2دسمبر 1988ء

2 دسمبر 1988ء پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یادگار دن تھا جب آمریت کے طویل سیاہ دور کا اختتام ہوا۔ ایک با ہمت لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم پاکستان کا حلف اٹھایا۔ وہ پاکستان کی ہی پہلی خاتون وزیراعظم نہ تھیں بلکہ انہیں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون سربراہِ حکومت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یہ اعزاز محترمہ بینظیر بھٹو کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا تھا بلکہ اس کے پیچھے آمریت کے خلاف ان کی 11 سالہ جدوجہد تھی جس میں انہوں نے اپنے والد کے قتل‘ نوجوان بھائی کی پراسرار موت‘ قید کی صعوبتیں اور جلاوطنی جیسی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود آمر کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا اور ہمیشہ جمہوری اقداری کی پاسداری کی۔ 1973ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے بعد بینظیر صاحبہ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون و سفارتکاری میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری حاصل کی۔ جون 1977ء میں وہ پاکستان واپس آئیں۔ ان کے والد وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے امورِ خارجہ کے اسرار و رموز کے حوالے سے ان کی تربیت کی تھی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت ہو یا شملہ معاہدے پر دستخط کی تقریب‘ وہ اپنے والد کے ساتھ موجودہوتی تھیں۔ کم عمری میں ہی انہیں سربراہانِ مملکت سے ملنے اور اپنے والد کو حکومتی امور انجام دیتے ہوئے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس سے ان کا مشاہدہ وسیع و گہرا ہوا۔ بینظیر کو کتب بینی کا شوق اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا۔ ان کی خود نوشت 1988ء میں Daughter of the East اور 1989ء میں Daughter of Destiny کے عنوانات سے شائع ہوئی۔ ان کی کتاب Reconciliation: Islam, Democracy, and the West ان کی شہادت کے بعد 2008ء میں شائع ہوئی۔
5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سمیت دیگر سیاسی قائدین‘ ادیبوں‘ صحافیوں‘ دانشوروں اور سیاسی کارکنوں اور ہر اس شہری کو گرفتار کر لیا جاتا جو آمر یت کے خلاف آواز اٹھاتا۔ تمام تر ظلم کے باوجود ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوگیا جسے روکنا آمر کے بس میں نہ رہا تو بھٹو صاحب کو رہا کرنا پڑا لیکن 16دسمبر 1977ء کو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اکتوبر 1977ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کی رکن مقرر ہوئیں اور انہوں نے ملک میں جمہوریت کے لیے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ چار اپریل 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی اور بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو گرفتار کر لیا گیا۔ چھ ماہ بعد رہائی ملی لیکن دونوں کوگھر میں نظر بند کردیا گیا۔ مشکل ترین عملی سیاست‘ قید وبند کی صعوبتوں‘ قید تنہائی اور مارشل لا کی سخت پابندیوں کے باوجود بینظیر بھٹواور بیگم نصرت بھٹو نے 1981ء میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت کا اتحاد قائم کر کے منظم جد وجہد کا آغاز کیا۔ جس کی وجہ سے بینظیر صاحبہ کو گرفتار کرکے سکھر اور کراچی کی جیلوں میں رکھا گیا۔ جس سے ان کی صحت شدید متاثر ہوئی۔ 1984ء میں علاج کے لیے انہیں جنیوا اور بعد میں لندن جانا پڑا۔
ہر ظلم کو آخر زوال ہے اور سیاہ رات کے بعد روشن سویرا‘ یہی امید لے کر بینظیر بھٹو 10اپریل 1986ء میں وطن واپس پہنچیں تو زندہ دلانِ لاہور نے اپنی لیڈر کا بہت شاندار استقبال کیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ عوام ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ بینظیر صاحبہ نے ملک بھر کے دورے کیے‘ جہاں بھی وہ جاتی تھیں عوام کا ہجوم اپنی لیڈر کے استقبال کے لیے موجود ہوتا تھا۔ ان کے ساتھ عوام کے اس اندازِ محبت و مقبولیت نے ان کے مخالفین کو پریشان کر دیا تھا۔ 18 دسمبر 1987ء کو وہ آصف علی زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔ نومبر 1988ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی جس کے نتیجے میں 2دسمبر 1988ء کو محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ یہ پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے امید کی کرن تھی کہ اب ملک میں جمہوریت و قانون کی بالادستی ہوگی۔ پاکستان روشن خیالی‘ ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
بینظیر پاکستانی عورت کو معاشی طور پر مستحکم دیکھنے کی خواہش مند تھیں‘ اس لیے انہوں نے عوام کی فلاح و بہبود اور خاص طور پر خواتین کی ترقی کے لیے سرکاری سطح پر پالیساں بنائیں۔ 1989ء میں انہوں نے فرسٹ وومن بینک کی بنیاد رکھی۔ بہت ہی قلیل مدت میں ان کی حکومت کو 16اگست 1990ء کو اس وقت کے صدر اسحق خان نے بدعنوانی کے ایسے الزامات لگا کر اسے برخاست کردیا جو آج تک ثابت نہیں کیے جا سکے۔ مسئلہ یہی ہے کہ یہاں ابتدا سے ہی جمہوریت کو اُبھرنے نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں جمہوری رویے بھی پروان نہیں چڑھ سکے۔ اکتوبر 1993ء کے عا م انتخابات میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی اور بے نظیر بھٹو دوبارہ پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔ انہوں نے اپنے پہلے دور حکومت کے ادھورے رہ جانے والے عوامی منصوبوں کا ازسر نو آغاز کیا۔
ان کی حکومت نے پولیس اور تھانے کے کلچر میں اصلاحات کرنے کے علاوہ 24 جنوری 1994ء پاکستان میں پہلی بار وومن پولیس سٹیشن قائم کیے۔ صحت کے شعبے میں بھی اصلاحات کا آغاز کیا گیا۔ خواتین اور بچوں کو بہتر طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے 1994ء میں ملک کے غریب دیہی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولتوں کو گھر گھر پہنچانے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کے تحت ملک کے تقریباً تمام اضلاع میں لیڈی ہیلتھ ورکرز تعینات کی گئیں جو خاندانی منصوبہ بندی‘ صحت کی تعلیم‘ حفاطتی ٹیکوں‘ گروتھ مانیٹرنگ‘ دماغی صحت کی سکریننگ اور مقامی سطح پر صحت کی دیکھ بھال جیسی سہولتیں فراہم کرنے لگیں۔ ایک بار پھر ان کی اپنی پارٹی کے منتخب صدر نے جمہوری حکومت کو پانچ سال کی آئینی مدت مکمل کرنے نہ دی اور نومبر 1996ء میں ان کی حکومت کو برخاست کردیا گیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے بد عنوانی کے الزامات پر انہیں سزا سنائی تھی جسے 2001ء میں حکومتی مداخلت کے واضح ثبوت کی بنا پر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ جنرل مشرف کے مارشل کے دوران انہیں ایک بار پھر ملک چھوڑنا پڑا۔ اس دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان لندن‘ دبئی اور سعودی عرب میں پارٹی سطح پر ہونے والے کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں میثاقِ جمہوریت پر بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے دستخط کیے۔ اکتوبر 2007ء میں آٹھ سال کی جلا وطنی ختم کرکے بینظیر بھٹو دبئی سے کراچی پہنچیں جہاں عوام نے اپنی لیڈر کا فقید المثال استقبال کیا۔ لیکن ان کی اس ریلی پر دہشت گرد حملہ ہوا جس کے نتیجے میں سو سے زیادہ کارکنوں جاں بحق ہوئے اور بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔ یہ سب ان کو خوف زدہ کرنے اور عوام سے دور رکھنے کوشش تھی لیکن ذوالفقار علی بھٹو جیسے بہادر لیڈر کی بیٹی خوف زدہ کیسے ہو سکتی تھی‘ وہ دوسرے ہی دن زخمی کارکنوں کی عیادت کرنے ہسپتال اور جاں بحق ہونے والوں کے گھر تعزیت کے لیے پہنچ گئیں۔ ان کے اس عمل اور ان کی دانشمندانہ صلاحیتوں‘ بڑھتی ہوئی مقبولیت سے ان کے مخالفین اتنے خوف زدہ ہو گئے کہ اس نڈر‘ درد مند دل اور بہترین ذہنی صلاحیتوں کی مالک‘ پاکستان کی ہر دل عزیز لیڈر کو 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں انتخابی جلسے سے واپسی کے دوران دہشت گرد حملے میں شہید کردیا گیا۔ پاکستانی یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر کیوں ہر اس لیڈر کا یہی انجام ہوتا ہے جو عوام کے حق اور ملک کی ترقی کی بات کرتا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں