سیلاب زدگان کی پکار

ہمدردی‘ ایثار‘ محبت‘ مدد‘ معاونت اور سخاوت یہ وہ جذبات ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیتے ہیں۔ سخاوت اور دوسروں کی مدد کرنے کی جڑیں ہماری حیاتیات اور ارتقائی تاریخ میں پیوست ہیں۔ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنا اور ہمدردی کا جذبہ انسان کی مثبت اور تعمیری جبلتوں میں سے ایک ہے۔ یہ انسانی فطرت میں شامل ہے کہ وہ دوسروں کے دکھ درد اور تکلیف کو محسوس کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ دنیا کی تمام ثقافتوں میں مدد‘ سخاوت اور ایک دوسرے کے دکھ بانٹنے کی روایات نہ صرف موجود ہیں بلکہ بہت مضبوط ہیں۔ تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو 2500قبل مسیح میں بھی فلاحی کام کرنا ایک خاصیت تھی اور جسے لوگ بہت اہمیت دیتے تھے۔ 500قبل مسیح میں لفظ انسان دوستی (Philanthropy) پہلی بار اسکلیس (Aeschylus) کے ڈرامے پرومیتھس باؤنڈ (Prometheus Bound) میں نمودار ہوا۔ یہ وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے ''انسان دوستی‘‘ کے آغاز کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے رجوع کرتے ہیں۔ یہ لفظ قدیم یونانی لفظ Philanthropia سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: لوگوں سے محبت کرنا۔ دنیا کے ہر مذہب نے انسانیت کی بلا تفریق خدمت کی تلقین کی ہے‘ ضرورت مندوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد ہر مذہب کی بنیادی تعلیم کا خاصہ ہے۔
اللہ کی مخلوق کے لیے محبت‘ ایثار کا رویہ رکھنے کو اسلام میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن پاک کی سورۃ البقرہ کی آیت 265 کا ترجمہ ہے کہ ''اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے‘ اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو‘ اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ مصیبت زدہ‘ یتیموں‘ مسکینوں اور حاجت مندوں کی مدد کرنے کا ایک پورا منظم ضابطہ اسلام نے واضح کیا ہے۔ حدیثِ نبوی ہے کہ ''تم اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو‘‘ ( صحیح بخاری)۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریمﷺ نے مہاجرینِ مکہ اور انصارِ مدینہ کے درمیان اخوت کا جو رشتہ قائم کیا وہ مواخات رہتی دنیا تک ہمارے لیے ایسی قابلِ تقلید مثال ہے کہ جس پر عمل کرکے ہم سرخرو ہو سکتے ہیں۔ دینِ اسلام میں بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے حقوق العباد کی تعلیمات انسانی فلاح و بہبود کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ایک مہذب معاشرے کا رکن ہونے کے ناتے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ اگر ہماری ہمدردی و مدد سے کسی کی جان بچ سکتی ہے‘ کسی کی مشکل آسان ہو سکتی ہے تو یہ ہمارے لیے روحانی تسکین کا سبب ہوتا ہے۔ دین اسلام میں اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال میں سے اس کی خوشنوی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنا ایک خاص اور اہم حیثیت رکھتا ہے۔
دوست ممالک کی جانب سے دی جانے والی امداد درحقیقت قوم پر اخلاقی قرض ہوتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ترکیہ جب آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو اس وقت برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے ان کے لیے عطیات‘ امدادی سامان اور طبی عملہ بھیجا جس کا ذکر آج بھی ترک بڑی محبت سے کرتے ہیں۔ 2010ء کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ترکیہ کے وزیراعظم (موجودہ صدر) جناب رجب طیب اردوان‘ ترک خاتونِ اول محترمہ امینہ اردوان کے ہمراہ پاکستان کے خصوصی دور پر آئے تھے۔ محترمہ امینہ نے اپنا ہار یہ کہتے ہوئے سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کیا تھا کہ 1920ء میں برصغیر کی مسلم خواتین نے اپنے زیورات بیج کر اپنے ترک بہن بھائیوں کی مدد کی تھی۔ پوری دنیا اس وقت بھی پاکستان میں آنے والی آفت پر افسردہ ہے۔ دوست ممالک (ترکیہ‘ سعودی عرب‘ کویت‘ قطر‘ آذربائیجان‘ متحدہ عرب امارات‘ امریکہ‘ برطانیہ) اور عالمی تنظیموں کی جانب سے امداد کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ ترکیہ اور عرب امارات سے جہاز امدادی سامان لے کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچ چکے ہیں۔ حکومتی اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کام کرنے والی NGOsاور دیگر فلاحی انجمنیں بھی متاثرین کی مدد کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
آج وطنِ عزیز کا 60فیصد حصہ طوفانی بارشوں کے سبب زیر آب ہے۔ تین کروڑ 30لاکھ سے زیادہ آبادی اس قدرتی آفت سے متاثر ہوئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سیلاب کے نتیجے میں کم از کم 10 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو اور بحالی کے عمل میں پانچ برس لگ سکتے ہیں۔ فی الحال تو ریسکیو کا کام جاری ہے۔ بڑا چیلنج پانی کے اُتر جانے کے بعد درپیش ہوگا جب بحالی کا کام شروع ہوگا۔ اب بطور فرد‘ خاندان اور قوم ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ بحالی کے کام کے دوران حکومتی اداروں اور فلاحی انجمنوں کی دل کھول کر مدد کریں تاکہ سیلاب زدگان اپنے علاقوں میں واپس جاکر آباد ہو سکیں۔
قدرتی آفات کو روکا تو نہیں جا سکتا لیکن اُن سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ بارشیں دنیا بھر میں ہوتی ہیں اور سیلاب بھی آتے ہیں لیکن ان سے ہونے والے نقصان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر چین نے 2017ء کے سالانہ بجٹ میں سیلاب کے انتظام کے منصوبوں کے لیے 144بلین ڈالر مختص کیے گئے تھے۔ چین میں اس وقت پانی ذخیرہ کرنے کے لیے 23 ہزار ڈیم موجود ہیں اور وہ تبت میں ایک بڑا ڈیم بنا رہا ہے۔ انڈیا میں پانچ ہزار کے قریب ڈیم ہیں‘ امریکہ میں نو ہزار‘ ترکیہ میں ایک ہزار، ایران میں چھ سو اور زمبابوے میں 256 ڈیمزہیں۔ پاکستان میں سالانہ 140 ملین ایکڑ فٹ پانی آتا ہے اور ہم صرف 13اعشاریہ 5ملین ایکڑ فٹ پانی ملک کے 150چھوٹے بڑے ڈیموں میں سٹور کر پاتے ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کو مؤثر طور پر استعمال کرنے اور سیلاب سے تحفظ کے لیے برطانوی عہد میں بڑی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ نوآبادیاتی عہد میں دریائے سندھ کے پانی سے صوبہ سندھ کے خشک جنوبی حصے کو سیراب کرنے کے لیے وسیع سکھر بیراج تعمیر کیا گیا تھا جس سے 40 لاکھ کیوسک پانی گزر جاتا تھا‘ آج Siltبھر جانے کی وجہ سے 10لاکھ کیوسک پانی بھی خطرہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح 60 اور 70 کی دہائی میں تعمیر کیے جانے والے منگلا اور تربیلا ڈیموں کی گنجائش Silt بھر جانے کی وجہ سے کم ہو رہی ہے۔ موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیاں جس تیزی کے ساتھ دنیا کو متا ثر کر رہی ہیں اس خطرے کے پیشِ نظر سائنسدانوں نے وارننگ جاری کی ہے کہ گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں اس سے بڑے سیلاب آئیں گے۔ مستقبل قریب و بعید میں آفات سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ بارش خدا کی رحمت ہے‘ رحمتِ خدا وندی کو ہماری بدانتظامی زحمت میں بدل دیتی ہے۔ سیلاب کی تباہی سے قوم مشکل دور سے گزر رہی ہے لیکن متحد اور یک جان ہے‘ اس لیے یہ وقت ہے تو سخت مگر گزر ہی جائے گا کیوں نا دیگر اقوام کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی سطح پر اس معاملے میں ایسے مؤثر فیصلے کیے جائیں جن سے مستقبل میں قوم شدید بارشوں اور ان سے آنے والے سیلاب کو قدرتی آفت کے بجائے قدرتی نعمت محسوس کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں