اے عشق ازل گیر و ابد تاب میرے بھی ہیں کچھ خواب
میرے بھی ہیں کچھ خواب
اس دور سے اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے
پھیلے ہوئے صحراؤں سے اور شہروں کے ویرانوں سے
ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!
اے عشق ازل گیر و ابد تاب
میرے بھی ہیں کچھ خواب!
وہ خواب ہیں آزادیٔ کامل کے نئے خواب
ہر سعی جگردوزکے حاصل کے نئے خواب
اس منفرد اور غیر روایتی نظم کے تخلیق کار ن م راشد کو جہانِ فانی سے کوچ کیے آج 47برس بیت گئے ہیں لیکن دنیا کے سماجی مسائل میں کوئی تبدیلی اور انسان کی تکالیف میں کمی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی سے جڑی اس دانشور کی شاعری آج بھی انسانی مسائل اور الجھنوں کی آواز ہے۔ بارشوں اور سیلاب میں زندگی کی جمع پونجی کی تباہی کے بعد اب وبائی امراض میں گھرے ہوئے بے بسی کی تصویر بنے ان انسانوں کے بھی کچھ خواب تھے۔ خواب ہی امید کی کرن ہیں جن پر دنیا قائم ہے۔ راشد کے ہاں خواب فقط ایک لفظ ہی نہیں بلکہ ایک ایسی علامت ہے جو ان کی شاعری میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کا ہر لفظ دل کی آواز ہے جس میں انسانی ذات کے اجتماعی کرب و تکلیف کا عکس موجود ہے۔ وہ شاعری کو شعبدہ بازی و ذہنی تلذذ سے آگے بڑھ کر ایک وسیع تر انسانی منظر نامے کا ترجمان بناتے ہیں۔ راشد کا فن انسان کی امیدِ نوکا عکاس ہے۔
1958ء کے مارشل لا کے دوران آزادیٔ تقریر و تحریر پر پابندی کے خلاف راشد نے نظم ''اسرافیل کی موت‘‘ لکھ کر صدائے احتجاج بلند کی۔ ایران میں ڈاکٹر مصدق نے جب برطانوی تیل کی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو ان کی حکومت کو ختم کردیا گیا۔ ملائیشیا میں مارشل لاء کو مغرب کی پشت پناہی حاصل رہی‘ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست اور خود کو جمہوریت کا علم بردار کہنے والے مغرب کی جانب سے آمر حکمرانوں کی مدد جیسے اقدامات کے خلاف راشد کی شاعری میں جابجا موجود احتجاج عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر کی گواہی ہے۔ اردو کے معروف دانشور کی شاعری کا مطمح نظر انسان کی آزادی رہا۔ ایران میں قیام کے دوران ان کے سامراج مخالف نظریات کو مزید تقویت ملی۔ فلسطینیوں کی تحریکِ مزاحمت جب زور پکڑ رہی تھی تو راشد ایسے میں استعمار کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نظم ''دل میرے صحرا نورد پیر دل‘‘ میں کہتے ہیں:
آج بھی اس ریگ کے ذروں میں ہیں
ایسے ذرے آپ ہی اپنے غنیم
آج بھی اس آگ کے شعلوں میں ہیں
وہ شرر جو اس کی تہہ میں پر بریدہ رہ گئے
مثل حرف ناشنیدہ رہ گئے
صبحِ صحرا اے عروسِ عزوجل
آ کہ ان کی داستاں دہرائیں ہم
ان کی عزت ان کی عظمت گائیں ہم
راشد کاکمال یہ ہے کہ اس سب کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کبھی بھی اپنی ادیبانہ ذمہ داریوں کو فراموش نہیں کیا اور فنی جمالیات کا خیال ہر قدم پر رکھتے ہوئے فنی اظہار کو پروپیگنڈا نہیں بننے دیا۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو ن م راشد کو عام ترقی پسند شعرا سے منفرد بناتا ہے۔ ان کی نظمیں انسانی نفسیات کا احاطہ کرتی ہوئی ملتی ہیں۔ ان کی سوچ و فکر اپنے عہد کی کسی سیاسی و ادبی تحریک کی مرہون منت نہ تھی بلکہ وہ اپنے عہد کے زندہ مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں۔ راشد آگ کی علامت کو تیسری دنیا میں آزادی اور حریت کی تصویر گری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اجتماعی ذمہ داری کا احساس راشد کے کلام کا خاصہ ہے ان کی نظموں کے کردار معاشرے کے مثالی کردار نہیں ہیں بلکہ ان کے کرداراپنے ارد گرد سے غیر مطمئن‘ انتشار کا شکار اور معاشرے کے اجتماعی المیے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ راشد کی شاعری اپنے عہد کے سیاسی‘ سماجی‘ تہذیبی و معاشی مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتی ہے بلکہ وہ مستقبل کی دنیا میں انسان کو درپیش مسائل و الجھنوں کا بھی پتا دیتی ہے۔ انہوں نے خارجی واقعات کی تصویر کشی میں اندازِ بیان معروضی نہیں رکھا بلکہ خارجی مسائل کو وجود کی داخلی سطح سے ہم آہنگ کیا ہے۔
