2024ء بھارت میں عام انتخاب کا سال ہے اور نریندر مودی تیسری مدت کے لیے وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔ وہ اپنی بے ثمر حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کو کسی بھی طرح کا ریلیف نہیں دے سکے۔ اپنی ان ناکامیوں کو چھپانے کا ان کے پاس آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف مذہبی منافرت کو ہوا دی جائے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مودی کی پوری سیاست ہی مذہبی انتہا پسندی اور ہندو قوم پرستی کے گرد گھومتی ہے۔ 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور 2014ء سے لے کر آج تک مودی کی سربراہی میں بھارتی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین کا نفاذ و پُر تشدد واقعات میں بے انتہا تیزی بی جے پی کا طرۂ امتیاز ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی مکمل وادی کو جیل میں بدلنے والے مودی سرکار کے دور میں ہندو دھرم میں ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اس کا تصور بھی کسی مہذب معاشرے میں دشوار ہے۔ مسلمانوں اور دیگر غیرہندوؤں کے ساتھ ہونے والے برتاؤ کا تو کوئی پرسانِ حال ہی نہیں۔ ماضی میں جائے بغیر صرف گزشتہ چند ماہ میں رونما ہونے والے واقعات کو دیکھیں تو بھارت کے اندر اور باہر خالصتان تحریک سے تعلق رکھنے والے سکھوں کا قتل ہو یا ریاست منی پور میں مسیحی قبائل کو جس طرح کے انسانیت سوز تشدد کا سامنا ہے‘ اس پر مودی کی خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ یہ انسانیت سوز مظالم نہ صرف دنیا کی بڑی جمہوریت کے مسخ چہرے کا پردہ چاک کر رہے ہیں بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ رہے ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف امتیازی قوانین و سلوک بھارت میں کوئی نئی بات نہیں۔ ہریانہ میں امام مسجد کو قتل کرنے اور مسجد کو نذرِ آتش کرنے کے بعد شروع ہونے والے فسادات میں صرف پچھلے ہفتے بھارتی ریاست بہار‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اورمہاراشٹر کے مختلف علاقوں میں کئی بے گناہ مسلمانوں کو قتل کیا گیا ہے۔ مدھیہ پردیش میں ایک نوجوان مسلمان ڈاکٹر کو ڈیوٹی سے واپس گھر جاتے ہوئے مسلح لوگوں نے حملہ کرکے جان سے مار دیا۔ ان تمام واقعات کے بعد صرف ہریانہ کے ضلع نوح میں سات لوگوں کو قتل اور 750 سے زیادہ مکانات و دکانوں کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ بظاہر یہ واقعات آپس میں غیر منسلک ہیں لیکن ان میں مارے جانے والے اور جن کی املاک تباہ ہوئی ہیں‘ وہ سب مسلمان ہیں‘ یہ قدر ان واقعات میں مشترک ہے۔
نریندر مودی کے برسر اقتدار آتے ہی مذہبی منافرت میں بے حد اضافہ اس لیے ہوا کہ سخت گیر دائیں بازو کے گروہوں کی مودی حکومت مستقل حوصلہ افزائی کرتی آ رہی ہے‘ جس کی وجہ سے بھارت کی کل آبادی کے 15فیصد سے زیادہ مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم اور لنچنگ کا سلسلہ تھم نہیں پا رہا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر‘ نسل کشی کے مطالبات زور پکڑنے کے ساتھ ہندوؤں کے تہواروں کے دوران مسلمانوں پر مسلح حملے بڑھ جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت کی جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے آخر وہاں مسلمانوں کو ''گھس بیٹھیے‘‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ اورآج بھی بھارت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ چاہے آبادی میں اضافہ ہو‘ کورونا وائرس کا پھیلاؤ ہو‘ حتیٰ کہ مہنگائی تک کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے اورریاستی مشینری اس پر خاموش رہتی ہے۔ جیسے جیسے بھارت اگلے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے‘ لوگوں کو خدشہ ہے کہ تشدد کے واقعات بدستور بڑھتے جائیں گے۔ انتخابی فتوحات کے حصول کے لیے مودی کی ہندو قوم پرست جماعت ریاستی اداروں خاص طور پر پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ تشدد کے یہ تمام واقعات پولیس کے آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان واقعات کی ایف آئی آر مسلمانوں کے خلاف درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
2014ء سے آج تک مودی کے دورِ اقتدار میں مذہبی پولرائزیشن بڑھی ہے۔ بھارتی معاشرہ جو پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ اس کی متعدد ریاستوں میں اس وقت متعصب ہندو‘ اقلیتوں پر تشدد کر رہے ہیں اور اس حد تک بنیاد پرست ہو چکے ہیں کہ مسلمانوں اور دیگر غیر ہندو اقلیتوں کے خلاف تشدد ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ 2020ء میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مسلمانوں کے پُرامن احتجاج کے دوران بدترین ریاستی تشدد کرکے 200سے زیادہ لوگوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں گائے کے ذبح‘ خرید و فروخت اور ایک ریاست سے دوسری ریاست میں لے جانے پر پابندی عائد ہے اور گاؤ رکھشک ان قوانین کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گاؤ رکھشکوں نے 2015ء سے 2022ء کے دوران 80سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا۔ مودی حکومت نے گائے ذبح‘ طلاق‘ حجاب وغیرہ پر 12سے زیادہ مسلم مخالف قانون نافذ کیے ہیں۔ 1947ء سے جولائی 2023ء تک 50ہزار سے زیادہ مساجد کو نذرِ آتش یا مندروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ انتہا پسند تنظیم ''ہندوجنجا گرتی سمیتی‘‘ ہندو خواتین کے اسلام قبول کرکے مسلمان مردوں سے شادی کرنے کو مذہبی سازش قرار دے کر اس کے خلاف مہم چلا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم ''جسٹس فارآل‘‘ کی 2022ء میں ہونے والی ایک ورچوئل کانفرنس کے دوران امریکی ادارے جینو سائڈ واچ کے بانی پروفیسر گریگوری اسٹینٹن نے کہا تھا کہ بھارت نسل کشی کے آٹھویں مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور بھارتی مسلم کمیونٹی کا مکمل صفایا صرف ایک قدم کی دوری پر ہے اور نریندر مودی ایسا ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہیں۔
دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں ہونے والے فسادات‘ جو ابھی تک جاری ہیں‘ کے دوران جو تشویش ناک چیز سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ گروگرام (گڑگاؤں) کے تقریباً سو دیہات کے ہندوؤں کی مہا پنچایت‘ جس میں 1500کے لگ بھگ نمائندوں نے شرکت کی‘ نے مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کو مکان یا دکان کرائے پر نہ دی جائے اور مطالبہ کیا کہ مسجد کو نذرِ آتش اور امام کی ہلاکت پر درج ہونے والی ایف آئی آر سے ہندو لڑکوں کے نام ہٹائے جائیں۔ اس کے ساتھ مہا پنچایت نے جو ہدایت نامہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ہمیں مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا شناختی کارڈ دیکھیں اور اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں گھر یا اپنی دکان کرائے پر نہ دیں۔ اپنے ہندو بھائیوں کی دکانوں سے سامان خریدیں اور انہیں (مسلمانوں کو) اپنے گھریلو کام کاج کے لیے ملازم نہ رکھیں۔ گوشت کی دکانیں بھی والمیکیوں یا جو ہندو اسے چلانا چاہتے ہوں‘ ان کو دی جائیں۔ پولیس کے نام پنچایت کا ایک خط جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے‘ میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گاؤں میں کسی مسلم کو برداشت نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو گروگرام‘ مانیسر اور آس پاس کے گاؤں سے نکلنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت میں قوم پرست گروہ‘ مذہبی اقلیتوں کو دھمکیاں دینے‘ ہراساں کرنے اور ان پر حملے کرنے میں بااختیار ہیں۔
مودی کی طرزِ سیاست سامنے ہے لیکن عالمی ادارے‘ انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ یورپ اور امریکہ سمیت تمام طاقتور حلقے ان مظالم پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ زیادہ تکلیف تو اسلامی دنیاکے طرزِ عمل کی ہے جو اس سب کے باوجود مودی حکومت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھا رہے ہیں‘ جبکہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو اس عذاب سے نکالنے کے لیے اسلامی دنیا کی جانب سے بھارت کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی صرف دھمکی ہی مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس رویے کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لیے کافی ہوگی۔