چیک نژاد فرانسیسی معروف ادیب میلان کنڈیرا سے میری پہلی ملاقات 90ء کی دہائی کے اوائل میں یونیورسٹی لائبریری میں ان کے مشہور ناول ''Life Is Elsewhere‘‘ کے ذریعے ہوئی تھی۔ کنڈیرا کی شہرت‘ عقل و دانش اور عوامی قبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ میلان کنڈیرا کا پہلا ناول ''دی جوک‘‘ 1967ء میں جب منظرِ عام پر آیا تو اشاعت کے بعد تین روز کے اندر ناول کی تمام کاپیاں بک گئیں۔ اس ناول کا بنیادی تانا بانا چیکو سلواکیہ میں سیاسی جبر‘ بیگانگی اور شخصی آزادی کے خاتمے کے گرد بُنا ہوا ہے۔ عوام میں ناول کی اس حد تک پسندیدگی بقول مصنف اس بات کا ثبوت تھا کہ کمیونزم کی روسی تفہیم چیکو سلواکیہ کے عوام کو پسند نہیں تھی۔ زندگی اور حقیقت کے قریب کنڈیرا کی تخلیقات عوامی آواز اور عوامی بیداری کے ساتھ نہ صرف حکمرانوں کے لیے بے چینی کا سبب بنتی رہیں بلکہ اس کا خمیازہ کنڈیرا بھی بھگتتے رہے۔
1968ء میں سوویت یونین کے چیکو سلواکیہ پر حملے پر تنقید کرنے کی وجہ سے نہ صرف انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ دوسری بار چیکو سلواکیہ کی کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت بھی معطل کردی گئی۔ کنڈیرا مجبوراً 1975ء میں فرانس ہجرت کر گئے۔ ان کا ناول''The Unbearable Lightness of Being‘‘ اسی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے ایک انٹرویو میں کنڈیرا نے کہا کہ آدمی جانتا ہے کہ وہ فانی ہے لیکن اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس قوم سے تعلق رکھتا ہے‘ وہ ہمیشہ قائم رہے۔ 1989ء میں ویلویٹ انقلاب نے کمیونسٹوں کو اقتدار سے پیچھے دھکیل دیا تو کنڈیرا کی قوم جمہوریہ چیک نے دوبارہ جنم لیا۔
جدوجہد سے بھرپور زندگی گزارنے والے کنڈیرا کا ماننا تھا کہ ''یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فنا ہو جانا ایک انسانی تجربہ ہے اور اس کے باوجود انسان نے اسے قبول نہیں کیا‘ اسے سمجھ نہیں سکا‘ دراصل انسان جانتا ہی نہیں کہ فنا ہو جانا کیا ہوتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو بھی نہیں جان پاتا کے مرنا کیا ہے‘‘۔ اس دانشور فلسفی ادیب کا ہر ناول انسانی حالت پر ایک منفرد تناظر پیش کرتا ہے اور ان کی ادبی مہارت اور فکر انگیزی کی مقبولیت میں اضافہ کرتا ہے۔ کنڈیرا کا دوسرا ناول ''زندگی کہیں اور ہے‘‘ 1969ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول ایک نوجوان شاعر جارومل (Jaromil) کی زندگی کے گرد گھومتا ہے جو دراصل فن‘ محبت و شناخت کی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی ایک کوشش ہے۔ مجھے یہ ناول اور اس کا مرکزی کردار‘ مصنف میلان کنڈیرا کی زندگی اور شخصیت کے قریب نظر آتا ہے۔ اس ناول میں جن فلسفیانہ سوالات کو اٹھایا گیا ہے‘ بعد میں کنڈیرا کی فکشن و نان فکشن تحریریں ان ہی سوالوں کے جوابات کے لیے سرگرداں نظر آتی ہیں۔
ادبی فن پارے انسانی تہذیب کی ایسی پائیدار میراث ہیں جو دنیا کی ترقی اور اسے سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔ ادیب انفرادی شعور اور تاریخ و سیاست کے بدلتے دھاروں کے درمیان رابطہ قائم کرتا ہے۔ چیک نژاد فرانسیسی ادیب میلان کنڈیرا کا شمار ایسے بڑے ادبا میں ہوتا ہے‘ جن کی تحریروں نے انسانی ذہنوں کو متاثر کیا ہے۔ میلان کنڈیرا ہمارے عہد کے ایسے قلمکار تھے کہ جن کی تحریروں نے انسانی وجود کی پیچیدگیوں کے بارے میں اپنی گہری بصیرت سے دنیا بھر کے قارئین کو مسحورکر رکھا ہے۔ شناخت‘ محبت اور انفرادی آزادی کی جدوجہد جیسے موضوعات کے ذریعے کنڈیرا نے افسانے کے دائرے میں خود کو ایک روشن خیال کے طور پر پیش کیا ہے۔ یکم اپریل 1929ء کو برنو چیکو سلواکیہ میں ایک موسیقار کے گھر پیدا ہونے والے میلان کنڈیرا نے ادب اور جمالیات کی تعلیم پراگ کی چارلس یونیورسٹی سے حاصل کی۔ سیاسی طور پر ہنگامہ خیز دور میں ان کی پرورش نے ان کے طرزِ تحریر اور موضوعات کو متاثر کیا۔ شاعری اور افسانہ نگاری سے کنڈیرا نے ادبی حلقوں میں اپنی پہچان بنائی لیکن یہ ان کے ناول تھے جو ایک بااثر مصنف کے طور پر پوری دنیا میں ان کی مستحکم پہچان کا سبب بنے۔ کنڈیرا کی تحریریں انسانی نفسیات کے پیچ در پیچ الجھاؤ میں راستہ تلاش کرتی ہیں۔ وہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں جو قاری کے ساتھ ان کے تعلق کو مضبوط تر کر دیتے ہیں۔ شناخت‘ انفرادی زندگی پر تاریخی و سماجی قوتوں کے اثرات ان کے پسندیدہ موضوعات رہے۔
کنڈیرا کے شاہکار ناول ''وجود کی ناقابلِ برداشت لطافت‘‘، ''بقائے دوام‘‘ اور ''پہچان‘‘ میں وہ اپنے کرداروں کے ذریعے انسان کو درپیش وجودی مخمصوں کا پتا دیتے ہیں جس میں ذاتی آزادی اور سماجی تناؤ کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان کے فکشن کی ایک اور خصوصیت محبت اور رشتوں کے حوالے سے ان کی بصیرت انگیز تحقیق ہے۔ وہ انسانی روابط کی جو باریک بین تصویر کشی کرتے ہیں‘ وہ ترقی اور ستم ظریفی دونوں سے متاثر اور رومانس کے روایتی تصورات کو چیلنج کرتی ہے۔ کنڈیرا کا منفرد بیانیہ اسلوب فکشن اور حقیقت کے درمیان کی سرحدوں کو دھندلا کرتے ہوئے متعدد کہانیوں اور تناظر کو ایک ساتھ باندھتا ہے۔ انٹرٹیکسچویلٹی اور میٹا فکشن جیسی تکنیکوں کو استعمال کرتے ہوئے کنڈیرا قارئین کو کہانی سنانے کی نوعیت اور مصنف کے کردار پر سوال کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کی افسانوی اور غیر افسانوی تحریروں کے متعدد زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں جس سے عالمی سطح پر نہ صرف ان کے قارئین کا دائرہ وسیع ہوا بلکہ ان کے چاہنے والوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
کنڈیرا نے انسانی حالت کی جس انداز میں تصویر کشی کی ہے‘ اسے تمام ثقافتوں سے تعلق رکھنے والوں نے سراہا ہے۔ شناخت‘ محبت اور وجودیت کی کھوج کے ذریعے کنڈیرا نے معاصر ادب پر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کی وراثت قارئین کی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی اور یہ ہی ادب کی لازوال طاقت ہے۔ کنڈیرا میڈیا پر آنا زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مصنف کو اپنے کام کے ذریعے بات کرنا چاہیے۔ ان کا ایک غیرمعمولی ناول ''خندہ اور فراموشی‘‘ 1979ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول سات حصوں میں لکھی گئی ایک کہانی ہے جن میں تاریخ کے کچھ حصوں کو مٹانے اور ایک متبادل ماضی تخلیق کرنے کی تکنیکی کو اپناتے ہوئے مطلق العنان حکومتوں کی جانب سے طاقت کے غلط استعمال کو ظاہر کیا گیا ہے‘ اس ناول کو ناقدین نے غیرمعمولی ذہنی طاقت کی اختراع قرار دیا۔
میلان کنڈیرا کے مضامین کا مجموعہ ''اغوا شدہ مغرب: وسطی یورپ کا المیہ‘‘ روس اور مغربی یورپ کے درمیان موجود تناؤ اور اس میں پھنسے لوگوں کی حالت زار کو پیش کرتا ہے۔ کنڈیرا چھوٹی قوموں‘ زبانوں اور ثقافتوں کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''وسطی یورپ کی چھوٹی قوموں جیسے چیک‘ سلواک اور یوکرین کی ثقافتی شناخت کو خطرہ لاحق ہے‘‘۔ یہ مضامین کنڈیرا کے ابتدائی مضامین میں سے ہیں لیکن یورپ کی موجودہ حالت کے آئینہ دار اور یوکرین میں روس کی موجودہ جارحیت اور باقی یورپ کے لیے اس کے خطرے کے حوالے سے بھی قابلِ ذکر ہیں۔ ان مضامین میں انہوں نے یورپ کی چھوٹی قوموں کا مقدمہ پیش کیا ہے جو ثقافتی اعتبار سے یورپ میں گہری جڑیں رکھتی ہیں باوجود اس کے کہ روس نے ہنگری‘ چیکو سلواکیہ‘ پولینڈ‘ یوکرین اور دیگر جگہوں پر ماضی میں اپنے نظریات مسلط کیے۔ کنڈیرا نے خبردار کیا کہ یہاں اصل المیہ روس نہیں بلکہ یورپ ہے جس کو اپنے آپ سے خطرہ ہے اور خطرے کی گھنٹی اکیسویں صدی میں بلند اور واضح ہے۔
تمام عظیم قلم کاروں کی طرح میلان کنڈیرا نے اپنے قارئین کے تخیل پر اَنمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ ان کے ناول کا مشہور فقرہ ''طاقت کے خلاف انسان کی جدوجہد بھول جانے کے خلاف یادداشت کی جدوجہد ہے‘‘، انسان کی فطری جدوجہد کو عیاں کرتا ہے ان لازوال خوبصورت تحریروں کا تخلیق کار 11جولائی 2023ء کو اصل زندگی کی تلاش میں چلا گیا۔