یوآن میں تجارت کی بازگشت

چینی صدر شی جن پنگ سعودی عرب کا تین روزہ دورہ مکمل کرکے واپس چین پہنچ چکے ہیں لیکن ان کے اس دورے کی بازگشت‘ دورے کے دوران طے پانے والے 34معاہدوں اور چینی کرنسی یوآن میں تجارت کرنے کی کوششوں میں تیزی کی وجہ سے اب بھی عالمی میڈیا اور خلیجی امور کے ماہرین کے تجزیوں میں سنی جا سکتی ہے۔ سعودی اور چینی کمپنیوں کے درمیان ہونے و الے معاہدوں کا تعلق گرین انرجی‘ گرین ہائیڈروجن‘ فوٹو وولٹک انرجی‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ کلاؤڈ سروسز‘ ٹرانسپورٹیشن‘ لاجسٹکس‘ میڈیکل انڈسٹری اور ہاؤسنگ کے شعبوں سے ہے۔ ان معاہدوں میں ایک چینی موبائل کمپنی کے ساتھ معاہدہ بھی شامل ہے۔ یہ کمپنی سعودی شہروں میں ہائی ٹیک کمپلیکس تعمیر کرنے کے علاوہ خلیجی ملکوں میں 5جی نیٹ ورکس بنانے میں بھی حصہ لے گی۔ خلیجی خطے میں مذکورہ چینی کمپنی کے قدم رکھنے نے امریکی سلامتی کے خدشات کو جنم دیا ہے؛ تاہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ان خدشات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی طاقتوں کے درمیان فریقوں کا انتخاب نہیں کریں گے اور وہ قومی اقتصادی و سلامتی کے مفادات کے لیے شراکت داروں کو متنوع بنا رہے ہیں۔ پچھلے سال چین اور سعودی عرب کے درمیان تجارت کا حجم 80ارب ڈالر تھا جو رواں سال کے دوران 270ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ خطرے سے بچنے اور افہام و تفہیم سے چلنے والے رویے کی جگہ پُراعتماد اور خطرے کے لیے تیار سعودی عرب کی نئی قیادت نے اس کے پرانے اتحادی امریکہ کو پریشان کردیا ہے۔ یوکرین جنگ کے حوالے سے چین کی طرح سعودی عرب بھی مغرب سے مختلف موقف اپنائے ہوئے ہے۔ تیل کی پیداوار میں کٹوتی کی وجہ سے امریکہ اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں کشیدگی عروج پر ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے اس دورے پر امریکی جھنجھلاہٹ وائٹ ہائوس کے ترجمان کے اس بیان سے واضح ہو جاتی ہے کہ ''چین کی جانب سے دنیا بھر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں بین الاقوامی نظام کے لیے سازگار نہیں ہیں‘‘۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کے تحفظ پر مبنی تقریباً سات دہائیوں پرانے تعلقات تاریخ میں پہلی مرتبہ حالیہ دنوں میں خام تیل کی سپلائی پر تناؤ کا شکار ہوئے ہیں۔ ایسے میں چین کے صدر کا دورہ‘ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔
چین کی کرنسی یوآن میں تیل کی خرید کے معاہدوں پر چین اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت گزشتہ چھ برس سے جاری ہے لیکن اس سال اس میں تیزی آئی ہے کیونکہ سعودی عرب اپنے دفاع کے لیے کئی دہائیوں پرانے امریکی سکیورٹی وعدوں سے اب زیادہ خوش نہیں ہے۔ اس ناراضی کی وجہ یمن کے معاملے میں امریکہ کا کھل کر سعودی عرب کی حمایت نہ کرنا بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جوہری پروگرام پر ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کی امریکی کوششوں پر بھی سعودی عرب ناراض ہے۔ امریکی افواج کے افغانستان سے فوری انخلا نے سعودی عرب سمیت پوری دنیا کو حیران کردیا تھا جس کی وجہ سے امریکی اتحادی اپنے دفاع کے لیے متبادل کی تلاش میں حق بجانب ہیں۔ ان تمام معاملات کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب‘ جو ایک طویل عرصے تک امریکہ کا ساتھی رہا‘ اب اپنی معاشی اور سیاسی شراکت داری میں تنوع‘ سٹرٹیجک پوزیشن اور دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف آپشنز پر کام کررہا ہے۔ اس سلسلے میں پُرامن جوہری توانائی میں تعاون پر بھی دونوں ملک مذکرات کر رہے ہیں۔ چین کے صدر شی جن پنگ خلیج تعاون کونسل کے سربراہی اجلاس میں بھی شریک ہوئے۔ عرب ممالک مغرب میں اپنے اتحادیوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس متبادل موجود ہے۔
