بڑھتی ہوئی بے روزگاری

کچھ روز قبل ٹیلی وژن پر اسلام آبادکے سپورٹس کمپلیکس میں 32 ہزار نوجوانوں کے پولیس کانسٹیبل کی صرف 1667 اسامیوں کے لیے تحریری امتحان میں شرکت کے مناظر نے بہت افسردہ کردیا تھا۔ میں تب سے یہ سوچ رہی ہوں کہ دنیا بھر میں نوجوانوں کو قوم کا اثاثہ تسلیم کیا جاتا ہے اور ملک و قوم کا مستقبل ان سے وابستہ ہوتا ہے تو پھر ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان و دربدر کیوں ہے؟ دنیاکے اکثر ترقی یافتہ ممالک تارکینِ وطن کو مستقل شہریت دیتے ہوئے ہنر مند نوجوانوں کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ملک کی ترقی کا پہیہ تیز تر ہوجبکہ ملکِ عزیز کے نوجوانوں کی کثیر تعداد تعلیمی اسناد ہاتھوں میں لیے ملازمت کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ اس موقع پر ہم ان نوجوانوں کے والدین کو کیسے بھول سکتے ہیں جنہوں نے اپنی جمع پونجی بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ درست ہوگا کہ اپنے حصے کی خوشیاں اپنے بچوں کے حصولِ تعلیم پر اس امید کے ساتھ قربان کردیں کہ وہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے۔ اتنی محنت اور قربانیاں دینے کے بعد بھی کوئی امید بر نہیں آتی۔ ہم سے بطور سیاسی و سماجی رہبر‘ بطور ماہر تعلیم‘ بطور والدین‘ بطور ذمہ دار شہری کہاں غفلت ہوئی ہے یا ہورہی ہے جو اس صورت حال کا سامنا ہے۔
پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 65 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اگر ہم اپنی ورک فورس کو بہتر مواقع فراہم کریں تو ملک کو درپیش کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ نسلِ نو کو بہتر فنی و تکنیکی تعلیم دے کر اسے ملازمت کا متلاشی بنانے کے بجائے ملازمت فراہم کرنے والا بنا سکتے ہیں۔ اگر اب بھی اس طرف کوئی توجہ نہ دی گی تو مسائل پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا۔ یہ بے روزگار نوجوان مایوسی کا شکار ہوکر مختلف سماجی برائیوں‘ منشیات کی لت‘ چوری‘ تشدد اور ملک دشمن عناصر کے لیے خام مال بن کر ملکی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 66 لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں ہر دس میں سے ایک فرد بے روزگار ی کا سامنا کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15سے 24سال کے 10.8 فیصد نوجوان بیروزگار ہیں۔ 36 فیصد پاکستانی نوجوان اپنے مستقبل سے ناامید ہیں۔ افسردگی اور مایوسی کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بھی بڑھ گیا ہے۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ روز بروز عالمگیریت بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے بے روزگاری ایک عالمی مسئلہ بن گئی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ ان ممالک میں کینیڈا اور امریکا جیسے ملک بھی شامل ہیں لیکن افریقہ اور ایشیا میں یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ملکِ عزیز میں بیروزگاری دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاری کی شرح 5.23 فیصد‘ کمبوڈیا میں 0.3 فیصد‘ بیلاروس میں 4.7 فیصد، میانمار میں 2.17 فیصد اور سری لنکا میں اقتصادی ابتری کے باوجود 5.2 فیصد ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افراد بھی ڈگریاں لے کر گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں میں تعلیم کا شوق ختم ہوگیا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی‘ ابتر ہوتی معاشی حالت ان کو چھوٹی عمر میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد ملک چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک کا رخ کر نے لگے ہیں۔ جس تیزی کے ساتھ ملک سے برین ڈرین ہو رہا ہے‘ کیا ہمارا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ ایک عام نوجوان کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کے حصول میں ایک دہائی کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ بیشتر نوجوانوں کو تیس سال کی عمر کے بعد ملازمت ملتی ہے۔ تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت کے حصول کے درمیانی عرصے میں نوجوان شدید قسم کے ذہنی اور سماجی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ یہ دباؤ ان کی صلاحیتوں پر دور رس منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ موجودہ نظامِ تعلیم جو ورک فورس پیدا کر رہا ہے‘ عالمی سطح پر اس کی کوئی ڈیمانڈ نہیں ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت‘ آٹومیشن‘ روبوٹکس اور بائیو میڈیکل سائنس سمیت کئی شعبوں میں ورک فورس کی ضرورت ہے لیکن ان پر ہمارے ملک میں بہت کم توجہ دی جارہی ہے۔ آبادی میں بے تحاشا اضافہ‘ ناخواندگی‘ ناقص تعلیمی نظام کا تسلسل‘ تکنیکی تعلیم کی کمی‘ اقربا پروری‘ سیاسی عدم استحکام‘ جانبداری اور خراب اقتصادی حالات وغیرہ بے روزگاری کی بنیاد ی وجوہات ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ملک کے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائے اور ان پالیسیوں پر بلاتعطل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ ہر آنے والی حکومت پہلے والی حکومت کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو مسترد کر کے نئی پالیسی متعارف کرا دیتی ہے۔ ایک یا دو سالہ پلان پر تو گھر نہیں چلتے‘ 23کروڑ کی آبادی والے ملک کو کیسے چلایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ حق دارہیں۔ ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم کسی حد تک پڑھے لکھے نوجوان تو پیدا کر رہا ہے مگر ایک بڑی اکثریت کو وہ تعلیم مل رہی ہے جس کی شاید ان کو ضرورت نہیں ہے۔ تعلیم کے شعبے کے لیے متفقہ طور پر 30سالہ پلان بنانے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نصاب کو دورِ حاضر کے چیلنجز اور ضروریات کے مطابق مرتب کرنے اور اس میں عملی تربیت کا حصہ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے علاوہ تکنیکی تعلیم پر زیادہ توجہ دینا ہوگی۔ ملک میں تکنیکی تربیت کے چند ادارے موجود ہیں‘ ان اداروں کو متحرک کرنے کے ساتھ مزید فنی تربیت کے مزید ادارے قائم کیے جائیں جہاں نسلِ نو کو بہتر فنی تربیت دی جا سکے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زرعی شعبہ ملک میں روزگار پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ زرعی زمین کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کرنے کے بجائے اگر زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بنجر اور ناقابلِ کاشت علاقوں کو بھی قابلِ کاشت بنایا جائے تو یہ عمل زرعی پیداوار میں اضافے کے ساتھ بے روزگاری اور غربت میں بھی کمی کا سبب ہوگا اور دیہات سے روزگار کی تلاش میں شہروں کی طرف بڑھتی ہوئی نقل مکانی بھی روکی جا سکے گی۔ زرعی سیکٹر پاکستان میں روزگار پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے جس کے ذریعے اندازاً 42 فیصد سے زائد روزگار کے مزید مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ زراعت کے علاوہ مینو فیکچرنگ‘ خدمات‘سیاحت میں روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ ان شعبوں پر اگر حکومت توجہ مرکوز کرے تو اقتصادی حالت بہتر ہونے کے ساتھ روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔
ملکی معیشت کا دوسرا بڑا سیکٹر صنعت ہے۔ قومی آمدنی میں اس کا حصہ تقریباً 40فیصد ہے۔ اس شعبے کو اگر مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تو آبادی کے ایک بڑے حصے کو روزگار فراہم ہو سکتا ہے۔ اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ہزاروں صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں۔ ٹیکسٹائل ملوں کی بندش سے گزشتہ چند ماہ کے دوران تقریباً 5 لاکھ کاریگر بیروزگار ہو چکے ہیں۔ ملکی معاشی پالیسیاں صنعتوں کی ترقی و ترویج کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ توانائی بحران کے سبب ملکی انڈسٹری مکمل طور پر فعال نہیں ہے۔ معیشت کا پہیہ چل نہیں رہا تو نئی ملازمتیں کہاں سے آئیں گی۔ بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے حکومتی پالیسیوں کو زراعت اور صنعت دوست بنائے بغیر ترقی و خوشحالی ایک خواب ہی رہے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں