آخری شام تک سوچ سمجھ کر جینا!

جرمنی کے خوبصورت شہر ہائیڈل برگ میں کچھ عرصہ قیام کے دوران مجھے اپنے شریکِ حیات اور بچوں کے ساتھ پورے مغربی یورپ کی سیاحت کے ساتھ وہاں کے تعلیمی نظام کا بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ ان ملکوں کی یونیورسٹیوں میں تحقیق و تدریس کے طر یقہ کار کو سمجھنے کے علاوہ میرے لیے زیادہ خوش کن لمحات وہ ہوتے تھے جب جرمن ادب میں عصری ادبی رجحانات اور مباحث کے پروگراموں میں شرکت کرنے اور بڑے اُدبا کو براہِ راست سننے کے نادر مواقع میسر آتے تھے۔ ایسے ہی خوشگوار لمحات میں وہ شاندار دن بھی تھا جب میری ملاقات دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والے جنگ سے تباہ حال جرمنوں کی روز مرہ کی زندگی کو اپنی تحریروں کا موضوع بنانے والے جرمن ادیب مارٹن والزر (Martin Walser) سے ان کے آبائی شہر واسر برگ (Wasserburg) میں ہوئی تھی۔ ہم ہائیڈل برگ سے بذریعہ ٹرین ساڑھے تین گھنٹے کا سفر طے کرکے واسر برگ پہنچے تھے۔
والزرکا یہ آبائی شہر جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کی سرحد پر واقع دیومالائی جھیل کانسٹنس (Lake Constance) کے کنارے پر آباد ہے۔ واسر برگ اپنے دیو مالائی حُسن اور مارٹن والزر کی وجہ سے مشہور ہے۔ والزر کے روزمرہ کے معمول میں یہ شامل تھا کہ وہ سہ پہر کے وقت جھیل کے کنارے وقت گزارتے تھے یہیں ان کے زیادہ تر مداح ان سے مل سکتے تھے۔ فکشن کے شیدائی دنیا بھر سے واسر برگ کی دیومالائی جھیل اور مارٹن والزر سے ملنے آتے رہتے تھے۔ میں نے اس جھیل کے کنارے ہی ان سے ان کے ناول کے انگریزی ترجمہ Breakers پر دستخط لیے تھے۔ چند لمحوں کی اس ملاقات کے دوران میں نے انہیں انتہائی مشفق‘ ملنسار اور حقیقت پسندانہ طبیعت کا مالک پایا۔ 28جولائی 2023ء کو ان کے انتقال کی خبر مجھے ماضی کے ان جھروکوں کی جانب لے گئی جو وقت کے ساتھ دھندلا گئے تھے۔
مارٹن والزر کا شمار دوسری عالمی جنگ کے بعد تباہ حال اور شکست خوردہ جرمنی کے اہم مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے ملک کی تعمیر اور قوم کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اپنے قلم کو وقف کر دیا۔ والزر کی کہانیوں کے کردار اور ماحول جنوبی جرمنی کے دیہی علاقوں کے عکاس ہیں۔ انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے بعد منقسم جرمن ریاست میں مغربی حصے کے جرمن معاشرے کے رویوں اور رجحانات کو قلم بند کیا۔ ان کی تصانیف بورڑرا طبقے کی اس منافقت کا انکشاف بھی کرتی ہیں جو اس دور کی قدامت پسند جرمن معاشرے میں پائی جاتی تھی۔ ان کے موضوعات عالمگیر نوعیت کے رہے۔ ان کا پہلا ناول The Gadarene Club‘ 1957ء میں شائع ہوا جس نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی اور نقادوں کی جانب سے والزر کے اس ناول کو جرمن معاشرے کا طنزیہ پورٹریٹ کہا گیا‘ اسی ناول پر انہیں ہرمن ہیسے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
والزر ہی کا ناول ''ایک نقاد کی موت‘‘ جب منظر عام پر آیا تو انہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے اپنے اس ناول میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے دعویداروں کی دو رُخی کا پردہ چاک کیا تھا۔ والزر کے کہانیوں کے زیادہ تر کردار صنعتوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کش ہیں۔ وہ مغربی دنیا میں اپنے قلم کی طاقت سے ان محنت کشوں کے جہاں کو دنیا کے سامنے لے کر آئے اور یہ واضح کرنے میں کامیاب ہوئے کہ 1960ء کی دہائی سے کام کرنے والی دنیا بدل رہی ہے۔ اپنی تخلیقات کے ذریعے یہ عیاں کرنے کی کوشش کی کہ اب کام ہی انسان کی پوری سماجی زندگی کا محور اور مرکز ہے۔ اس سلسلے میں ان کا ناول A Man in Love بہت اہم ہے‘ اس ناول کے موضوع اور زبان کے اختراعی استعمال نے ادبی ناقدین کو حیران کر دیا تھا۔
کئی سال تک بطور رپورٹر‘ ایڈیٹر اور ڈرامہ نگار جرمن ریڈیو سے وابستہ رہنے والے والزر نے 12 برس کی عمر میں نظمیں لکھنے کا آغاز کیا۔ لیکن ادبی دنیا میں ان کا پہلا تعارف ایک فکشن نگار کے طور پر افسانوں کے مجموعہ A Plane Over the House (1955) سے ہوا۔ اس مجموعہ میں شامل افسانہ Templone's end کو فوری طور پر گروپ 47 (جرمن اُدبا کا گروپ) کا ایوارڈ دیا گیا۔ نوجوان والزر نے دوسری عالمی جنگ کے آخری ایام میں فوج میں بطور سپاہی بھی خدمات انجام دیں جس کی پاداش میں انہیں جنگ کے خاتمے پر کچھ عرصہ قید بھی کاٹنا پڑی۔
والزر کا ماننا تھا کہ کوئی بھی چیز اس کے مخالف کے بغیر سچ نہیں ہے۔ سماجی و سیاسی وابستگی مارٹن والزر کو ان کے ہم عصروں ہینرک بول‘ کنٹرگراس اور سیگ فرائیڈ لینز سے جوڑتی ہے۔ انہوں نے ہمیشہ جنگ کی مخالفت کی۔ ویتنام میں امریکی جنگ کو مارٹن والزر نے انسانی شکار کی جنگ کہا اور اس کے خلاف شدید احتجاج بھی کیا جس کی وجہ سے کچھ حلقے انہیں کمیونسٹ ماننے لگے حالانکہ جب وہ ملک کی تقسیم و تباہی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے تھے تو ادبی و سیاسی حلقے انہیں دائیں بازو کا قلم کار قرار دیتے رہے۔
دیوارِ برلن کے انہدام پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''جرمنوں نے ایک ایسا انقلاب برپا کیا جو انقلاب کی تاریخ میں نیا ہے‘‘۔ اینٹی ہیرو کے قا ئل‘ شناخت‘ یاداشت اور ذاتی تعلقات کے موضوع پر قلم اٹھانے والے والزر کے نزدیک ناکامی بھی ایک اہم موضوع رہا جو ان کے بہت سے ناولوں میں مرکزی موضوع کے طور پر ابھرتا ہے۔
والزر کے فکشن کا مرکزی موضوع شناخت کی تلاش ہے‘ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے سماجی توقعات اور ذاتی خواہشات کے درمیان خود کو متعین کرنے کی جدوجہد اور پیچیدگیوں کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کے ناول Runaway Horse میں انہی کرداروں کی تصویر کشی کی گئی ہے جو اپنی شناخت کی تلاش میں ہیں۔ والزر کے شہرہ آفاق ناول Runaway Horse اور Death of a Critic اسلوبی اور تکنیکی حوالوں سے لاجواب ہیں۔ خود شناسی کے لیے حکایات کا استعمال کرتے ہوئے والزر اپنے کرداروں کے خیالات میں جھانکتے ہیں‘ ان کی نفسیات کی گہری بصیرت فراہم کرتے ہیں۔ بیانیہ کی یہ تکنیک قاری کوگہرے وجودی سوالات پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ والزر مہارت سے ایسی داستانیں بنتے ہیں جو ماضی اور حال کے درمیان کی لکیروں کو دھندلا دیتی ہیں۔ ان کا ناول The Swan Villa رشتوں کی تشکیل اور زندگی کے انتخاب کو متاثر کرنے میں یادداشت کی طاقت کی عمدہ مثال ہے۔
والزر کا فکشن انسانی رشتوں کی پیچیدہ تصویروں کا البم ہے۔ چاہے خاندانی بندھن ہوں‘ دوستیاں ہوں یا رومانوی الجھنیں‘ وہ انسانی روابط کی پیچیدگیوں کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں کرداروں کے تعاملات قاری کے لیے آئینہ کا کام کرتے ہیں۔ ایسا آئینہ جس میں قاری اپنے رشتوں اور جذباتی مناظر کو دیکھ سکتا ہے۔ فرانز کافکا پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے والے والزر کے مضامین کا مجموعہ جو 2021ء میں Leaves of Language کے عنوان سے شائع ہوا‘ اس مجموعے میں مارٹن والزر نے شاعرانہ انداز میں سامنے نظر آنے والی موت کو مخاطب کرتے ہوئے لکھاکہ میں اپنا دفاع نہیں کرتا لیکن میں سوچ سمجھ کر آخری شام تک زندہ رہنا چاہتا ہوں۔
اس دانشور کا ادبی ورثہ میں ان کے 70سے زیادہ ناول‘ افسانوں کے مجموعے‘ شعری مضامین‘ تقاریر و لیکچرز کے مجموعے شامل ہیں‘ جن میں سے اکثر ناول اور افسانوں کے تراجم انگریزی‘ فرانسیسی‘ فارسی‘ اطالوی‘ آذربائیجان‘ ہسپانوی و بنگالی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ مارٹن والزر کی موت کے ساتھ دنیا ایک عظیم مصنف سے محروم ہو گئی۔ ایک ایسا مصنف جس نے جو کہا‘ وہ کیا۔ وہ زندگی کی آخری شام تک سوچ سمجھ کر زندہ رہے‘ ان کی موت سے ایک باب نہیں بلکہ ایک کتاب بند ہوگئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں