گزشتہ ہفتے چھ ہزار ارب روپے سے زائد خسارے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا۔ قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن کے دوران اراکین کی حاضری انتہائی کم تھی اور بجٹ پر بحث کے دوران اراکین اسمبلی تقاریر بھی کررہے تھے لیکن جلد ہی اسے منظور بھی کر لیا جائے گا۔ بجٹ کا کل حجم 144کھرب 60ارب روپے ہے جبکہ اس میں ایک ہزار 74 ارب روپے کی سبسڈی پٹرولیم‘ پاسکو‘ کھاد کے کارخانوں اور میرا گھر سکیم کے لیے رکھی گئی ہے۔ اکاؤنٹ کمیٹی کا اجلاس چار مرتبہ ملتوی کرنے کے بعد بالاخر حکومتی سطح پر بتایا گیا کہ ملکی معیشت کا گروتھ ریٹ 0.29 فیصد ہو گا جبکہ ماہرینِ اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ملکی اکانومی کا گروتھ ریٹ کم از کم منفی 3فیصد ہو گا۔
ملک کی 25کروڑ آبادی میں سے تقریباً 10کروڑ تو بالکل غریب ترین ہیں جنہیں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ان کو اگلے وقت کا کھانا ملے گا بھی یا نہیں‘ 5سے 7کروڑ لوگ متوسط طبقے میں آتے ہیں۔ جس ملک کی 50فیصد سے زیادہ آبادی انتہائی مشکل حالات میں زندگی بسرکر رہی ہے‘ اس ملک کے غریب عوام کے نمائندوں کی بات کریں تو چاروں صوبائی اسمبلیوں‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی ماہانہ تنخواہ کی مد میں تقریباً 4ارب سے زیادہ خرچ آتا ہے۔ تنخواہ کے علاوہ ہاؤس رینٹ‘ گاڑی‘ سکیورٹی‘ کیبل‘ انٹرنیٹ‘ ٹیلی فون بل‘ خدمتگار‘ اندرون و بیرون ملک سفر کے لیے ٹکٹ‘ علاج کی سہولیات اور مختلف اجلاسوں کے اخراجات‘ بونس کے ساتھ صوبائی و قومی اسمبلیوں کے سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر‘ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ‘ گورنرز‘ وزیرِاعظم اور صدر کی دیگر تاحیات مراعات کا تخمینہ اس کے علاوہ ہے۔
بیوروکریسی‘ جو ملکی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے‘ سیاسی پارٹیاں بے شک اپنے ٹینور کے ساتھ اقتدار میں آتی اور جاتی رہتی ہیں لیکن بیوروکریسی کا ہر دور میں اپنے ملک و عوام کی ترقی کے لیے کوشاں رہنا اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہوتا ہے‘ اسی لیے تو بیوروکریٹس کو پبلک سرونٹ کہا جاتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کی سنجیدہ کوشش نہ کرنا اور اگر کوئی حکومت ٹیکس نیٹ کو توسیع دینے کی کوشش کرے تو اس کی سخت مخالفت ہونا‘ فنڈز کو ایکسپورٹ کی کم قیمت دکھا کر بیرونِ ملک جانے دینا اور مہنگے داموں امپورٹ کرنے کے فیصلوں کے نفاذ کی توسیع جیسے اقدامات ہی بنیادی وجہ ہیں جنہوں نے ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ ملکی آزادی کے 75سال گزرنے کے باوجود عوام کا غربت سے نہ نکلنا‘ مختلف شعبہ جات کی عالمی دوڑ میں ملک کا پیچھے رہ جانا یا مجموعی طور پر جس صورتحال کا اس وقت ملک کو سامنا ہے‘ اس ساری صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے ذہین وژنری بیورکریٹس جو عملیت کے قائل ہیں‘ ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ ممالک کی ترقی میں ان کا کردار بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ غربت اور مستقبل سے وابستہ بے یقینی ہی نہ صرف بڑے شہروں بلکہ دیہی علاقوں میں بھی دہشت گردی‘ چوری‘ راہ زنی‘ ڈکیتی جیسے واقعات میں اضافے کا بنیادی محرک ہے۔ ہماری سوسائٹی نے میٹھے زہر کے طور پر اس نظام کی سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی اقدار کو اپنا لیا ہے جو دنیا بھر میں رائج پروفیشنل اور مارکیٹ تعلقات کے بجائے ذاتی مفادات‘ اقربا پروری‘ قوانین کی خلاف ورزی‘ میرٹ کے مقابلے میں من پسندی پر لوگوں کو نوازنے پر مبنی ہے۔ ان سب کے ہماری سماجی اقدار اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر جو مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ان کو مدنظر رکھتے ہوئے باقاعدہ اقدامات کا وقت آن پہنچا ہے۔ غریب اور امیر میں بڑھتا ہوا فرق معاشرے میں تقسیم کو گہرا کر رہا ہے۔ریئل اسٹیٹ‘ ہول سیل اور ریٹیل کے شعبوں کو ہی اگر درست طور پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو سات سو ارب روپے سے زیادہ ٹیکس جمع ہو سکتا ہے۔ سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے جب اہم فیصلے کیے جائیں تو چند بااثر افراد‘ جنہوں نے پورے سسٹم کو یرغمال بنایا ہوا ہے‘ وہ اکثر ناراض ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کی ناراضی ملکی معیشت کی بہتری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے تو ملکی مفاد میں اسے برادشت کر لینا چاہیے کیونکہ ترقی یافتہ ملکوں نے ٹیکس نظام کو بہتر بناکر اور اسے توسیع دے کر ہی ترقی کی ہے۔
بحیرۂ روم میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والا حالیہ حادثہ نہ تو اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ تھا اور نہ ہی آخری۔ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس کشتی میں سوار 750 کے قریب مسافروں میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ اس حادثے میں اموات کی تعداد 82 ہوگئی ہے۔ 500کے قریب افراد تاحال لاپتا ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ کئی روز گزر جانے پر لاپتا مسافروں کے زندہ ملنے کی امید معدوم ہونے پر یونانی کوسٹ گارڈز نے ان کا تلاش آپریشن ختم کر دیا ہے۔ لاپتا ہونے والوں کے لواحقین پوری زندگی اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر رہیں گے۔ یومِ سوگ منانے سے آگے بڑھ کر ان عوامل پر بھی غور کرنا ہوگا کہ یہ سب لوگ اپنے وطن کو چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوئے؟ کیا اچھی زندگی اور محفوظ مستقبل کا خواب دیکھنا جرم ہے؟ ملک کے سیاسی و معاشی حالات اچھے ہوں‘ عوام کو معیاری تعلیم اور بنیادی سہولیات تک رسائی ہو اور میرٹ کو نظر انداز نہ کیا جائے تو اپنے وطن‘ گھر بار اور پیاروں کو چھوڑ کر کون دیارِ غیر جانے کے لیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے گا؟ زمین جب غیرمحفوظ ہو جاتی ہے تبھی انسان اپنے بچوں کو کشتی کے حوالے کرتے ہیں۔ غربت‘ ناکافی انفراسٹرکچر اور بنیادی ضروریات تک محدود رسائی‘ ایسے حالات سے نمٹنے اور شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے حکومتی مشینری یعنی پبلک سروس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
ملک کی معاشی حالت ہم سب کے سامنے ہے‘ ایسی صورتحال میں سینیٹ میں چیئرمین‘ ڈپٹی چیئرمین اور اراکین کے لیے مراعات کا جو بل پاس ہوا ہے‘ ایک تو ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر اس بل کے پیش ہونے اور پاس ہونے کے لیے یہ وقت تو ہرگز مناسب نہیں تھا اور اگر پاس کیا بھی گیا تو اسے حال سے لاگو کیا جانا تو قابلِ فہم لیکن ماضی سے اطلاق کرکے جو نئی روایت کی بنیاد رکھی گئی ہے‘ ایسی مثال ملکی تاریخ میں شاید ہی ملے اور پھر حیرانی اس بات کی ہے کہ سینیٹ میں موجود پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اسے پاس کر دیا ہے۔ عوام کے نمائندوں اور عوام کے درمیان Disconnect اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عوام کے نمائندے جنہیں عوام منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجتے ہیں‘ وہ ان کی فلاح کے لیے زبردست پالیسیاں بنانے اور وابستہ قوانین پر عمل درآمد کرنے کے بجائے ملک اور عوام کے معاشی حالات سے بے خبر اور لاتعلق ہوکر اپنے مفادات کے تحفظ اور تاحیات مراعات کے حصول کے لیے بل پاس کر جاتے ہیں۔ ملک قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے قرض دینے سے انکاری ہیں اور ان عوامی نمائندوں کو یہ خیال تک نہیں آیا کہ ملکی معیشت اگر اسی طرح تنزلی کا شکار رہی تو وہ مراعات جن کے بل پاس کیے جا رہے ہیں‘ کیسے حاصل کی جائیں گی۔
بہر حال اس کے ساتھ ملکی سطح پر خوش آئند خبریں بھی آ رہی ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے وزیراعظم نے سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلٹیشن کونسل بنا دی ہے جس کے چیف آف آرمی سٹاف‘ وفاقی وزرا‘ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی ممبر ہوں گے اور ہم پُرامید ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس پلیٹ فارم سے ملک میں سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا۔