راشد نے غزلیں بھی کہیں لیکن ان کی پہچان آزاد نظم ہے۔ ان کی طرز کی آزاد نظم نہ تو کسی نے ان سے پہلے کہی اورنہ ان کے بعد۔ آزاد نظم کے تخلیق کار راشد کے پورے کلام میں ایک بھی ایسا مصرع نہیں جو وزن سے خارج ہو۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''ماورا‘‘ 1942ء میں منظر عام پر آیا۔ اس میں شامل نظمیں ایسی ہیں کہ جہاں آزاد نظم باقاعدہ طور پر متعارف ہوتی نظر آتی ہے۔ ذہنی الجھنوں اور انسانی نفسیات کو راشد اپنا موضوع بناتے ہیں۔ ''ماورا‘‘ کی اشاعت سے اردو کی ادبی دنیا میں ایک ہلچل پیدا ہوئی‘ ماورا میں صرف نثری یا آزاد نظم کی حد تک روایت سے انحراف نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس میں راشد نے ردیف و قافیہ سے ماورا ہوکر تجریدی‘ علامتی شاعری کی اور تکنیک میں نئے تجربے کیے تھے۔ جو اردو شعر و ادب کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں پتھر کی مثل ثابت ہوئے۔ ن م راشد کی نظمیں اس دور کی مروجہ شاعری سے منفرد و مختلف ہیں ان میں افسانوی اور ڈرامائی انداز کے جدید اسالیب نے ادب کے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور نقادوں کی تنقید کے باوجود راشد کے معاصرین و متاخرین نے ان کی تقلید کی بھرپور کوششیں کیں۔
ن م راشد کا دوسرا شعری مجموعہ ''ایران میں اجنبی‘‘ 1955ء میں شائع ہوا جس کا مرکزی موضوع تہذیبی زوال ہے۔ مشرق سے راشد کو گہرا تہذیبی و فکری لگاؤ تھا؛ چنانچہ وہ اسی ماحول میں سیاست و معاشرت کا تجزیہ کرتے ہیں۔ وہ افراد کی ذہنی شکستگی اور اعصابی تھکن کو محسوس کرتے ہوئے شعر میں اس کا علامتی اظہار کرتے ہیں اور ادراک قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ''لا = انسان‘‘ 1969ء میں شائع ہوا جس کا موضوع زندگی اور انسان ہیں۔راشد حقیقی معنوں میں ایک بڑے تخلیق کار تھے جنہوں نے اپنے فن و فکر سے انسانیت کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کی سعی کی۔ ان کا چوتھا اور آخری شعری مجموعہ ''گمان کا ممکن‘‘ ان کی وفات کے بعد‘ 1977ء میں شائع ہوا جس میں ان کا فن پختگی کے عروج پر نظر آتا ہے۔ آگ‘ خواب‘ شہر‘ ریت‘ ریگ‘ سمندر‘ رات‘ ساحل‘ صدا وغیرہ ایسی علامتیں ہیں جس سے ان کی شاعری میں دیومالائی تمثال نگاری کا عنصر شعوری معنویت کے ساتھ موجزن ہے۔ راشد نے شاعری میں علامتی کردار بھی تخلیق کیے جیسے ''اندھا کباڑی‘‘ یا ''حسن کوزہ گر‘‘ وغیرہ۔ راشد کی نظموں کی فضا میں پُراسراریت موجود ہے۔ یادِ ماضی‘ ناتمام خواہشیں اور داستانیں‘ قافیہ اور ردیف کی غیرموجودگی کے باوجود ان کی نظموں میں روانی کا محرک ہیں۔ راشد کے کلام میں تشبیہات‘ تلمیح اور استعارے ایک نیا رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہیں۔
فرد کے داخلی اضطراب اور معاشرے کے اجتماعی درد کو اپنے کلام میں سمونے والے ن م راشد مساوات پر مبنی معاشرے کے خواہش مند تھے جس میں سب ایک غیر منقسم انسانیت میں ابدی اخلاقی معیارات پر فائز ہوں۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں جبر اور تفریق نہ ہو‘ وہ ایک ایسی دنیا کے متلاشی تھے جہاں رنگ‘ نسل‘ زبان و مذہب سے قطع نظر مساوات و انسانیت کا راج ہو۔ اس خواب کی تعبیر کے وہ ہمیشہ متمنی رہے۔ یہ خواب آج بھی دنیا کے تمام مظلوموں‘ بے بسوں و نیک دل انسانوں کا مشترکہ خواب ہے جس کی تعبیر سماجی رہبروں کی مشترکہ سوچ و عمل سے مشروط ہے۔