تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک کے مزدوروں کی اکثریت آج بھی مضر صحت ماحول میں کا م کرنے پر مجبور ہے۔ انہیں جبری مشقت سمیت جسمانی و نفسیاتی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں سیفٹی قوانین سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے مزدور زخمی، مستقل طور پر اپاہج یا جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ سوشل سکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ورثا ڈیتھ گرانٹ اور معذوری پنشن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ کئی کئی سال ملازمت کے باوجود انہیں تقررنامہ نہیں دیا جاتا۔ اگر تقررنامہ دے بھی دیا جائے تو صرف 90 دن کے لیے ہوتا ہے اور پھر اس میں من مرضی سے توسیع کی جاتی ہے‘ اس طرح ان محنت کشوں کے سر پر کسی بھی وقت فارغ کر دیئے جانے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔
پاکستان کی کل آبادی کا 35 فیصد محنت کشوں پر مشتمل ہے‘ جن کی تعداد لگ بھگ ساڑھے سات کروڑ بنتی ہے۔ ملک کی لیبر فورس کا 27 فیصد زراعت، 30 فیصد ہوٹلوں اور دیگر تجارتی و کاروباری شعبے، 14 فیصد پیداوار‘ 8 فیصد تعمیرات اور 6 فیصد ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے شعبے سے وابستہ ہے۔ 1947ء میں آزادی کے فوراً بعد پاکستان انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا رکن بنا اور آئی ایل او کے 36 کنونشنز کی توثیق کی‘ جس میں آٹھ بنیادی کنونشنز بھی شامل ہیں‘ لیکن ملک کی پہلی لیبر پالیسی 1972ء میں تشکیل دی گئی۔ 1973ء کے آئین کی کنکرنٹ لسٹ کو 18ویں ترمیم 2010ء کے تحت ختم کردیا گیا اور اب لیبر پالیسی، ٹریڈ یونین اور لیبر معاملات سب پر قانون سازی کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ صوبوں کی سطح پر قانون سازی میں تاخیر کی وجہ سے لیبر کورٹس اور لیبر اپیلیٹ ٹربیونلز میں عدالتی کام روک دیا گیا۔ اس مسئلے کو بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس طرح حل کیا کہ تاخیر سے کی گئی صوبوں کی قانون سازی کا اطلاق یکم مئی 2010ء سے قرار دیا اور یوں اس خلا کو عدالت نے پُر کیا۔
2012 ء میں کراچی میں بلدیہ ٹائون کی گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ ایک ہولناک صنعتی سانحے کی وجہ بنی، جس میں 264 محنت کش زندہ جل کر ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ تفتیش کے نتیجے معلوم ہواکہ فیکٹری میں حفاظتی نظام اور آگ بجھانے کے آلات و طریقہ کار بالکل موجود نہ تھے۔ ہمارے ملک میں 83 فیصد مزدور خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں جنہیں کام ٹھیکیدار مہیا کرتا ہے‘ جو انتہائی کم ترین اجرت میں ان خواتین محنت کشوں سے کام لیتا ہے اور اکثریت کو اس برائے نام اجرت کی ادائیگی بھی بڑی تاخیر سے ہوتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں شہریوں سے ہر طرح کی جبری مشقت اور بیگار لینا ممنوع ہے‘ لیکن اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے حالات کچھ اور ہی مناظر پیش کرتے ہیں۔ یہ شعبہ پوری طرح قواعد و ضوابط کے تابع نہیں اور یہاں کام کرنے والے مزدور کے حقوق محفوظ نہیں۔ مزدور، بھٹہ مالکان سے جو قرض لیتے ہیں اس کی واپسی کا کوئی حساب کتاب نہیں رکھا جاتا‘ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے خود مزدور ہی نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ اور آنے والے نسلیں بھی قرض کی ادائیگی کیلئے جبری مشقت کرتی رہتی ہیں۔ معدنیات کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حالت زار بھٹہ مزدوروں سے چنداں مختلف نہیں۔ کان کنی کا شمار پاکستان کی اہم صنعتوں میں ہوتا ہے۔ کان میں کام کرنے والے محنت کش 1800 فٹ سے بھی زیادہ نیچے جا کر کام کرتے ہیں۔ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال تین سو سے چار سو افراد دم گھٹنے اور دیگر حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ان کان کنوں کو نہ تو چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی علاج معالج کی سہولت میسر ہے۔ 1986ء کے بعد سے ہمارے ملک میں بتدریج عارضی، کنٹریکٹ، روزانہ اجرت اور ٹھیکیداری نظام فروغ پا رہا ہے جس کے وجہ سے محنت کشوں کے حالات مزید خراب ہورہے ہیں۔ مزدور بھی انسان ہیں ان کے حقوق کی پاسداری نہ کرنا معاشرے میں مزید بگاڑ اور عدم اطمینان کا سبب بنے گا۔
