بیس سال قبل‘ 20 مارچ 2003ء کو جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو اُس وقت روس کے صدرولاد یمیرپوتن نے امریکہ کے حملے کو ایک بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کا یہ عمل بین الاقوامی نظام کو غیر مستحکم کردے گا۔ عراق پر امریکی حملے کے نتائج کا مشاہدہ کرنے والے پوتن نے خود 2022ء میں امریکی غلطی کو دہراتے ہوئے یوکرین پر حملہ کردیا۔وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ اب اس جنگ کو امریکی صدر بائیڈن نے دنیا کیلئے عدم استحکام سے تعبیر کیا ہے۔
جنگیں استحکام کے بجائے تباہی‘ افراتفری اور ذلت کا باعث ہی ہوتی ہیں‘زیادہ ماضی میں جائے بغیر صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد لڑی جانے والے جنگوں کا جائزہ ہم پر واضح کر دے گا کہ کوریا‘ ویتنام‘ عراق‘لیبیا اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں نے مسائل کے حل کے بجائے مزید تنازعات ہی کو جنم دیا ہے۔ لیبیا کی مثال کو سامنے رکھیں تو آج سے 12 سال پہلے نیٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لیبیا پر انسانی ہمدردی کے مقاصد کیلئے حملہ کررہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کو جس کے عوام کا معیارِ زندگی براعظم افریقہ کے دوسرے ملکوں سے بہت بہتر تھا کو تباہ حال کر دیا گیا۔ کرنل قدافی کے دور حکمرانی میں لیبیا اقتصادی طور پرایک مستحکم ملک تھا‘جہاں عوام کوصحت اور تعلیم کی سہولتیں میسر تھیں ۔ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے تمام شہریوں کو حصہ دیا جاتا تھا۔ماضی کی اس مستحکم ریاست کو جنگی جنون نے جنگ زدہ ناکام ریاست میں تبدیل کردیا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کے حملوں کے بعد سے اس ملک میں خانہ جنگی جاری ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہی‘ غلاموں کی خرید و فروخت عام ہے‘ مہاجرین کی بڑی تعداد محفوظ زندگی کے لیے یورپ کا رُخ کررہی ہے۔ سامراجیت اور طاقت کی ہوس میں مبتلا بڑی طاقتیں مختلف نتائج کے حصول کے لیے اپنی غلطیوں کو باربار دہرا تی ہیں جس کے نتیجے میں دھرتی پر ہمیشہ دکھوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
روس یوکرین کے درمیان 394 دن سے جاری جنگ میں اب تک ہزاروں لوگ ہلاک اور لاکھوں اپنا ملک‘گھر بار کو چھوڑ کر مہاجر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ جہاں اس جنگ سے فریقین کو بڑے جانی و مالی نقصان کا سامنا ہے وہیں یہ تنازع دنیا بھر میں مہنگائی میں اضافے‘اناج‘ کھاد اور توانائی کی کمی کے ساتھ وسیع پیمانے پر معاشی بحران کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اس جنگ نے نہ صرف توانائی کی منڈیوں کو غیر مستحکم کیا ہے‘ افراط ِزر کو ہوادی ہے اور اشیائے خورونوش اور اجناس کی سپلائی میں خلل ڈالا ہے بلکہ اس نے عالمی معاملات کی خراب حالت کو بھی بے نقاب کردیا ہے‘ جوہری پھیلاؤ کوتیزکیا ہے‘ ہتھیاروں کی دوڑ کو ہوا دی ہے اور اقوام متحدہ کی کمزوریوں کو عیاں کیا ہے۔ مغرب میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ چین روس کو فوجی مدد فراہم کر سکتا ہے۔ کیل انسٹیٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2022ء تک یوکرین کو دنیا کے 46 ممالک نے 108 ارب یورو سے زیادہ کی فوجی و مالی امداد فراہم کی ہے۔ زیادہ تر امداد یورپی ممالک اور امریکہ کی جانب سے دی گئی ہے۔یوکرین کیلئے امریکہ کی کل فوجی امداد جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک تقریبا 47.8 ارب ڈالرسے متجاوز ہے۔ اگر اس تنازع کو حل کرنے میں عالمی برادری نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو یوکرینی جنگ دنیا کیلئے نہایت خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔امریکہ نے عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے صدرپوتن کے وارنٹ جاری کرنے پر اسے عالمی قوانین کااستحکام قرار دیا ہے۔ آئی سی سی کے رکن ممالک کی تعداد 123 ہے جبکہ امریکہ اور روس دونوں ہی اس عدالت کے رکن نہیں ہیں اور وہ اس عدالت کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے۔ امریکہ اور برطانیہ نے عراق میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ 2020ء میں امریکہ نے عالمی عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر پر پابندیاں لگا کر افغانستان میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کو روکا تھا۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے آئی سی سی کے پراسیکیوٹر کو فلسطینی صورتحال کی تحقیقات کا آغاز کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ انسانی حقوق کی پامالی کی داستانیں ابو غریب جیل‘ بگرام عقوبت خانہ اور گوانتاناموبے جیل تک عالمی برادری کا مذاق اڑا رہی ہیں۔ سامراجی طاقتوں کی یہ منافقت ہی عالمی امن کیلئے خطرات اور انسانی حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اس سارے منظر نامے میں چین ایک ایسے ملک کے طور پر سامنے آرہا ہے جس نے عالمی تنازعات کے حل کیلئے ہمیشہ فوجی دخل اندازی سے گریز کیا ہے۔ گزشتہ ماہ روس یوکرین جنگ کے ایک سال مکمل ہونے پر چین نے جنگ بندی کیلئے 12 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا۔اس منصوبے کے نکات میں : تما م ممالک کی خود مختاری کا احترام‘ سرد جنگ کی ذہنیت ترک کرنا‘دشمنی ختم کرنا‘ امن مذاکرات کی بحالی‘ انسانی بحران کا حل‘ شہریوں اور جنگی قیدیوں کے حقوق کا تحفظ‘ نیوکلیئر پاور پلانٹس کو محفوظ رکھنا‘ سٹریٹیجک خطرات کو کم کرنا‘ صنعتی اور سپلائی چین کو مستحکم رکھنا‘اناج کی برآمد کو آسان بنانا‘ یکطرفہ پابندیاں اور دباؤ مسائل کا حل نہیں اور تنازعات کے بعد کی تعمیر ِنوکو فروغ دینا شامل ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے تیسری مدت کیلئے صدر منتخب ہونے کہ بعد رواں ہفتے کے آغازمیں روس کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا اور اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور سٹریٹیجک شراکت داری بڑھانے کیلئے بہت سے معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ منگولیا کے راستے چین کو روسی گیس پہنچانے کیلئے سائبیریا پائپ لائن معاہدے پر بھی دستخط کیے گئے‘ اگرمغرب اور یوکرین مذاکرات کے لیے تیار ہوجائیں تو چین کا امن منصوبہ جنگ کے خاتمے کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کا واحد راستہ مذاکرات سے ہی نکلتا ہے‘ کئی دہائیوں سے روس اور امریکہ نے ایک دوسرے کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایسی جنگیں لڑی ہیں جن سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ روس کو بھی اب اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی وگرنہ یوکرین تنازع کے نتا ئج اس سے بھی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ جنگ بندی کا چینی منصوبہ یوکرین کے فوری حل کا مطالبہ کرتا ہے لیکن اس میں اس بحران کا الزام اس پرعائد کیا گیا ہے جسے سرد جنگ کی ذہنیت کہاجاتا ہے‘ جوکہ نیٹو کی ایشیا کی جانب پیش قدمی اور یورپ اور امریکہ کی طرف سے روس کی سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کرتا ہے۔چین کے اس منصوبے کو امریکہ نے مسترد کیا ہے۔ امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کرِبی نے یوکرین کیلئے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال جنگ بندی کا اعلان روس کی یوکرین میں کامیابیوں کی توثیق کے مترادف ہوگا۔
فروری میں روس یوکرین جنگ بندی کیلئے مذکورہ منصوبہ پیش کرنے کے بعد ایک بار پھر چینی صدر شی جن پنگ نے اپنے روسی دورے کے آغاز سے قبل ایک مضمون تحریر کیاجو روسی اخبار میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں انہوں نے یوکرین کے تنازع سے نکلنے کا عقلی راستہ اختیار کرنے پر پھر زور دیا اور لکھا کہ چین کا 12 نکاتی منصوبہ سیاسی تصفیے کو فروغ دینے کیلئے ایک تعمیری بنیاد فراہم کرتا ہے۔ حکومت کا کوئی عالمگیر ماڈل نہیں اور کوئی عالمی نظام نہیں ہے جہاں فیصلہ کن لفظ کسی ایک ملک کا ہو‘‘۔ عالمی یکجہتی اور امن تمام بنی نوع انسان کے مشترکہ مفادات میں ہے۔ مذکورہ منصوبہ کے نکات پر اگر سب طاقتیں عمل کریں تو نہ صرف یوکرین روس جنگ بند ہوسکتی ہے بلکہ دنیا بھر میں جنگ کے امکانات مفقودہوسکتے ہیں۔