سہ صد سالہ جشنِ میر

شاعری انسانی ذہن کی روحانی و فکری توانائیوں کو بہتر طور پر بیان کرنے کا فن ہے۔ یہ ایک ایسا طرزِ اظہار ہے جو ہماری زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ عوام و خواص نہ صرف اس میں دلچسپی لیتے ہیں بلکہ یہ انہیں اجتماعی مسائل کے حل کے لیے متحرک بھی کرتی ہے۔ شاعری کے ذریعے عوامی تحریک شروع ہوتی ہے‘ اس کا پڑھنا اور لکھنا فکری ترقی کے لیے بہترین طریقہ ہے۔ یہ عمیق سوچ کی عکاسی کرتی ہے اور ہمیں ایک نئے پہلو کو دیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ اس میں موجود استعارات‘ تشبیہات اور مختلف اسالیب کو سمجھنا ایک بہترین تعلیمی فعالیت کے ساتھ فرہنگی ترقی کا ایک عمدہ وسیلہ بھی ہوتے ہیں۔ شاعری کی مختلف صورتیں اہلِ ذوق کے لیے مختلف اصناف‘ اصول اور موضوعات کی معرفت ایک بہترین تفریح بھی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ اپنے عصر کے لوگوں کی حالتِ زار کی تاریخ بھی ہوتی ہے۔ کلاسیک شاعر انسانی دنیا کے سدا حیات موضوعات پر منفرد طریقوں سے اپنے اشعار میں عمیق فکری اظہار کرتے ہیں جس میں خاص طور پر زندگی‘ موت‘ عاشقی‘ فن‘ سماجی مساوات‘ معاشرتی مسائل اور مختلف مذہبی مضامین شامل ہیں۔
2023ء اردو کے عظیم شاعر میر تقی میرؔ کی پیدائش کا 300واں سال ہے۔ یہ دنیا بھر میں اردو ادب اور شاعری سے شغف رکھنے والوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔ میر کے 300ویں یومِ پیدائش کا جشن ان کی شاعری کو قارئین کی نئی نسل سے متعارف کرانے کا موقع ہے۔ میر تقی میرؔ انسانی کیفیات کو لازوال و آفاقی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ان کی شاعری اپنے عہد کے سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی حالات کی آئینہ دار ہے۔ ان کے عہد میں برِصغیر میں سیاسی و سماجی سطح پر بڑی تبدیلی اور ہلچل تھی۔ میرؔ کی شاعری ان حالات کی عکاسی کرتی ہے جو ان کا ذاتی دکھ اور اجتماعی غم و الم تھا۔ جن موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا وہ موضوعات آج 300سال بعد بھی متعلقہ ہیں۔ میرؔ کی شاعری اداسی اور تڑپ کا گہرا احساس لیے ہوئے ہے‘ ان کی غزلیں اس نارسائی کی تڑپ کو عیاں کرتی ہیں جو کہیں لاشعور میں پوشیدہ ہے۔ محبت‘ خوشی‘ آرزو‘ دکھ‘ یہ جذبے عالم گیر ہیں اور ان گہرے و پیچیدہ جذبات کا اظہار میرؔ کے کلام میں موجزن ہے۔
ہم سے کچھ آگے زمانے میں ہوا کیا کیاکچھ
تو بھی ہم غافلوں نے آ کے کیا کیا کچھ
دردِ دل، زخمِ جگر، کلفتِ غم، داغِ فراق
آہ! عالم سے مرے ساتھ چلا کیا کیا کچھ
میرؔ اپنے عہدکے لوگوں کی حالت زار پر نوحہ کناں ہیں جو سیاسی و سماجی اتار چڑھاؤ کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ میر کے شہرِ پُرآشوب دلی اور اہلِ دلی کے دکھ حکمرانوں کی نااہلی‘ بدعنوانی اور ناانصافی کو کھل کر بیان کرتے ہیں۔ میرؔ کی زندگی ذاتی سانحات اور سیاسی ہلچل سے عبارت تھی۔ میر تقی میرؔ کو والد کے انتقال کے بعد نامساعد حالات کا سامنا رہا اور رہی سہی کسر 1739ء میں نادر شاہ کے برصغیر پر حملے نے پوری کر دی جس کی وجہ سے اکبر آباد ( آگرہ) کو خیر باد کہنا پڑا اور دلی آگئے لیکن مشکلات یہاں بھی دامن گیر رہیں۔ مغلیہ سلطنت ‘جو اوررنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سے روبہ زوال تھی‘ ایسے میں نادر شاہ‘ احمد شاہ ابدالی جیسے بیرونی حملہ آوروں کے علاوہ سکھ‘ جاٹ اور مرہٹوں کے پہ در پہ حملوں اور لوٹ کھسوٹ سے عوام و خواص سب ہی مشکلات کا شکار تھے:
اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
1782ء میں ایک بار پھر میرؔ کو ہجرت کرنا پڑی‘ وہ دلی کے اجڑنے کا درد اپنے دل میں لیے لکھنؤ چلے گئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے۔ میرؔ کی اردو کلیات چھ دواوین پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 13583 سے زیادہ اشعار شامل ہیں جبکہ دیوانِ فارسی تین ہزار سے زیادہ اشعار پر مشتمل ہے۔ میرؔ کی فطری جمالیات نے اردو شاعری کو مقامی اظہار اور فارسی امیجری و محاورے سے ایک خاص توازن عطا کیا۔ ان کے کلام کی سحر انگیز فضا قاری کو مسحور کردیتی ہے۔ میرؔ نے فارسی محاورات‘ تشبیہات و استعارات کی آموزش سے ایسی شاعرانہ زبان تخلیق کی جو آنے والے زمانوں میں بھی شاعروں کیلئے قابلِ تقلید ہے۔ غمِ عشق‘ غمِ روزگار اور انقلابِ زمانہ کی جو سختیاں میرؔ نے جھلیں‘ وہ سب ان کی شاعری میں سوزو گدازکی صورت میں عیاں ہیں۔ دھیما لہجہ‘ سادگی‘ برجستگی اور سہل ممتنع نے ان کی غزل کو وہ مقام عطا کیا جو کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ اردو شاعری کی جس روایت کا آغازا میر خسرو کے ان اشعار سے ہوتا ہے کہ جن میں ایک مصرع فارسی میں ہے تو دوسرا اردو میں‘ میرؔ نے اس روایت کو مستحکم کیا:
داغِ فراق و حسرتِ وصل آرزو ئے شوق
میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا
موضوع‘ ہیئت‘ اسلوب ہر لحاظ سے میرؔ نے اردو شاعری میں عجمی روایت کو توسیع دی۔ ان کے کلام کو پڑھتے ہوئے ایسا بالکل نہیں لگتا ہے کہ وہ تین سو سال پہلے کہے گئے اشعار ہیں بلکہ جب جب ان کے اشعار کو پڑھتے ہیں‘ ہر مرتبہ وہ ایک نئے معانی‘ تازگی اور ہمارے عہد کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ میرؔ جب اپنے دل کے لٹنے کا ذکر کرتے ہیں تو اس کے پس منظر میں وہ سارے انقلابات ہوتے ہیں جن سے اس وقت مغلیہ سلطنت دوچار تھی۔ میرؔ کے ہم عصروں میں کوئی بھی ان کا ہمسر نہیں۔ ان کا کلام روایت نہیں بلکہ حکایت ہے جو وقت کی قید و بند سے آزاد اور میرؔ کی سچائی و خلوص کا مظہر بھی ہے۔ میرؔ کے یہاں شعری زبان کی وہ کیفیت موجود ہے جو گنجینہ معنی کی طلسم کاری سے عبارت ہے:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
جگر ہی میں یک قطرہ خوں ہے سرشک
پلک تک گیا تو تلاطم کیا
ادبی تنظیم ہم سخن اور اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے اشتراک سے میرؔ کی 300ویں سالگرہ پر اکادمی میں 3مارچ 2023ء کو جشنِ میر منعقد کیا جا رہا ہے۔ میرؔ کی اردو شاعری کے علاوہ ان کی فارسی نثر بھی ادب میں اہم مقام رکھتی ہے لیکن میرؔ کی فارسی شاعری کو بوجوہ وہ مقام و شہرت نہ مل سکا جس کی وہ حق دار تھی۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے میرؔ کے سہ صد سالہ جشن کی تقریبات کی سلسلے میں ایک ضخیم کتاب ''فارسی ادب میں میر تقی میرؔ کی خدمات‘‘ شائع کی ہے۔ کتاب کا اجراء آج اکادمی میں جشنِ میر کے دوران کیا جا رہا ہے۔ اس کتاب میں میرؔ کی نایاب مثنوی دریائے عشق (فارسی) بھی شامل ہے جو ایک عرصے تک محققین کی نظروں سے اوجھل رہی اور پہلی بار اس کا قلمی نسخہ اکادمی ادبیات پاکستان کے پلیٹ فارم سے منظر عام پر آیا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقد ہونے والے جشنِ میر میں اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کے ساتھ خصوصی سیمینار بھی منعقد کیا جا رہا ہے۔ پورا دن میرؔ کی شخصیت و فن اور عہدِ حاضر میں اس کی اہمیت پر مختلف سیشنز میں پاکستان کے معروف ادبا و محققین (رفیع الدین ہاشمی‘ وحید احمد‘ معین الدین عقیل‘ تحسین فراقی‘ شہاب الدین ثاقب‘ یوسف خشک‘ احمد جاوید‘ عزیز ابن الحسن‘ ناصر عباس نیر‘ زیف سید‘ ساجد صدیق نظامی‘ اختر عثمان ارشد محمود ناشاد‘ محمد سفیر‘ ضیاء الدین نعیم‘ احمد محفوظ‘ قاسم یعقوب‘ راحت سرحدی‘ عدنان بشیر) مقالات پیش کریں گے۔
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں