قدرتی آفات‘ مہنگائی اور غذائی قلت

وسط جون سے جاری بارشوں سے مجموعی طور سے ملک کے 116 اضلاع متاثر ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومتوں نے ان اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ ان غیر معمولی بارشوں کے سبب آنے والے سیلاب سے 18 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ اب تک900 سے زائد لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بلوچستان‘سندھ اور پنجاب کے دیہی علاقوں میں لگائے جانے والے امدادی کیمپوں میں متاثرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ مال مویشیوں کو پہنچنے والا نقصان کہیں زیادہ ہے۔ مواصلات کے بنیادی ڈھانچے کو ان سیلابی ریلوں نے بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ رابطہ سڑکوں‘پلوں‘ رہائشی مکانات اور دیگر نجی و سرکاری عمارتوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کھڑی فصلیں اور محکمہ خوراک و زراعت کے گوداموں میں ذخیرہ کی گئی اجناس‘ گوداموں میں پانی بھر جانے کے باعث ضائع ہو گئی ہیں۔ فصلوں کی تباہی اور گوداموں میں موجود اجناس کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات غذائی اجناس کی قلت کی صورت میں آئندہ مہینوں میں ظاہر ہونا شروع ہوں گے اور مہنگائی جو پہلے ہی بے قابو ہو چکی ہے اس میں مزید اضافے کا سبب بنیں گے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے خطے میں سری لنکا کے بعد پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ شماریات بیورو کی جولائی کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں افراط زر کی شرح میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں24.9 فیصد اضافہ ہو چکا جبکہ خطے کے دوسرے ممالک جیسے بھارت میں افراط زر کی شرح6.3‘ نیپال میں8.08‘ مالدیپ میں5.2‘ بنگلہ دیش میں7.5‘ بھوٹان میں5.95 فیصد جبکہ سری لنکا میں یہ شرح60.8 فیصد ہے۔ 2019ء میں پاکستان میں کیے جانے والے غذائی سروے کے مطابق ملک میں ایک تہائی سے زائد بچے خوراک کی کمی کا شکار تھے۔ ان بچوں میں بڑی تعداد صوبہ سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں37 فیصد گھرانوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ یہ رپورٹ کووڈ کے لاک ڈاؤن سے پہلے کی ہے۔ اس وبائی مرض کے دوران غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے گھرانوں میں مزیداضافے کو ظاہر کرنے والی رپورٹ تا حال منظر عام پر نہیں آ سکی۔ حالیہ بارشوں اورسیلاب سے ہونے والی تباہی اور مہنگائی غذائی عدم تحفظ اور غربت میں کئی گناہ اضافے کا سبب بنے گی اور اندیشہ ہے کہ ایک انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔
عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھا جا رہا ہے جو کہ لاکھوں افراد کو غذائی عدم تحفظ کا شکار بنا دے گا۔ یوکرین روس جنگ‘ سپلائی چین میں رکاوٹیں‘ وبائی امراض اور موسمیاتی آفات عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک پر زیادہ اثر پڑے گا۔ ورلڈ بینک کی2022 ء کمو ڈٹی مارکیٹس آؤٹ لک کے مطابق یوکرین روس جنگ نے تجارت‘ پیداوار اور اشیا کی کھپت کے عالمی نمونوں کو اس طرح تبدیل کر دیا ہے کہ2024 ء کے آخر تک قیمتیں تاریخی طور پر بلند سطح پر رہیں گی جس سے غذائی عدم تحفظ اور افراطِ زر میں مزید اضافہ ہوگا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزشن (FAO) نے خبردار کیا ہے کہ جون سے ستمبر کے دوران غذائی عدم تحفظ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ خوراک کی قلت کے شکار116 ممالک میں پاکستان کا92واں نمبر ہے۔ حالیہ بارشوں سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے بعد خوراک کی قلت کے گوشوارے میں ہمارا نمبر کون سا ہوگا‘ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر آنے والی خبریں اور تصاویر انتہائی درد ناک حال اور مستقبل کی صورت گری کر رہی ہیں۔ آفت زدہ قرار دے دینا‘ امدادی پیکیج کا اعلان اور اس طرح کے دیگر اقدامات وقتی ریلیف تو فراہم کرتے ہیں لیکن ہم اگراپنے ملک کو مضبوط اور ترقی یافتہ بنانے کے خواہش مند ہیں تو ان شارٹ ٹرم اقدامات سے آگے بڑھ کر طویل مدتی منصوبہ بندی کرنا ہوگی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے بہتر طور پر مقابلہ کر سکیں‘ ملکی وسائل کو محفوظ اور اپنے لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنا سکیں۔
کووڈ ودیگر وبائی امراض‘ موسمیاتی تبدیلیاں‘ قدرتی آفات‘ ٹڈی دَل کے حملوں اور عالمی تنازعات کی وجہ سے غذائی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ افسوس ناک ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت823 ملین سے زیادہ انسانوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ حقیقی انسان ہیں جو بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں زرعی پیداوار کی شرح زیادہ خراب ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے غذائی اجناس کا بحران خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ دنیا کی معیشت نے یوکرین جنگ‘ موسمیاتی آفات‘ یورپ کے دوتہائی علاقے میں حالیہ خشک سالی جیسے عوامل کے امتزاج سے ایک نئی اور خطرناک صورت اختیار کر لی ہے جس کے حقیقی اثرات اگلے سالوں میں ظاہر ہوں گے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں جن میں موسم سرما میں مزید اضافہ متوقع ہے‘ کھادوں کی پیداوار کو بھی متاثر کریں گی۔ نائٹروجن کھاد اچھی فصل اور زیادہ پیداوار کے لیے اہم ہوتی ہے‘اس کے قلت زرعی پیداوار پر منفی اثرات ڈالے گی۔
ہم پاکستانیوں کے لیے مون سون کی بارشیں کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے ہونے والی تباہی کا ہم پہلی مرتبہ سامنا کر رہے ہیں۔ تقریباً ہر دو یا تین سال کے بعد اس سیزن میں شدید بارشیں ہوتی ہیں جو کہ پورے جنوبی ایشیا بشمول پاکستان میں نقصانات اور سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے اور اس تجربے سے بار بار گزرنے کے باوجود اس موسم سے بہ طریق احسن نبردآزما ہونے سے قاصر ہیں۔ چند بنیادی چیزوں پر بروقت توجہ دی جائے تو ایسی صورتحال سے بچا جا سکتا ہے‘ مثلا ترقی یافتہ ممالک سے وابستہ صرف ایک مثال سامنے رکھیں کہ وہاں پر جب بھی کسی آبادی میں چھوٹی یا بڑی سڑک یا گلی تعمیر یا مرمت کی جاتی ہے تو اس کی سطح ہر دفعہ پتھر ڈال کر اوپر نہیں کی جاتی بلکہ سو سال پہلے بنی سڑک اور گلی کی مرمت کرتے ہوئے اس کی پرانی سطح کوبرقرار رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ زبردست گہرا نکاسی کا نظام بنایا جاتا ہے جس سے شدید بارشوں کے باوجودان کی سڑکوں اور گلیوں میں جمع ہونے والا پانی گھروں اور بازاروں میں داخل نہیں ہوتا‘جبکہ ہمارے ہاں ہر دفعہ سڑک یا محلے کی گلی کی تعمیر ہو یا مرمت اس کی سطح اونچی ہوتی جاتی ہے اور شہرا ور رہائشی علاقے نیچے ہوتے جاتے ہیں اور بارش کا پانی مکانات میں داخل ہو جاتا ہے۔ دوسرا نکاسی کے نظام کی منصوبہ بندی اورتعمیر کے وقت شدید بارشوں کو زیر غور نہیں رکھا جاتا‘ اس لیے شدید بارشوں کے بعد کچی آبادیاں تو دور کی بات اکثر چھوٹے بڑے شہروں کے گھروں اور بازاروں میں بارش کا پانی نہ صرف داخل ہو جاتا بلکہ جانی و مالی نقصان کا سبب بنتا ہے۔ ضلعی سطح پر انتظامیہ میں آبپاشی سے وابستہ عملہ‘ تحصیل دار پٹواریوں کے پاس اپنے علاقے کی مکمل آبادی اور اراضی کی فطری طور پر موجود اونچائی‘ ڈھلان‘ ندی نالوں کے بہاؤ کا ریکارڈ نقشوں کی صورت میں موجود ہوتا ہے‘ کسی بھی نئی کچی و پکی تعمیرات کے وقت اگر یہ محکمہ باقاعدہ مستعدی سے کام کرے تو اس طرح کے شدید نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غذائی قلت کے پیش نظر بھی سرکارا ور عوام کو مل کر ذمہ داریوں کو نبھانا ہوگا‘ اتنی شدید بارشوں کے بعد ماہرین شدید خشک سالی کا خطرہ ظاہر کر رہے ہیں اس لیے بارشوں کے پانی کوضائع ہونے سے بچانے کا لائحہ عمل تیار کر نے اور وافر مقدار میں پیدا ہونے والے اناج کو محفوظ کرنے والے گوداموں کی ازسرنو تعمیر اورشہری خدمت کے اداروں کو بہتر بنانا ہو گا تاکہ آج جس المناک تباہی کا سامنا ہمیں ہے مستقبل میں اس سے بچا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں