پانی زندگی ہے‘ یہی وہ عنصر ہے جو زمین پر زندگی کا سبب ہے لیکن روز افزوں آبادی اس کی قلت کا سبب بن رہی ہے۔ دنیا کی 40 فیصد آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے اور 66 کروڑ افراد صاف پانی سے محروم ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک خشک سالی کے باعث 70 کروڑ افراد کو بے گھر ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے عالمی خطرات کے لحاظ سے امپیکٹ لسٹ میں 2012ء کے بعد سے پہلے 5بڑے خطرات کی فہرست میں پانی کے بحران کو بھی شامل کر لیا ہے۔
پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 دن کی ہے۔ دنیا بھر میں دستیاب پانی کا 40 فیصد ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان دستیاب پانی کا محض 10 فیصد ذخیرہ کرتا ہے۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی کی کمی کا سبب موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس کمی کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ یہ شعبہ ہماری ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور ملکی آبادی کا بڑا حصہ اس شعبے سے وابستہ ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کا مؤثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے سالانہ 29 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر برد کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں اوسطاً یہ شرح 8.9 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ ہر سال ضائع ہونے والے اس پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے منگلاڈیم جتنے تین بڑے ڈیم درکار ہیں۔ نئے ڈیموں کی تعمیر سیاست کی نذر ہو چکی ہے اور پہلے سے موجود تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوگئی ہے۔ پنجاب میں زیر زمین پانی تک ممکنہ رسائی ختم ہورہی ہے۔ سندھ میں سیلابی پانی کے کھڑے ہونے اور نمکیات کی وجہ سے پانی اور مٹی کے معیار کو خطرہ لاحق ہے۔ صاف پانی کی کمی‘ سیلابی پانی کا کھڑے ہونا اور نمکیات ایسے مسائل ہیں جنہیں انتظامیہ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی ضوابط کے ناقص نفاذ‘ گندے پانی کی صفائی میں کم سرمایہ کاری کی وجہ سے زمینی پانی کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار ملک قرار دیا ہے کیونکہ اس کا فی کس پانی ایک ہزار کیوبک میٹر سالانہ سے نیچے ہے اور یہ صورتحال انتہائی خراب ہے۔
دوسری جانب 1960ء میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان ورلڈ بینک کی معاونت سے طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ خطرے میں ہے۔ پچھلی تین دہائیوں سے اس معاہدے پر عملدرآمد میں مسائل کا سامنا ہے۔ زیادہ تر مسائل انڈیا میں مغربی دریاؤں پر نئے ڈیم تعمیر کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ 2008ء میں پاکستانی مؤقف کو مضبوط طور سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے غیرجانبدار ماہرین نے پاکستان کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے انڈیا کو بگلیہار ڈیم کی تعمیر جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ اسی طرح 2013ء میں کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کی خلاف پاکستان اپنا کیس بھرپور طریقے سے عالمی ثالثی عدالت میں پیش کرنے میں ناکام رہا۔ اب بھارت کی حکمران جماعت (بی جے پی) اس معاہدے میں ترامیم یا اس کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہے جو پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ پاکستان کی 70 فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے اور بھارت کی طرف سے کوئی بھی یکطرفہ تبدیلی دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کرے گی۔ زراعت کا شعبہ‘ جو ملکی آبادی کو خوراک فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے‘ پانی کا زیادہ استعمال بھی اسی شعبے میں ہوتا ہے۔ ملک کے کل جی ڈی پی کا 26 فیصد زراعت سے منسلک ہے۔ 21.2 ملین ہیکٹر زمین پر کاشتکاری کی جاتی ہے جس کے لیے 80 فیصد سے زیادہ پانی نہری نظام سے حاصل کیا جاتا ہے۔ روایتی طور پر گندم‘ کپاس‘ گنا اور چاول کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے‘ ان چاروں فصلوں کو تیاری تک چار یا پانچ مرتبہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ فصلیں خوراک اور صنعت کے لیے ناگزیر ہیں لیکن پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے پیش نظر اب ہمیں اپنے زرعی نظام کا ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے ساتھ ایسی فصلوں پر غور کرنا ہوگا جو ہماری خوراک کی ضرورت کو پورا کرتی ہیں اور ان کو پانی کی کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 20 ملین ایکڑ ناقابلِ کاشت بنجر زمین کو زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زیر کاشت لاکر نہ صرف وسیع رقبے کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کسان خوشحال ہوگا اور خوراک کی ملکی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری ہونے سے زرِمبادلہ کی بچت بھی ہوگی۔
یہاں مثال کے طور پر صرف دالوں کی فصل پر بات کرتے ہیں جو نہ صرف کم پانی پر تیار ہو جاتی ہے اور ہماری خوراک کا حصہ بھی ہے بلکہ سرزمین پاکستان اس کے لیے موزوں بھی ہے۔ صدیوں سے دنیا بھر کے لوگوں کی غذائی ضروریات میں دالوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ 11 ہزار سال پہلے کاشت کی جانے والی فصلوں میں بھی دالیں شامل تھیں۔ دالوں کا بین الاقوامی دن ہر سال 10 فروری کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد دالوں کے غذائی فوائد‘ انسانی صحت پر مثبت اثرات‘ غذائی تحفظ اور پائیدار زراعت میں ان کے کردار کے بارے میں آگاہی پیدا کرناہے۔ دالیں پھلی دار پودوں کے خوردنی بیجوں کا گروپ ہے جس میں دال‘ پھلیاں‘ چنے اور مٹر وغیرہ شامل ہیں جو دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کے لیے پروٹین‘ فائبر‘ زنک‘ وٹامنز اور دیگر غذائی اجزا کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ دالیں زمین میں موجود قدرتی نائٹروجن کو ٹھیک کرنے والی فصلیں ہیں‘ چنے کی جڑوں پر گٹھلی بنتی ہے جو زمین میں ماحولیاتی نائٹروجن کو ٹھیک کرتی ہے۔ یہ فصلیں مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنانے اور مصنوعی کھادوں کی ضرورت کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ دالیں غذائی تحفظ یقینی بنانے کے ساتھ پائیدار زراعت اور معیشت کو مستحکم بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔
اس وقت پاکستان میں تقریباً 1.5 ملین ہیکٹر رقبے پر دالوں کی کاشت کی جارہی ہے‘ یہ رقبہ بہت کم ہے جو ملک کے کل زیر کاشت رقبہ کا تقریباً 7 فیصد بنتا ہے۔ دالوں کا پروڈیوسر ہونے کے باوجود پاکستان دالوں کا ایک بڑا درآمد کنندہ بھی ہے۔ مالی سال 2020-21ء میں مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے تقریباً ساڑھے چار لاکھ میٹرک ٹن دالیں درآمد کی گئیں۔ ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 60 فیصد دالیں در آمد کرنا پڑتی ہیں جس پر سالانہ 1 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ اگر دالوں کی کاشت پر توجہ دی جائے تو یہ پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے ایک نفع بخش فصل ثابت ہو سکتی ہیں۔ کاشت کاروں کو دالوں کے بہتر بیج فراہم کیے جائیں‘ اس طرح وہ بہتر پیداوار کم خرچ پر حاصل کر سکیں گے جو ان کی آمدنی میں اضافے کا سبب ہوگا۔ پاکستان میں دالوں کی فی کس کھپت کا تخمینہ تقریباً 8تا 10 کلوگرام سالانہ ہے۔ تاہم یہ اب بھی 12 کلوگرام سالانہ کی عالمی اوسط سے کم ہے جو ملک میں دالوں کی کھپت میں اضافے کی گنجائش کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں غذائی تحفظ اور معیشت دونوں کے لیے دالوں کی پیداوار‘ اہمیت اور استعمال میں مزید ترقی کے امکانات کو اجاگر کرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا بھر میں پانی اور اناج کی قلت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمارے وفاقی اور صوبائی محکمۂ زراعت کی جانب سے کم پانی پر تیار ہونے والی دال جیسی فصلوں پر بر وقت کاشت کاروں کی توجہ مرکوز کرانے سے نہ صرف خوراک کی ملکی ضرورت پوری ہوتی رہے گی بلکہ اس کی ایکسپورٹ سے ملکی زرِمبادلہ میں اضافہ بھی ہوگا۔