اقتدار کی بھوک اور غریب عوام

براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع رقبے کے لحاظ سے تیسرے بڑے ملک سوڈان میں 15 اپریل سے جاری طاقت کے حصول کی جنگ پوری دنیا اور خطہ کے دیگر ممالک کے لیے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ساڑھے چار کروڑ سے زیادہ آبادی کے حامل اس ملک کی زمینی سرحدیں سات ممالک (وسطی افریقی جمہوریہ‘ چاڈ‘ مصر‘ اریٹیریا‘ ایتھوپیا‘ لیبیا اور جنوبی سوڈان) اور بحیرۂ احمر کی انتہائی اہم آبی گزرگاہ سے جڑی ہونے کی وجہ سے اس کی جغرافیائی اہمیت کو بڑھا دیتی ہیں۔
سوڈانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور سریع الحرکت فورسز (RSF) کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو حمیدتی نے مل کر 2019ء میں تین دہائیوں تک سوڈان پر حکمرانی کرنے والے آمر عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کیا اور ایک ایسا ہائبرڈ نظام متعارف کرایا جس میں سویلین کے ساتھ فوج کو بھی اقتدار میں شراکت دار بنایا گیا لیکن اکتوبر 2021ء میں جنرل البرہان نے فوجی بغاوت کے ذریعے اپنے ہی بنائے ہوئے ہائبرڈ نظام کا خاتمہ کر کے حکمران خود مختار کونسل کی صدارت سنبھال لی اور جنرل حمیدتی کو اپنا نائب مقرر کر دیا۔ ناقدین نے اس وقت بھی ان جرنیلوں کے اتحاد کو حقیقی شراکت داری نہیں مانا تھا بلکہ ان کے اس اتحاد کو اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ جڑنا قرار دیا تھا تاکہ سویلین تحریک کا ایک متحدہ فوجی محاذ کے طور پر مقابلہ کیا جا سکے مگر یہ شراکت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔
30سال تک حکومت کرنے والے آمر عمر البشیرکی حکومت کے خاتمے سے امید پیدا ہوئی تھی کہ یہ ملک اب جمہوریت کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور سوڈانی عوام‘ جنہیں ملک میں موجود معدنیات کی دولت کے باوجود غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے اور وہ غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ کے لیے زندگی آسان ہو سکے گی۔ یہ امید اس وقت دم توڑ گئی جب مسلم اکثریت کے باوجود رمضان کے مقدس مہینے کے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 15اپریل کو سوڈانی افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور سریع الحرکت فورسز (RSF) کے سربراہ جنرل محمد حمدان دقلو حمیدتی کے درمیاں کشیدگی‘ خون ریز جھڑپوں میں تبدیل ہو گئی۔ یہ لڑائی اب بحیرۂ احمر پر واقع پورٹ سوڈان‘ مغربی دارفور‘ میرو‘ جنوبی صوبوں سمیت ملک بھر میں پھیل گئی ہے۔ دونوں جنرلز مغربی سوڈان کے علاقے دار فور میں خانہ جنگی کے دوران بطور رہنما نمایاں ہوئے جہاں 2003ء سے 2008ء تک لڑائی میں تین لاکھ لوگ مارئے گئے اور 25 لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔
گزشتہ برس دسمبر میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں سوڈان کے فوجی رہنماؤں اور جمہوریت کی حامی جماعتوں کے درمیان ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ جس کے تحت اقتدار سویلین سیاسی قوتوں کو منتقل کرنا تھا لیکن اس فریم ورک کی ایک شق یہ بھی تھی کہ سریع الحرکت فورسز کو مسلح افواج میں ضم کیا جائے گا۔ مستقبل میں فوج کا کمانڈر انچیف کون ہو گا‘ یہی وہ مسئلہ ہے جس پر اختلاف کی وجہ سے دونوں جنرنیلوں کے حامیوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ زیادہ طاقت کے حصول کے لیے شروع ہونے اس لڑائی میں اب تک سینکڑوں جانیں جا چکی ہیں اور سوڈان کی شہروں میں لاکھوں لوگ یرغمال بن گئے ہیں جہاں انہیں ایک جانب گولیوں اور دھماکوں سے خود کو بچانا ہے اور دوسری جانب لوٹ مار کرتے جتھے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ نے بتایا کے خرطوم اور دار فور میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک بیس ہزار سوڈانی سرحد عبور کرکے چاڈ میں داخل ہو چکے ہیں جہاں پہلے ہی چار لاکھ سوڈانی پناہ لیے ہوئے ہیں جو پچھلے تنازعات کے دوران سوڈان سے جان بچا کر چاڈ کے سرحدی علاقے کے اردگرد 14 کیمپوں میں مقیم ہیں۔
معدنیات‘ سونے کی سمگلنگ اور یمن‘ لیبیا‘ شام و یوکرین میں جنگجوؤں کو بھیجنے کی وجہ سے ان دونوں جرنیلوں کے پاس اتنے زیادہ وسائل موجود ہیں کہ عالمی پابندیوں کے ذریعے ان پر دباؤ کارگر نہیں ہوگا۔ ان حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو سوڈان میں جاری تنازع کو طول دینے والے وہ سارے اجزا موجود ہیں جو لبنان‘ شام‘ یمن اور ایتھوپیا کے تنازعات کی طرح اسے دہائیوں تک جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس تنازع کے طول پکڑنے کی صورت میں علاقائی اور بین الاقوامی فریقین بھی اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اس تنازع میں فریق بن سکتے ہیں۔
ایتھوپیا سے نکلنے والا دریائے نیل سوڈان اور پھر مصر کو سیراب کرتا ہے۔ پانی کی تقسیم پر ان ملکوں کے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔ ایتھوپیا نیل پر ایک بڑا ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ جنرل برہان کے مصری صدر السیسی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ حالیہ جھڑپوں سے قبل سوڈان میں سوڈانی اور مصری افواج مشترک فوجی مشقیں کررہی تھیں۔ جنرل حمیدتی کے حامیوں نے مصری فوجی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا جنہیں بعد میں رہاکر دیا گیا۔ اگر جنرل برہان کی حامیوں کو شکست ہوتی ہے تو شاید مصر اس تنازع میں غیر جانبدار نہ رہ پائے۔ جبکہ حمیدتی کی سریع الحرکت فورس کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ آر ایس ایف نے یمن میں حوثی باغیوں کے مقابلے کے لیے عرب امارات اور سعودی عرب کو مدد فراہم کرتے ہوئے ہزاروں جنگجو یمن بھیجے تھے۔
ان دونوں جرنیلوں کے ساتھ روس کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ رواں برس فروری میں روس اور سوڈان کے درمیان پورٹ سوڈان میں بحری اڈے کی تعمیر کا معاہدہ طے پایا۔ روس بحیرۂ احمر میں جو بحری اڈہ تعمیر کرنا چاہتا ہے‘ یہ بندرگاہ یورپ کے لیے جانے والی توانائی کی کھیپ کے راستوں پر انتہائی اہم مقام پر واقع ہے۔ اس معاہدے پر امریکہ کو تشویش ہے ۔ روس کی ایک پرائیویٹ ملٹری کمپنی ویگنر گروپ بھی چند برسوں سے افریقہ میں سرگرم ہے۔ ویگنرگروپ کے فوجی سوڈان اور پڑوسی ملک وسطی افریقی جمہوریہ میں کام کرتے ہیں۔ سونے کی برآمد کو حمیدتی گروپ کنٹرول کرتا ہے جس کی وجہ سے جنرل حمیدتی کے ساتھ ویگنر گروپ کے کاروباری تعلقات ہیں جبکہ امریکہ اور یورپی یونین سوڈان میں روسی ویگنر گروپ سے تعلق رکھنے والی کان کنی کی دو کمپنیوں پر سونے کی سمگلنگ کے الزامات کے تحت پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔
طویل عرصے سے متوقع اقتدار کی کشمکش سے نہ صرف سوڈان بلکہ ہارن آف افریقہ کا بڑا علاقہ غیرمستحکم ہونے کا خطرہ ہے جو کہ پہلے ہی بے شمار تنازعات سے گھرا ہوا ہے۔ خلیجی طاقتوں‘ امریکہ‘ یورپی یونین اور روس نے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے علاقے کو جنگ کا میدان بنایا ہوا ہے۔ امریکہ‘ ایران‘ روس‘ چین کے ساتھ سوڈان کے تعلقات منقطع کرانے‘ پورٹ آف سوڈان کو روسی بحریہ کے لیے بند کرنے اور اپنے ایران مخالف اتحاد کو مضبوط کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔ 9 مارچ کو امریکی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ وکٹوریہ جین نولینڈ نے سوڈان کا دورہ کیا جس کے تقریباً ایک ماہ بعد ہی سوڈان میں اقتدار کے دونوں شراکت داروں کے درمیان کشیدگی نے جنگ کی صورت اختیار کر لی۔ 22 اپریل کو امریکہ نے ریسکیو آپریشن کے ذریعے اپنے شہریوں اور سفارتی عملہ کو سوڈان سے نکال لیا۔ یوکرین سے باہر ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان ایک اور جنگ شروع ہو چکی ہے۔
سوڈان میں پیدا ہونے والے داخلی بحران کے اثرات اس کی سرحدوں سے باہر جانے کا خدشہ ہونے کے ساتھ 2011ء میں جس طرح طویل خانہ جنگی کے بعد جنوبی سوڈان الگ ہو گیا اور سوڈان میں پیدا ہونے والے تیل کے 75 فیصد ذخائر بھی اس کے حصے میں چلے گئے‘ اسی طرح اب اقتدار کے حصول کے لیے جاری حالیہ لڑائی اگر ایک طویل خانہ جنگی کی شکل اختیار کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں سوڈان مزید عرب اور افریقی حصوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں