روسی صدر ولادیمیر پوتن کے 23سالہ دورِ اقتدار کو 2011ء کی جمہوریت نواز بغاوت کے بعد دوسرا شدید ترین جھٹکا 23جون کو اس وقت لگا جب ان کے شیف کہلانے والے بااعتماد ساتھی اور نجی فوجی کمپنی ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزن نے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے 25 ہزار جنگجوؤں کو روس کے مغربی شہر روستوف سے ماسکو کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا۔ ویگنر گروپ کے مسلح اہلکار ماسکو سے صرف 125 میل کی دوری پر تھے جب بیلاروس کے صدر کی ثالثی میں روسی حکومت اور باغی گروپ کے مابین کامیاب مذاکرات اور معاہدہ طے پانے کے بعد باغی رہنما بیلاروس اور جنگجو اپنی بیرکوں میں چلے گئے۔ بغاوت کے اس مختصر ڈرامے نے روس کے وقار کو عالمی سطح پر ٹھیس پہنچائی ‘ اقتدار پر پوتن کی گرفت کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا اور مشرقِ وسطی بالخصوص افریقہ میں روسی اہداف کے مستقبل کو غیریقینی میں دھکیل دیا ہے۔ بغاوت نے روس کی حکمران جماعت کے اندر موجود دراڑوں کو بھی عیاں کر دیا ہے۔ ویگنر کے سربراہ نے بغاوت کے دوران عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ''پوتن ازم‘‘ کو ایک ایسے نظام کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کہ جس میں کوئی جوابدہی نہیں ہے‘ جسے بدعنوان اہلکاروں کی ایک ایسی ٹولی چلاتی ہے جس کی دلچسپی ملک و عوام کے لیے کام کرنے کے بجائے خودکو مالا مال اور اپنے باس کو خوش کرنا ہے۔ 23اور 24جون کو رونما ہونے والے غیرمعمولی واقعہ نے نہ صرف پوتن کے اقتدار کو لاحق خطرات کو واضح کیا بلکہ اس امکان کو بھی ظاہر کیا کہ جو کچھ مستقبل میں ہوگا وہ انتہائی غیر متوقع ہو سکتا ہے۔ پریگوزن کے ویگنر گروپ پر پہلے ہی یوکرین‘ شام‘ لیبیا‘ مالی‘ موذمبیق اور سنٹرل افریقن ریپبلک میں اندھا دھند قتل اور دیگر جرائم کے الزامات ہیں۔ حالیہ بغاوت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس گروپ کی طاقت اگر زیادہ نہیں تو برابر ہو سکتی ہے۔ فی الوقت ہم نہیں جانتے کہ روس کس طرف جا رہا ہے۔ روس میں طاقت کے مراکز میں فوج‘ اولیگارچز (Oligarchs) اور صدر پوتن کا قریبی حلقہ شامل ہے۔ موجودہ صدر کے ممکنہ جانشین کے لیے کوئی معتبر نام ابھی سامنے نہیں آیا۔ پوتن نے بغاوت کو مصلحت سے سرکرنے کے بعد روس کی سیاست میں کم از کم ایک توازن قائم کر لیا ہے۔ بغاوت نے دنیا کو پوتن کے بعد کے روس کی جھلک فراہم کی! کیا اب بھی بغاوت کا کوئی امکان ہے؟
حالیہ ناکام بغاوت نے صدر پوتن کو اپنی طاقت کو مزید مضبوط کرنے اور ویگنر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ مستقبل قریب میں ایسی کوئی قوت نظر نہیں آتی جو پریگوزن کے تجربے کو دہرا سکے۔ خوف کے باوجود پوتن نے اپنی حکومت کو بکھرنے نہیں دیا۔ بیسویں صدی کے اختتام پر روس میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ولادیمیر پوتن نے ممکنہ سیاسی خطرات کو پوری تندہی سے بتدریج ختم کردیا ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے اولیگارچز (Oligarchs) کو نشانہ بنایا جو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1990ء کی دہائی میں اقتدارمیں آئے تھے۔ صدر پوتن نے ملک کے بڑے آئل ٹائیکون میخائل خودور کوفسکی ( Mikhail Khodorkovsky) کو جیل میں ڈال کر دوسرے صنعتی اور بزنس ٹائیکونز کو یہ پیغام دیا کہ اگر وہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں چلیں گے تو ان کا انجام بھی خودور کوفسکی جیسا ہو سکتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی (Alexei Navalny) کو پہلے زہر دیا گیا اور پھر پابند سلاسل کر دیا گیا‘ ان کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے جمہوریت بحالی کی تحریک کو سختی سے کچلا گیا اور بہت سے رہنماؤں کو جلاوطن کردیا گیا۔ اس کے برعکس انتہائی دائیں بازو کے لیڈروں کے حوالے سے پوتن کا رویہ مختلف رہا ہے جب روس نے یوکرین میں جنگ کا آغاز کیا تو وہ قوم پرست قوتیں جو نظریاتی طور پر پوتن کے لیے خطرہ بن سکتی تھیں‘ انہیں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرنے اور بعض اوقات فوج پر تنقید کرنے کی آزادی دی گئی اس آزادی کا فائدہ پریگوزن نے اٹھایا اور روسی فوجی قیادت پر اس نے کھل کر تنقید کی۔ پریگوزن کے کرائے کے فوجی اس وقت میدان میں اترے جب روسی فوج کو اہلکاروں کی کمی کا سامنا تھا۔ ویگنر گروپ کی باخموت پر حتمی فتح یوکرین میں روس کی ایک نادر کامیابی ہے۔ پریگوزن کے اقدامات نے اس امکان کو بڑھایا کہ پوتن کے ساتھ طویل عرصے سے اتحادی رہنے والا کوئی روسی رہنما حکومت کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ روسی جلاوطن رہنماؤں نے ویگنر گروپ کے بغاوت کے اعلان پر روسی عوام کو ہتھیار اٹھانے اور پریگوزن کی حمایت کرنے پر اکسایا لیکن روس کے لبرل حلقوں کا ردعمل حیران کن تھا۔ انہوں نے تشدد کے ذریعے اقتدار میں آنیوالی کسی بھی حکومت کو رد کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے ذریعے اقتدار میں آنے والی حکومت ملک کو انتشار کی جانب لے جائے گی۔ بیلاروس کے صدر ایلگزینڈر لوکاشینکو کا بغاوت ختم کروانے اور مذاکرات میں سرگرم کردار بھی معنی خیز ہے۔ روسی حکومت اور باغیوں کے درمیان معاہدے کے بعد ویگنر گروپ کے سربراہ کا جلاوطن ہوکر بیلاروس چلے جانا مستقبل میں لوکا شینکوکے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے کیونکہ لوکا شینکو تقریباً 30برس سے بیلاروس کی سربراہی کر رہے ہیں۔ 2020ء میں ہونے والے انتخابات میں ان کی کامیابی کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔ 2024ء بیلاروس میں انتخابات کا سال ہے اور صدر ایلگزینڈر لوکا شینکو پریگوزن کی ویگنر کو اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
براعظم افریقہ میں روس کے بڑھتے ہوئے عسکری و تجارتی اثر و رسوخ میں ویگنر کا کردارکلیدی رہا ہے۔ لیبیا‘ سوڈان سے لے کر مالی‘ سینٹرل افریقن ریپبلک اور موزمبیق تک پورے براعظم میں فوجی‘ کان کنی اور دیگر شعبوں میں یہ گروپ سرگرم ہے۔ روس ویگنر تعلقات 19ویں صدی کی یورپی تجارتی کمپنیوں کے پیٹرن کی طرح ہیں‘ نو آبادیاتی دور کی برطانوی‘ جرمن اور فرانسیسی کمپنیوں کو اپنی اپنی ریاستوں سے مینڈیٹ ملا ہوا تھا۔ وکگنت کو بھی روس کی مکمل سپورٹ ہے اگر صدر پوتن ویگنر کے جنگجوؤں کو روسی فوج میں ضم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس گروپ کا افریقہ میں کارروائیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ سینٹرل افریقن ریپبلک کے صدر کے خلاف 2020ء میں ہونے والی بغاوت کو ویگنر نے کچل دیا تھا اور اب صدر کی سکیورٹی کی ذمہ داری ویگنر کے پاس ہے۔ اسی طرح مالی میں ویگنرگروپ کے کرائے کے فوجیوں کی مدد مالی حکومت کو حاصل ہے اور ان کرائے کے فوجیوں کی ایما پر مالی کی حکومت اقوامِ متحدہ کی امن فوج کو ملک سے نکالنے کے لیے سرگرم ہے۔ افریقہ میں تیل‘ سونے اور ہیرے کی کان کنی کے زیادہ تر ٹھیکے اب فرانس‘ کینیڈا اور جنوبی افریقہ کی کمپنیوں کے بجائے ویگنر گروپ کے پاس ہیں۔ روس کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ افریقہ میں ویگنر کی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ افریقی ممالک میں ویگنر نے ایک بے رحم خود کار مالیاتی کاروباری ماڈل قائم کر رکھا ہے۔ جس میں فوجی تشدد اور سونے اور ہیرے کی کانوں پر کنٹرول شامل ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ یہ گروپ اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے خود کو مسلح کرنے کے لیے دوسرے ذرائع تلاش کرتے ہوئے براعظم افریقہ میں کارروائیاں جاری رکھے لیکن روسی لاجسٹک حمایت کو تبدیل کرنا مشکل ہوگا۔ افریقہ میں ویگنر انٹرپرائزز میں ذیلی کمپنیوں کا نیٹ ورک شامل ہے۔ ان میں سے ہر ایک گروہ مستقبل میں اپنے آپ کو کس طرح رکھتا ہے اس کا انحصار مکمل طور پر یوگینی پریگوزن کی قسمت پر ہے جو فی الحال غیر واضح ہے۔