دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے!

آج 25 نومبر ہے اور میرا بل سسٹرز (Mirabal sisters) کی یاد نے میرے ذہن کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔ میرابل سسٹرز (پیٹریا‘ منروا‘ ماریا ٹریسا) کا تعلق کیریبین جزائر میں واقع ایک چھوٹے سے ملک ڈومینیکن ریپبلک سے تھا۔ ان بہنوں نے اپنے ملک کو جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے اور آمریت کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا۔ آمریت کے خلاف جدوجہد اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں انہیں آمر حکمران رافیل ترجیلو (Rafeal Trujillo) کے حکم پر 25 نومبر 1960ء کو بے دری سے قتل کر دیا گیا۔ میرابل سسٹرز مزاحمت اور حقوقِ نسواں کا استعارہ بن کر امر ہوگئیں۔ اقوام متحدہ نے 1999ء سے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن 25 نومبر کو قرار دے کر ان بہادر بہنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ دنیا کی کل آبادی کا 49.58 فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ کیا عورت کے بغیر انسانی معاشرے کا تصور ممکن ہے؟ سورۃ النساء کی آیت نمبر 1میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ''اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے پیدا کیا اس کا جوڑا‘ اور ان دونوں سے بہت سارے مرد و عورتیں پھیلائیں‘ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو‘ بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے‘‘۔
معاشرے کی اس اہم اکائی یعنی عورت کو آج بھی صنفی امتیاز کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین جسمانی‘ ذہنی‘ جنسی‘ نفسیاتی اور ڈیجیٹلائزیش کے بعد آن لائن تشدد کی متعدد صورتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ ریاستی سطح پر رجعت پسند قوانین گھریلو تشدد کے مرتکب افراد کے لیے استثنا کو بڑھاتے ہیں اور سزا کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے مجرم اکثر بچ نکلتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں خواتین کی قانونی حیثیت تیزی سے خطرے میں پڑ رہی ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ ذات پات اور ثقافتی امتیاز کی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی شکلوں کا نتیجہ ہے۔ جب خواتین تشدد یا صنفی امتیاز کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو انہیں ڈرا‘ دھمکا اور ہراساں کرکے خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والے کارکنوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
پاکستان کی کل آبادی کا 48.5فیصد خواتین پر مشتمل ہے۔ تحریک پاکستان میں برصغیر پاک و ہند کے خواتین نے بھرپور حصہ لیا تھا۔ بانی پاکستان نے 1944ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ''بحیثیت قوم اس وقت تک ترقی اور عظمت کی بلندی پر نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ تمہاری عورتیں تمہارے شانہ بشانہ نہ ہوں ‘‘۔ 1947ء میں سول سیکرٹریٹ لاہور سے یونین جیک اتار کر سبز ہلالی پرچم لہرانے والی بھی ایک خاتون تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد اس نوزائیدہ ملک میں مہاجرین کے آباد کاری‘ سوشل ورک‘ سیاست‘ تعلیم‘ صحت غرض ہر شعبے میں خواتین نے بابائے قوم کے وژن کے مطابق ملک کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ دنیائے اسلام کے پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی پاکستانی خاتون کو حاصل ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی نے خواتین کو بہت متاثر کیا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے 2020ء گلوبل جینڈر انڈیکس میں 156ممالک کی فہرست میں پاکستان 153 نمبر پر ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے پاکستان میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ہولناک واقعات میں تیزی آئی ہے اور ان واقعات نے ہمارے انصاف کے نظام پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ملک کے آئین میں بنیادی حقوق کا آرٹیکل 25 ہدایت دیتا ہے کہ قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں اور جنس کی بنیاد پر تفریق کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ فوجداری قوانین میں شہریوں کی جان و مال کو نقصان پہنچانے پر سزاؤں کے علاوہ خواتین کے ساتھ زیادتی پر خصوصی قوانین موجود ہیں۔ تاہم ان قوانین پر عمل در آمد میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ حالیہ برسوں میں صنفی بنیادوں پر جرائم کے اعدادو شمار میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے: خواتین کو ہراساں کرنے کے 63ہزار 367سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے‘ 3ہزار 987 خواتین کو قتل کیا گیا‘ 1025خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا‘ تیزاب گردی اور چولہے پھٹنے کے واقعات میں متاثر ہونیوالی خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان واقعات کو خود سوزی کے زمرے میں ڈال کر فائلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔ سارہ انعام قتل ہو یا میڈیکل طالبہ خدیجہ پر تشدد اور ہراساں کیا جانا یا پھر نور مقدم کا المناک قتل‘ ماضی قریب میں رونما ہونے والے یہ وہ چند واقعات ہیں جنہوں نے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خواتین کے خلاف تشدد وبائی شکل اختیار کر گیا ہے اور اخلاقی اقدار انحطاط پذیر ہیں۔ گھریلو تشددکو تو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے گھر کی بات‘ راز داری اور شرم کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے اور اس طرح کے معاملات میں متاثرین کی داد رسی بھی نہیں کی جاتی۔ پولیس یہ کہہ کر ان کی شکایات مسترد کر دیتی ہے کہ یہ خاندانی معاملہ ہے۔ وہ خواتین جو بہادری سے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کی کہانی سناتی ہیں ان کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے اور ان کے ساتھ شکوک و شبہات کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو اجاگر کیا اور زیر بحث لایا جارہا ہے۔ ان مکالموں نے خاص طور پر نوجوان خواتین میں بیداری پید ا کی ہے جواب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف جدوجہد کی طویل تاریخ ہے۔ مختاراں مائی کا کیس 2002ء‘ ڈاکٹر شازیہ خالد کیس 2005ء‘ خدیجہ صدیقی پر حملہ مئی 2016ء اور قندیل بلوچ قتل جولائی 2016ء وغیرہ نے عالمی سطح پر ملک کے تشخص کو نقصان پہنچایا۔ اگرچہ اس طرح کے معاملات چند سال کے بعد سرخیوں میں آتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ پچھلے چند برسوں کے دوران ان کی تعدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم زیادہ تر دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی غلط کام ہوتا ہے تو اس کا کوئی احتساب نہیں ہوتا اور وہ کام کرنے والا کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ قوانین کے اطلاق کی کمی کی وجہ سے خواتین اپنے کیسز رپورٹ نہیں کرتیں اور اپنے آپ کو کمزور محسوس کرتی ہیں۔ خواتین پر ہونے والے تشدد کے خاتمے اور ان کے تخفظ کے لیے حکومت ہی نہیں بلکہ معاشرے پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔ ہمارا اجتماعی حساسیت سے عاری رویہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم جب تک قبول نہیں کریں اسے تبدیل نہیں کر سکیں گے۔ نظام میں موجود صنفی تعصب‘ خواتین کے ساتھ تعصب کرنے والی روایات کو ترک کیے بغیر معاشرے میں تبدیلی اور ملکی ترقی مشکل ہے۔
پاکستان میں خواتین میں تعلیم کی شرح بتدریج بڑھ رہی ہے۔ اب نوجوان تعلیم یافتہ خواتین کی ایک نئی نسل موجود ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہوگا جو اپنے حقوق مانگنے کا شعور اور اعتماد رکھتی ہے۔ مزید برآں جیسے جیسے ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا زیادہ قابل رسائی ہوگیا ہے اس طرح کے کیسز کی خبر یں زیادہ وسیع پیمانے پر زیادہ رفتار سے پھیلنا شروع ہوگئی ہیں۔ عالمی سطح پر انٹرنیٹ تک رسائی کی اوسط 60.9 فیصد ہے۔ جب کہ پاکستان میں آبادی کی انٹرنیٹ تک رسائی کی اوسط 28.3 فیصد ہے جو عالمی سطح سے تو بہت کم ہے‘ پھر بھی 23 کروڑ کے ملک کے لیے یہ بھی کافی بہتر ہے۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ خواتین اپنے حقوق اور صنفی عدم مساوات کے خلاف مزاحمت میں زیادہ باشعور طریقے سے آواز اٹھارہی ہیں۔ خواتین کے مساوی حقوق کی جدوجہد کو ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے‘ جس سے رویوں میں تبدیلی ضرور آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں