پاکستان میں 5سے 16سال کی عمر کے بچوں کی کل آبادی 24ملین ہے۔ یہ بچے آنے والے دنوں میں ملک کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ بچے کی زندگی میں ابتدائی 5 برس بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان ابتدائی 5 برسوں میں بچے کا 90 فیصد دماغ تشکیل پاتا ہے۔ اس عمر میں بچہ کیوں اور کیسے کی کھوج میں ہوتا ہے اور اس کی حسی مہارتیں نمو پا رہی ہوتی ہیں۔ اس عمر میں وہ اپنی زندگی کی تشکیل کی بنیادیں تیار کرتا ہے۔ جان لاک کے مطابق بچے خالی دماغ کے ساتھ اس دنیا میں آتے ہیں اور تجربے کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں جو استدلال کے ذریعے سمجھ میں بدل جاتا ہے۔ بچپن کی تربیت پر کئی عناصر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے ماں باپ‘ ماحول‘ سکول‘ اساتذہ اور دوست وغیرہ۔ ان عناصر میں کتابیں‘ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا بھی شامل ہوگئے ہیں۔ میڈیا کے مختلف ذرائع کمپیوٹر‘ انٹرنیٹ‘ وڈیوگیمز‘ سمارٹ فونز وغیرہ تیزی کے ساتھ بچوں کی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں۔ ٹیکنالوجی ہر دور میں اجتماعی و انفرادی طرزِ زندگی اور کلچر کے تمام شعبوں پر اثر انداز ہوتی آئی ہے۔ تکنیکی تغیرات نہ صرف ادب کے لیے نئے موضوعات پیدا کر رہے ہیں بلکہ زیادہ مواقع فراہم کرنے کا موجب بھی ہیں۔ بقول شاعرمشرق ''ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ بدلتے وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ا پنی نسلِ نو کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اپنی اقدار اورکلچر سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زمانے کے تغیرات کو بہتر طور پر سمجھ کر قبول کرنے کے قابل ہو سکے۔
اس وقت مادیت پسندی‘ معیار پرستی‘ عدم برداشت‘ عدم مساوات جیسی برائیاں معاشرے میں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ سائنسی ایجادات نے زندگیوں کو سہل تو بنا دیا ہے لیکن اس سب نے والدین اور بچوں کے درمیان ایک نہ نظر آنے والی خلیج پیدا کی ہے۔ اب والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں رہا اور ان کی اکثریت اپنی ساری ذمہ داری معاشرے اور اساتذہ پر چھوڑ کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی‘ جسمانی اور معاشرتی تربیت پر ناخوشگوار اور دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ تربیت تعلیم کا لازمی جز ہے‘ اس کے بغیر تعلیم کارگر ثابت نہیں ہو سکتی۔ ہم تعلیم پر تو کچھ توجہ دے رہے ہیں لیکن تربیت کا فقدان ہے۔ ہمیں جس بحران کا سامنا ہے وہ صرف معاشی و سماجی ہی نہیں بلکہ سیاسی‘ ثقافتی اور اخلاقی بھی ہے۔ بڑھتی ہوئی انفرادیت پسندی اور دوسرے لوگوں کی مشکلات کے تئیں غیر حساسیت کے تناظر میں معاشرے میں ایک غیریقینی اور اضطراب کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ بچوں کی بہتر تربیت اور قومی ترقی دو ایسے دھارے ہیں جو ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔ آپ کسی ایسی ترقی یافتہ قوم کا تصور نہیں کر سکتے جو اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہو۔ ترقی یافتہ قومیں اپنی نسلِ نو کی تربیت کے لیے ادبِ اطفال پر خصوصی توجہ دیتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ بچے کہانیوں اور نظموں سے زیادہ بہتر طریقے سے سیکھتے ہیں۔
ادبِ اطفال ادب کی ایک مشکل صنف سمجھی جاتی ہے۔ یہ ایک مقصدی ادب ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے بچوں کو تفریح مہیا کرنے کہ ساتھ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی نمو‘ ان میں خود اعتمادی‘ تجسس‘ ہمدردی اور محبت کے جذبات کو پروان چڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے ذریعے دنیا اور لوگوں کو سمجھنے کی صلاحیت‘ ان میں ثقافتی و تہذیبی ورثے کو منتقل کرنے اور اخلاقی اوصاف کی نشوونما کی جاتی ہے۔ بچوں کی نفسیات اور ان کی عمر کو سمجھ کر بچوں کے لیے ادب تخلیق کرنا بے حد ضروری ہے۔ ادب اطفال میں اسلوب اور پیشکش کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے وگرنہ یہ بچوں کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔
بقائے باہمی اور فطرت سے محبت جیسے موضوعات پر اردو ادب کے بہت سے اہم ادبا نے بچوں کے لیے شعری و نثری فن پارے تخلیق کیے ہیں۔ امیر خسرو کی پہیلیاں ہوں یا قلی قطب شاہ کے دیوان میں شامل علاقائی میلوں‘ تہواروں اور موسموں کے حوالے سے بچوں کے لیے نظمیں‘ نظیر اکبر آبادی نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں ان کی نظم ''بلدیو جی کا میلہ‘‘ معاشرتی تنوع کی اہم مثال ہے۔ میر تقی میرؔ‘ انشا اللہ خاں انشاؔ‘ مرزا غالبؔ‘ الطاف حسین حالیؔ‘ محمد حسین آزادؔ‘ علامہ اقبالؔ‘ اسماعیل میر ٹھی‘ حفیظ جالندھری‘ صوفی تبسم‘ امتیاز علی تاج‘ عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر‘ احسن ماہروی‘ مرزا ادیب‘ اے حمید‘ الطاف فاطمہ‘ ابن صفی‘ ابن انشا‘ حکیم سعید‘ ثاقبہ رحیم الدین‘ محمود شام اور امجد اسلام امجد وغیرہ نے نسلِ نو کی تربیت کی اہمیت کو جانتے ہوئے ان کیلئے ادب تخلیق کیا اور کر رہے ہیں۔ ادبِ اطفال بچوں کو لکھنے کی طرف راغب کرتا ہے کیونکہ پڑھنے اور لکھنے کے عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کے رسائل مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ اردو میں بچوں کے رسائل کی بھی ایک سنہری تاریخ ہے۔ آنکھ مچولی‘ پھول‘ تعلیم و تربیت کھلونا‘ ہمدرد نونہال‘ بچوں کی دنیا‘ ساتھی وغیرہ نے بچوں کی تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ادبِ اطفال اور قوم کے نونہالوں کی تربیت کی اہمیت کو جانتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومتی سطح پر قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن کی سرپرستی میں اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک اور ان کی ٹیم نے ادبِ اطفال کے حوالے سے بچوں کے ادب پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ''بچوں کا ادب: ماضی‘ حال و مستقبل‘‘ کا انعقاد کیا۔ مذکورہ کانفرنس میں پاکستان اور بیرونِ ممالک کی 24 زبانوں میں تحریر کیے جانے والے ادب کے ذریعے بچوں کی تربیت کو زیر غور لایا گیا۔ پاکستان کے چاروں صوبوں‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ساتھ ترکیہ‘ ایران‘ مصر‘ برازیل‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ مالدیپ‘ نیپال اور آذربائیجان سے بچوں کے ادبا و شعرا ور سکالرز نے شرکت کی۔ اس تین روزہ کانفرنس میں 27 اکیڈمک سیشن میں ادب اطفال کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی مقالات پیش کیے گئے۔ یہ اقدام بہت اہم ہے اور امید افزا بھی کہ اب بچوں کی ذہنی تربیت اور نصاب سازی کے دوران ان کی نفسیات اور ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر لائحہ عمل تیار کیا جائے تاکہ قوم کے معماروں کی تربیت بہتر طور پر کی جا سکے۔
اسی ضمن میں ایک نکتہ جو مزید قابلِ غور ہے‘ وہ یہ ہے کہ ادب اور ادیب ماضی کی طرح آج بھی معاشرتی اقدار کو بحال رکھنے اور صحتمند معاشرے اور اس کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں لیکن ادب کو بچوں تک پہنچانے کیلئے جدید میڈیم یعنی ٹیکنالوجی کے وسائل کو بروئے کار لانا ہو گا تاکہ تربیت میں زبردستی و جبر کا احساس بچے کے اندر پیدا نہ ہو بلکہ غیر محسوس طریقے سے کہانیوں‘ قصوں‘ لطائف کی معرفت نئی دنیا کی تلاش کے دوران سماجی اقدار اور حساسیت اس کے اندر داخل ہو جائے۔ ادیب آج بھی قصے‘ کہانیاں اور لطائف تخلیق کر رہا ہے مگر اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے اب ادب کو ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ضرورت ہے تاکہ بچوں تک پہنچنے کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال ممکن ہو سکے۔ جس سماج کا ادب اور ادبی اقدار ٹیکنالوجی کے ذریعے بچے تک پہنچیں گی‘ بچہ نہ صرف غیر محسوس طریقے سے بخوشی قبول کرے گا بلکہ ان کی پاسداری کرنا بھی اپنا فرض سمجھے گا۔ لہٰذا اپنی سماجی اقدار‘ رسوم و رواج‘ تہذیب و ثقافت کو برقرار رکھنے کے لیے وقت پکار رہا ہے کہ اربابِ اختیار‘ ماہرینِ تعلیم و ٹیکنالوجی مل کے ڈیجیٹل آلات کا استعمال‘ ای لائبریری‘ آن لائن تعلیمی مواد کی مدد سے بچوں کو بہتر تعلیمی مواقع فراہم کرنے کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیں‘ اس طرح تعلیم کے مثبت پہلو اجاگر ہو سکیں گے۔