عالمی یومِ مزدور، مزدوروں کے حقوق کے حصول کی جدوجہد کی علامت ہے۔ 1856ء میں آسٹریلوی مزدوروں نے اوقات کار آٹھ گھنٹے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہڑتال کی تھی۔ اس ہڑتال کی سالانہ یاد منانے کیلئے 1886ء میں امریکہ کے کئی حصوں میں لاکھوں کارکنوں نے اوقات کار آٹھ گھنٹے کرنے اور عالمی امن کیلئے پُرامن ہڑتال کی لیکن شکاگو میں احتجاج کے تیسرے دن کچھ تشدد ہوا، پولیس نے غیرمسلح کارکنوں پر گولی چلا دی جس سے متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ اگلے روز مزید مظاہرے ہوئے اور کسی نے بم پھینک دیا۔ بم پھینکنے والے کی تو شناخت نہ ہوسکی‘ لیکن پولیس نے محنت کشوں پر گولیوں کی برسات کردی اور مزدور رہنماؤں کو گرفتار کرکے عدالت میں مقدمے چلائے گئے۔ اس مقدمے میں عدالت نے سات محنت کشوں کو پھانسی اور ایک کو عمرقید کی سزا سنائی۔ مقدمے کو غیرمنصفانہ ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کوHay Market سانحے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ سانحہ مزدوروں کے حقوق کیلئے جدوجہد کی ایک بین الاقوامی علامت بن گیا ہے۔ 1890ء سے ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ بورژوازی (Bourgeoisie) طبقے کے خلاف محنت کشوں کی جدوجہد جاری ہے۔ یکم مئی کا دن پرولتاریہ (Proletariat) کے طبقاتی مطالبات، عالمی امن اور محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور پوری دنیا میں محنت کشوں کی کامیابیوں کو منانے کا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی تک پورے امریکہ میں آٹھ گھنٹے اوقات کار کو مکمل طور پر اپنایا نہیں گیا تھا‘ لیکن شکاگو میں ہونے والے واقعات نے پورے یورپ میں اس طرح کے مظاہروں کو متاثر کیا‘ جس نے یکم مئی کو دنیا بھر کے محنت کشوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے طور پر قائم کیا۔ امریکہ میں لیبر ڈے ستمبر کے پہلے پیر کو منایا جاتا ہے۔ (اس کی وجہ 1886ء میں ہونے والے فسادات کی یاد منانے سے گریز ہے) یومِ مزدور یاد دلاتا ہے کہ محنت کشوں نے معقول کام اور منصفانہ تنخواہ، محدود اوقات کار کیلئے ایک طویل مہم چلائی، اپنی جانیں قربان کیں اس جدوجہد کے نتیجے میں کم از کم اجرت مقرر کی گئی، کام کے اوقات کی حد مقرر کی گئی، چھٹیوں اور بیماری کی تنخواہ کا حق حاصل ہوا؛ تاہم اب بھی مزدوروں کیلئے حالات مکمل طور پر سازگار نہیں ہیں خصوصاً تیسری اور چوتھی دنیا میں محنت کش طبقہ نہایت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران سے جزوقتی، قلیل مدتی اور کم تنخواہ والا کام زیادہ عام ہوگیا ہے۔ اس عالمی مالیاتی بحران میں gig economy کو عروج ملا۔ اس اکانومی میں کمپنیاں ایک وقت میں مختصر کا م کیلئے کارکنوں کو ملازمت دیتی ہیں۔ ان کارکنوں کے پاس ادا شدہ تعطیلات، کم از کم اجرت یا اوورٹائم کی تنخواہ جیسے معمول کے حقوق نہیں ہوتے۔
معیشت کے استحکام کیلئے ضروری ہے کہ بیروزگاری کی کم شرح کو برقرار رکھا جائے۔ کام کی جگہ کا بہتر ماحول محنت کشوں کو اپنی پوری استعداد کے ساتھ کام کرنے کی طرف راغب اور ان کی ذہنی آسودگی کا سبب ہوتا ہے اور کاروبار زیادہ ترقی کرتا ہے۔ صنعتی انقلاب سے قبل مزدور صرف اس چیز پر انحصار کرتے تھے جو وہ انفرادی طور پر پیدا کرسکتے تھے۔ اس کے نتیجے میں فروخت کیلئے مصنوعات کی ایک محدود تعداد سامنے آئی جس میں عام طور پر گوشت‘ اناج اور ٹیکسٹائل جیسی مصنوعات شامل تھیں۔ صنعتی انقلاب نے مصنوعات کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی بڑھائے۔ اس سب سے انسانی معاشرے نے ترقی تو بہت کی لیکن محنت کش اور مزدور کے حالات اب بھی بہت تلخ ہیں۔