سعودی عرب جو تیل برآمد کرتا ہے اس کے پچیس فیصد سے زیادہ کا خریدار چین ہے‘ اگر خام تیل کی قیمت یوآن میں رکھی جاتی ہے تو یہ فروخت چین کی کرنسی کی حیثیت کو بڑھا دے گی۔ عالمی پٹرول مارکیٹ پر امریکی ڈالر کا غلبہ ختم ہو جائے گا۔ عالمی سطح پر خام تیل کی تقریباً 80 فیصد سے زیادہ فروخت ڈالر میں کی جاتی ہے۔ 1974ء میں رچرڈ نکسن انتظامیہ اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں مملکت کے لیے حفاظتی ضمانتیں شامل تھیں جس کے بعد سے سعودی عرب خام تیل کی تجارت ڈالر میں کرتا آیا ہے۔ 2018ء میں چین نے یوآن میں تیل کی خرید کے معاہدے متعارف کرائے تھے۔ روس پر امریکی پابندیوں نے چین کو چوکنا کردیا ہے اور چین یوآن میں لین دین پر زیادہ فوکس ہوگیا ہے۔ بیجنگ تجارت میں امریکی ڈالر کے بجائے اپنی یو آن کرنسی کے استعمال کیلئے لابنگ کر رہا ہے۔ روس کے ساتھ بھی وہ اپنی کرنسی میں کاروبار کر رہا ہے۔ چینی صدر کے حالیہ دورۂ سعودی عرب کے دوران ڈالر کے غلبے والے مالیاتی نظام کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے والی امریکی پالیسیوں کی روشنی میں دونوں ممالک اس تبدیلی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اس اقدام سے دو طرفہ تجارت محفوظ ہوگی۔ چین عرب ممالک کے مرکزی بینکوں کے ساتھ مالیاتی تعاون کو مضبوط کرنے کا بھی خواہاں ہے۔ چین سعودی عرب سٹرٹیجک انرجی پارٹنر شپ‘ جس میں تیل‘ گیس اور جوہری توانائی کے ساتھ ماحول دوست توانائی پر مشتمل تعاون کے پیڑن کو مشترکہ طور پر بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ اگر یہ سب معاہدے کامیابی سے مکمل ہو جاتے ہیں تو خلیجی خطے کی عالمی سیاست میں پوزیشن یکسر مختلف ہو جائے گی۔
چین اور پاکستان کے مرکزی بینکوں نے پاکستان میں چینی کرنسی یوآن میں لین دین کے حوالے سے تعاون کی یاداشت پر رواں سال نومبر میں دستخط کیے تھے جس سے پاکستان کے لیے ادائیگی کے متبادل آپشن کی راہ ہموار ہونے کے امکان روشن ہوئے ہیں۔ روس سے خام تیل‘ گیس اور گندم کی خریداری میں بھی مدد ملے گی۔ روس کی جانب سے بیرونی لین دین کے لیے اپنی کرنسی روبل کے علاوہ واحد متبادل کرنسی یوآن ہے۔ چین کو دی جانے والی برآمدات کے نتیجے میں ملنے والے یوآن سے پاکستان کو روس سے خریداری میں مدد مل سکتی ہے۔
موجودہ عالمی معاشی نظام میں ڈالر کو ریزرو کرنسی کی حیثیت برٹن وُوڈز معاہدے (Bretton Woods Agreement)سے حاصل ہوئی تھی۔ پہلی جنگ عظیم نے عالمی معیشت کو اس بری طرح متاثر کیا تھا کہ دفاعی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کرنسی کی قدر کے تعین کے لیے سونے کا پیمانہ ترک کر دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم سے پیدا ہونے والی معاشی صورتحال کے جائزے اور زرِ مبادلہ کا نظام تشکیل دینے کے لیے 44 ممالک کے مندوبین کا اجلاس 1944ء میں امریکی ریاست نیو ہیمپ شائر میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں طے پانے والے برٹن وُوڈز معاہدے کے ذریعے کرنسی کی قدر کے لیے ڈالر کا معیار مقرر کیا گیا اور آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے ادارے قائم کیے گئے تھے۔ عالمی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے علاوہ سات دیگر کرنسیاں بھی زرِمبادلہ کے طور پر منظور شدہ ہیں۔ ماضی میں بھی یورو اور چینی کرنسی کو ڈالر کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جا چکی ہے جبکہ مستقبل میں ڈیجیٹل کرنسی کو بھی بین الاقوامی سطح پر لین دین کے لیے استعمال ہونے والی کرنسی کی دوڑ میں ڈالر کا حریف قرار دیا جارہا ہے۔ چینی کرنسی یوآن میں لین دین کیلئے چینی لابنگ میں تیزی کی وجہ یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں روس پر عائد کی جانے والی معاشی پابندیوں کو سمجھا جارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین جس تیزی کے ساتھ معاشی ترقی کررہا ہے‘ ایسے میں اسے اپنی انرجی کی ضروریات کو پورا کرنے اور بلا تعطل سپلائی کو یقینی بنانے کیلئے عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ امریکہ کے تحکمانہ رویے کی وجہ سے اس کے اتحادی بھی متبادل کی تلاش میں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں