہی ہے۔ ڈیجیٹل بینکنگ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے؛ تاہم ڈیجیٹل مالیات سروسز نے نئے خطرات کو بھی جنم دیا ہے اور حالیہ برسوں میں ان خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کی وجہ سے صارفین کے حقوق کے تحفظ میں نئے چیلنج درپیش ہیں، جیسے سکیورٹی، رازداری وغیرہ۔
صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین بنانے کا مقصد کاروباروں کو دھوکہ دہی میں ملوث ہونے اور غیر منصفانہ طریقوں سے روکنا ہے۔ مثال کے طور اکثر بارش کے موسم میں بجلی کے تاروں کے زمین پر گرنے یا کھمبوں میں کرنٹ آنے کی وجہ سے ہونے والے حادثات میں شہریوں کی اموات یا جسمانی اعضا ضائع ہونے کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ گاڑیاں بنانے والے کمپنیاں ان کی قیمتیں عالمی مارکیٹ سے زیادہ لے رہی ہیں لیکن ان گاڑیوں میں حفاظتی آلات (safety devices) موجود نہیں ہوتیں، غیرمعیاری آئل ٹینکروں میں آگ لگنے سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات اور اس طرح کے دیگر حادثات کچھ دن اخبارت کی سرخیوں میں رہنے کے بعد ماضی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ہوٹل سے مضر صحت کھانا کھانے سے ہونے والی بیماریوں یا اموات کے ذمہ داروں کو سزا اور بھاری جرمانے عائد نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیاں، فوڈ چینز منافع تو خوب کما رہی ہیں لیکن سروسز اس معیاری کی فراہم نہیں کر رہیں جس کی وہ قیمت لے رہی ہیں۔ آئے دن پیش آنے والے اس طرح کے واقعات کی روک تھام صرف اسی صورت ممکن ہے کہ کنزیومرز پروٹیکشن قوانین نہ صرف سخت بنائے جائیں بلکہ ان کے اطلاق کیلئے ایسا میکنزم بھی وضع کیا جائے کہ یہ کمپنیاں اور کاروباری صارفین کی جانوں سے نہ کھیل سکیں۔ اس طرح کے واقعات ترقی یافتہ ممالک میں رونما نہ ہونے کی واحد وجہ صارفین کے تحفظ کے سخت قوانین ہیں اور شکایات کی صورت میں کنزیومرز کورٹس فیصلے جلد کرتی ہیں جس سے صارف کی شکایت کا ازالہ تو ہوتا ہی ہے‘ کیس میں بلاوجہ کی طوالت کے باعث ہونے والے مالی و نفسیاتی دبائو کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
پاکستان میں وفاقی سطح پر 1995ء کنزومر پروٹیکشن ایکٹ نافذ کیا گیا اور اس ایکٹ کے تحت کنزیومرز پروٹیکشن کونسل قائم کی گئی۔ کونسلز صارفین کے تحفظ کے نظام کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ان کونسلز کا مقصد صارفین میں ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کے بارے میں آگہی پیدا کرنا اور بازار میں ناقص مصنوعات اور غیرمعقول سروسز کے واقعات کو کم کرنا ہے۔ کونسلز کے قیام کے علاوہ حکومت پاکستان کی جانب سے وفاقی سطح پر ایک اہم کام کنزیومرز کورٹس کی تشکیل ہے جو موجودہ عدالتوں کے متوازی صارفین کی شکایات کے ازالے کا اہم فورم ہیں۔ ان کورٹس کے علاوہ صارفین اپنی شکایات سیشن کورٹس میں درج کروا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے صوبوں کے قوانین کا جائزہ لیں تو خیبرپختونخوا اسمبلی نے 1997ء میں کنزیومرز پروٹیکشن قوانین پاس کیے تھے۔ بلوچستان اسمبلی نے صارفین کے تحفظ کے قوانین 2003ء میں، پنجاب اسمبلی نے 2005ء میں اور سندھ اسمبلی نے 2015ء میں صارفین کے تحفظ کے قوانین پاس کیے، لیکن اس ضمن میں صرف صوبہ پنجاب میں کنزیومرزکونسلز اور کنزیومرز کورٹس 11 اضلاع میں قائم کی گئی ہیں۔ جن اضلاع میں یہ کورٹس نہیں ہیں وہاں ضلع مجسٹریٹ کے پاس صارفین کے تحفظ کے قوانین کے نفاذ کے اختیارات ہیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان میں ضلع مجسٹریٹ کے پاس صارفین کے تحفظ کے قوانین کے نفاذ کے اختیارات ہیں۔ صوبہ سندھ میں 2015ء میں صارفین کے تحفظ کے قوانین منظور ہونے کے بعد کنزیومرز کونسلز اور کورٹس کی تشکیل ہونا ابھی باقی ہے۔ صارفین کے حقوق کے تحفظ کیلئے صوبائی حکومتوں کو تمام اضلاع میں صارفین کی سہولت کیلئے کنزیومرز کونسلوں، کنزیومرز کورٹس کا قیام یقینی بنانا چاہیے اور صارفین کو ان کے حقوق و ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے کیلئے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر مہم چلائی جائے تاکہ شہریوں کی جان و وسائل کا تحفظ کیا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں