جمہوریت و جمہوری اقدار

جمہوریت صرف انتخابات کا ہی نام نہیں بلکہ یہ عوامی مسائل کے حل کیلئے بہترین نظام ہے۔احتساب اچھی جمہوریت کا سنگ بنیاد ہے۔بہتر طور پر کام کرنے والی جمہوریت میں احتساب سے مراد چیک اینڈ بیلنس کا ایسا نظام ہے جس کے ذریعے شہری‘ سیاسی جماعتیں‘ پارلیمنٹ اور دیگر جمہوری عناصر عوامی پالیسیوں کو ترتیب دینے اور نافذ کرنے کے ذمہ دار منتخب عہدیداروں پر کڑی نظر رکھ سکتے ہیں۔ احتساب کا مناسب طریقہ کار حکومتوں کو اپنے شہریوں کے بہترین مفاد میں کام کرنے کیلئے مراعات بھی فراہم کرتا ہے۔ 2019 ء میں'' احتساب کے بغیر جمہوریت نہیں‘‘ کے موضوع پر برسلز میں منعقد ہو نے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کو سیاست میں پیسے اور مختلف طرح کی بدعنوانی کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ قانون کی حکمرانی‘ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات‘ اظہار ِرائے کی آزادی اور پریس کی آزادی ایک صحت مند جمہوری ماحول کیلئے ناگزیر ہیں۔ آزاد میڈیا‘ جمہوریت کو در پیش چیلنجوں سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
آزادی کی خواہش انسان کی اولین خواہشات میں سے ایک ہے۔آمریت‘ ملوکیت اور بادشاہت کے شکنجوں میں جکڑے انسان کو جمہوریت نے اپنے آپ پر خود حکومت کرنے کی نوید دی۔جمہوریت ایک ایسا طرزِ حیات ہے جس کے تحفظ‘استحکام اور توسیع کے لیے جہدِ مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل (3)21 کے مطابق عوام کی مرضی حکومت کے اختیارات کی بنیاد ہوگی۔ عوام کو اپنی مرضی کا اظہار کرنے کا موقع متواتر اور حقیقی انتخابات کے انعقاد کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت ایک رویے اور سوچ کا نام ہے اس کی بنیاد اکثریت کی رائے کے احترام پر ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی طرزِ حکومت ہے جو عوام کو حقوق دیتی ہے۔ خاص طور پر ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے ایسی حکومت تشکیل دینا جو اِن کے مفادات کا تحفظ کرے۔انصاف‘ امن‘ ترقی اور انسانی حقوق کی فراہمی کیلئے پارلیمنٹ اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مساوی سلوک اور شراکت جمہوریت کے اہم جزو ہیں۔ جمہوریت ایک عمل‘مسلسل سفر اور فیصلہ سازی کا نظام ہے جو ہر کسی کی رائے کو مدنظر رکھتا ہے۔ جمہوری عمل جتنا بہتر ہوگا اتنا ہی درست طریقے سے لوگوں کی رائے کی نمائندگی کرے گا۔ حقیقی جمہوریت عوام کو طاقت دیتی ہے یہ تبدیلی اور مساوات پر مبنی ہے جو سول سوسائٹیز اور سیاسی طبقات کے درمیان مکالمے کے ذریعے پالیسی سازی کرتی ہے۔جمہوری معاشروں کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں ضرورت پڑنے پر تبدیلی لانے کی طاقت پنہاں ہوتی ہے۔ یہ ایک عالم گیر قدر ہے جو لوگوں کو اپنی سیاسی‘ اقتصادی خود مختاری کا تعین کرنے کی آزادی دینے کے علاوہ اظہار خیال‘ سماجی‘ ثقافتی نظام اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں ان کی مکمل شرکت پر مبنی ہے۔
آج دنیا کے 167 ممالک میں جمہوریت کسی نہ کسی صورت میں نظام حکومت کا حصہ ہے۔ جمہوریت ایسا سیاسی نظام ہے جس میں تمام ارکان کو فیصلہ سازی کا برابر حق حاصل ہوتا ہے۔ جدید جمہوریت میں فیصلہ سازی کا یہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ سیاسی تھیورسٹ جان کین کے مطابق تیسری صدی قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا کی تہذیبی وراثت جمہوریت اور جمہوری نظام کا نقش اولین ہے۔میسوپوٹیمیا‘سمیر اور مصر کے بہت بعد یونان نے باقاعدہ طور پر اپنے پیچیدہ معاشرتی اور سیاسی ادارے قائم کیے۔ میسوپوٹیمیاکی قدیم تہذیب کے قریب ہی انڈس ویلی‘ اناطولیہ اور چین کی قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے قدیم آثار اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ اس وقت بھی یہاں شہری حکومتوں کا نظام نافذ تھا۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے مشہور سمیری بادشاہ گلگامش نے شہری کونسلیں قائم کیں‘ یہ کونسلیں مجلس بزرگان اور مجلس نوجوانان پر مشتمل تھیں۔ شاہ گلگامش نے اپنے تمام اختیارات ان کونسلوں کے حوالے کردیے تھے جو نظام حکومت کو بہتر طور پر چلانے کیلئے فیصلہ سازی کا اختیار رکھتی تھیں۔ جمہوریت کے ارتقائی سفر کا دوسرا سنگ میل چھٹی صدی قبل مسیح میں برصغیر کی دو آزادریاستوں''سنگاز‘‘ اور ''گاناز‘‘ سے ملتا ہے۔ یونانی جمہوری قوانین کابانی شاعر و قانون دان سولون (Solon) کو ماناجاتا ہے۔ سولون نے یونان کو وہ جامع قانون دیا جس نے سقراط‘ افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفیوں کو جمہوری نظام حکومت کے خدوخال پر غور و فکر کی تحریک دی۔ تیرہویں صدی قبل مسیح کی رومی سلطنت کو پہلی باقاعدہ جمہوری ریاست سمجھا جاتا ہے۔سیاسی مفکرین رومن جمہوریت کے ماڈل کو یونانی ماڈل پر ترجیح دیتے ہیں۔ 1215ء میں برطانیہ اور سکاٹ لینڈ میں پہلا منشور کبیر(Magna Carta ) طے پایا۔ جس کے بعد برطانوی پارلیمنٹ وجود میں آئی۔ برطانوی پارلیمنٹ اور جمہوریت کو آج دنیا میں قدیم ترین جمہوری نظام ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ برطانوی جمہوریت نے وقت و حالات کے ساتھ خود کو ڈھالنے کیلئے اپنے اندر لچک کو ہمیشہ برقرار رکھااورصنعتی انقلاب نے برطانوی جمہوریت کو مزید مستحکم کردیا۔
پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وفاقی اکائیوں کا امتزاج ہونے کے باوجودملک میں جمہوری اقدار‘ زیادہ پختہ نہ ہو سکنے کا سبب ماضی کی جمہوری حکومتوں کو بار بار غیر سیاسی قوتوں کی طرف سے معطل کیا جانا بھی ہے۔ پاکستانی سیاست کافی متلون رہی ہے جس میں نئی وفاداریاں اور اتحاد وجود میں آتے رہتے ہیں اور مخصوص حالات کے پیش نظرسیاسی وابستگیوں میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک تسلسل کے ساتھ سویلین اور فوجی حکومتوں نے عوام کو فیصلہ سازی کے عمل سے باہر رکھا ہے۔ ذاتی یا گروہی مفادات کے حصول کیلئے عوامی فلاح کو پس پشت ڈال دیا گیا اس سے ملک میں صرف غیر جمہوری ہی نہیں بلکہ آمرانہ اقدار کو فروغ ملا ہے۔کسی بھی ملک کی آزادی و خود مختاری کا انحصار اس کی معیشت پر ہوتا ہے۔اگر ملک اپنے اپنے وسائل سے اپنے مسائل حل کر سکے تو وہ ملک کامیاب کہلاتا ہے‘مگر ہمارے ملک کی معیشت اتنی کمزور ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے قرض پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ سابقہ قرضوں کو چکانے کیلئے ہر حال میں مزید اور سخت شرائط پر قرض لینا مجبوری بن چکا ہے۔وہ عناصر جو ملک میں جمہوریت کیلئے خطرہ ہیں ان میں حکومت چلانے کا شفاف نظام اور قانون کی حکمرانی کا فقدان سر فہرست ہے۔ عوامی نمائندہ حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایمان داری اور بلا تعصب عوامی خدمت کرے گی اگر حکومتی نمائندے ایسا نہ کریں تو لوگ حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت سے بھی بدگمان ہوجاتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت کی بقا گڈ گورننس ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا فقدان ہے۔نظریات یا جماعتی اداروں کے بجائے شخصیات ہمارے سیاسی کلچر میں کلیدی حیثیت کی حامل ہیں ا ور ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیاں۔ شخصیات کے گرد گھومتی ہیں یہ وہ محرک ہے جو معاشرے میں جمہوری رویوں کو پنپنے نہیں دیتا۔ پارلیمانی سیاست میں پیسے کا بڑھتا عمل دخل پاکستانی جمہوریت کو داغ دار بنارہا ہے۔ جب عوام میں یہ تاثر پروان چڑھنے لگے کہ سیاست عوامی مقاصد کے تحت نہیں کی جارہی تو پھر جمہوری نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔جب تک اختلاف کو ایک پسندیدہ عمل سمجھ کر قبول اور برداشت نہیں کیا جائے گا جمہوری رویے اور اقدار فروغ نہیں پا سکتے۔ لوگوں کا جمہوری ڈھانچے پر اعتماد صرف اختلاف کی سیاست سے ابھرتا ہے۔اعتماد وہ عنصر ہے جو کسی بھی نظام کو چلانے کیلئے اہم ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی نظام اور حکومتوں پر عوام کا اعتماد کم ہورہا ہے جو جمہوریت کیلئے اچھا شگون نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں