مشرق وسطیٰ کی نئی صف بندی

قدیم تہذیبوں کا گہوارہ، ابراہیمی مذاہب کی جنم بھومی، اسلامی دور (بنو امیہ، بنو عباس، عثمانیہ) حکومت میں عالمی معیشت کا مرکز، پندرہ سو سال پرانا ایشیا‘ افریقہ سے یورپ تک تجارت کے لیے استعمال ہونے والا چھ ہزار چار سو کلومیٹر طویل سلک روٹ رکھنے والا مشرق وسطیٰ صدیوں سے عالمی سیاست کا مرکز رہا ہے۔
سعودی عرب، ایران اور ترکی مشرق وسطیٰ میں اہم طاقتیں ہیں۔ ان تینوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات ہمیشہ ہی اتار چڑھائو کا شکار رہے‘ جس کی بنیادی وجہ خطے میں بالادستی کا حصول اور کسی ایک فریق کی hegemony قائم ہونے سے روکنے کی خواہش ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین 1929ء میں قائم ہونے والے سفارتی تعلقات مختلف ادوار میں دوستانہ تو کبھی مخاصمت کا شکار رہے۔ 2011 کی عرب بہار کے دوران شام میں حکومت مخالف مظاہروں نے اس وقت خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی جب اس میں مقامی شدت پسند گروہوں (القاعدہ، داعش، حزب اللہ، کرد علیحدگی پسندوں) نے شمولیت اور عالمی طاقتوں نے مداخلت کی۔ شام کی خانہ جنگی میں عرب بہار کے علاوہ عرب موسم سرما، عراقی تنازع کے پھیلائو، دولتِ اسلامیہ کے خلاف بین الاقوامی فوجی مداخلت، دہشتگردی کے خلاف جنگ، ایران سعودی پراکسی وار، ایران اسرائیل پراکسی تنازع نے اپنا حصہ ڈالا اور اس ملک کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے۔ 11 سال سے جاری اس شورش میں نصف ملین سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور 36 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں۔ سیاسی سطح پر شام کی اس جنگ میں ایران اور روس کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے۔ اسی طرح یمن کے دارالحکومت پر2014 میں حوثی باغیوں کے قبضے نے ایک اور پراکسی جنگ کی راہ ہموار کی تو ایران سعودی سفارتی تعلقات مزید سردمہری کا شکار ہوگئے اور جلتی پر تیل کا کام اس وقت ہوا‘ جب 2016ء میں شیخ نمر النمر کو سعودی عرب میں پھانسی دیے جانے کے خلاف سعودی سفارتی مشن پر ایران میں مظاہرین نے حملہ کردیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر رہ گئے۔ گزشتہ سال سے اب تک عراق کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں جو اشارہ ہے کہ اب دونوں ممالک کے درمیان برف پگھل رہی ہے اور کم از کم سفارتی سطح پر تعلقات بحال ہو جائیں گے۔ اگر سعودی عرب اور ایران تعلقات میں بہتری آتی ہے تو ہم امید کرسکتے ہیں کہ شام اور یمن میں حقیقی امن بحال ہو جائے گا۔ ان ملکوں کے بے گھر واپس اپنے گھروں کو جا سکیں گے اور ان کی مشکلات میں کمی آئے گی۔ ان دونوں ملکوں کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے یمن کے گمبھیر تنازع کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
دوسری جانب سعودی عرب اور ترکی کے مابین تاریخی و ثقافتی تعلقات کی نوعیت بھی پیچیدہ ہے۔ یہ تعلقات 2011ء کی عرب بہار کے بعد برسوں تک تیونس، مصر اور لیبیا میں پیش آنے والے واقعات کی وجہ سے سرد مہری کا شکار رہے۔ جون 2017ء میں خلیجی ممالک کی جانب سے ترکی کے اہم اتحادی قطر کی ناکہ بندی کے بعد سعودی عرب کی جانب سے ترکی کی مصنوعات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ ترکی کی برآمدات میں 90 فیصد کمی کا سبب بنا تھا۔ ان اقدامات سے انقرہ ریاض تعلقات کو نقصان پہنچا۔ پھر اکتوبر 2018ء میں استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی عرب کے شہری اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے نے دونوں ملکوں کے آپسی تعلقات کو انتہائی کشیدہ کردیا۔ 2021 کے اوا ئل میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین کی جانب سے قطر پر لگائی جانے والے پابندیوں کے خاتمے نے انقرہ ریاض مفاہمت کی راہ ہموار کی جس کا جواب ترکی نے اپنی عدالت میں چلنے والے جمال خاشقجی قتل مقدمے کو سعودی عرب منتقل کرکے دیا۔ یہ وہ مثبت دوطرفہ اشارے تھے جن کی بدولت رواں سال فروری کے مہینے میں ترک صدر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور امارات کے اس دورے نے ان کے دورہ سعودی عرب کے راہ ہموار کرنے میں اہم کردا ر ادا کیا۔ اپریل کے آخری ہفتے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے سعودی عرب کا سرکاری دور کیا جس سے تعلقات میں کافی بہتری آئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی ان تینوں اہم بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے ان حالیہ رابطوں کی ایک اہم وجہ عالمی معاشی اور جیوپولیٹیکل صورتحال بھی ہے۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں کووڈ19 کی عالمی وبا کی وجہ سے امسال عالمی معیشت کی شرح افزائش چار فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کے برعکس طویل مدتی نقصانات کا سامناکرنا پڑ سکتا ہے۔ روس یوکرین جنگ سے عالمی مارکیٹ میں اشیائے خورونوش اور خام تیل و گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اگر یہ جنگ طول پکڑتی ہے تو یہ ایک اور انسانی المیے کو جنم دے گی۔ اس سارے پس منظر میں عالمی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ عالمی اور علاقائی طاقتیں realignment کر رہی ہیں۔ امریکہ نے مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسیاں اس طرح تبدیلیاں کی ہیں کہ ان کے ضمنی اثرات کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اب خطے میں نئے اتحاد اور طاقت کے نئے مرکز قائم ہونے لگے ہیں۔ سعودی امریکہ عسکری اتحاد میں پہلے سی گرمجوشی نہیں رہی۔ جو بائیڈن انتظامیہ کے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے فیصلے نے مسلم ممالک‘ خصوصاً افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو مخمصے کا شکار کر دیا ہے۔ ایران کی شرط تھی کہ جوہری معاہدے میں واپسی کیلئے اس کے سول جوہری پروگرام پر سے پابندیاں ختم کی جائیں۔ ان پابندیوں کو ختم کرکے امریکہ نے ایران کی شرط مان لی ہے‘ جو ایک اہم پیشرفت ہے۔ اب 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی ممکن نظر آرہی ہے۔ حوثی باغیوں کے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ حملوں نے جہاں ایک طرف سعودی عرب کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کیا وہی ان حملوں پر خلیج میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی کے باوجود صرف لفظی ردعمل نے عرب اتحاد کو یمن میں امن قائم کرنے کیلئے متحارب دھڑوں سے مذاکرات کی طرف راغب کیا۔ جو بائیڈن حکومت کی پالیسیوں اور افغانستان سے فوجی انخلا نے خطے کے ممالک کو اپنی جیوپولیٹیکل پالیسیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے بارے میں سوچنے پر مجبورکیا ہے۔ ایسے میں سعودی عرب کے ایران اور ترکی سے تعلقات کی بہتری کیلئے بات چیت ایک مثبت قدم ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے نظریہ ریئل ازم کے مطابق ریاستیں اپنی حفاظت اور زیادہ سے زیادہ مفادات کے حصول کیلئے کام کرتی ہیں‘ لیکن بین الاقوامی نظام کا حصہ ہونے کے ناتے وہ طویل مدتی فوائد کے حصول اور پیچیدہ مسائل کو روکنے کیلئے اپنے مفادات پر سمجھوتہ بھی کرتی ہیں۔ سعودی عرب، ایران اور ترکی اس خطے میں ایک ایسی مثلث بناتے ہیں جس کے متحارب ماضی کی جڑیں مشرق وسطیٰ میں بہت گہری ہیں جو اس پورے خطے کو مستحکم یا غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔ جس طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پانچ بڑی طاقتوں کو عالمی تنازعوں کے حل کیلئے ویٹو کے اختیارات دیئے گئے ہیں اسی طرز کا میکنزم اسلامی تعاون تنظیم میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے۔ اس طرح او آئی سی فعال ہو جائے گی اور کسی ایک فریق کی بالادستی کو قبول کرنے کے بجائے افہام و تفہم سے خطے میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو سکے گا۔ مسلم امہ کے باہمی اختلافات کے خاتمے کی راہ بھی نکل سکے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں